سپریم کورٹ میں آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے درخواست کی سماعت، عدالت نے فوڈ سکیورٹی وزارت کی جانب سے آٹے قیمتوں بارے جائزہ رپورٹ مستردکردی ، وفاق اور صوبوں کو اس حوالے سے تحقیقات پر مبنی رپورٹ مرتب کرکے 2 مئی تک عدالت میں پیش کرنے کا حکم، آرٹیکل 9 اور 14 کے تحت ریاست شہریوں کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی اور معیار زندگی بلند کرنے کی ذمہ دار ہے‘ جسٹس جواد ایس خواجہ، آٹا افغانستان اور ایران سمگل ہورہا ہے،راولپنڈی سمیت مختلف شہروں میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 1150 روپے میں فروخت ہورہا ہے، غریب آدمی کی زندگی کا معاملہ ہے‘ حکومت پنجاب بتائے کہ کیا سب کچھ ٹھیک ہے اور سب کے بچوں کو 2350 کیلوریز خوراک مل رہی ہے اور کوئی بھوک نہیں سوتا ہے؟ سماعت کے دوران ریمارکس

بدھ 23 اپریل 2014 08:12

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔23اپریل۔2014ء) سپریم کورٹ میں جماعت اسلامی کی آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے درخواست کی سماعت کرتے ہوئے دو رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور بنیادی ضرورت زندگی کی فراہم کے دعوے تو بہت کرتی ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ آٹا افغانستان اور ایران سمگل ہورہا ہے اور راولپنڈی سمیت مختلف شہروں میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 1150 روپے میں فروخت ہورہا ہے‘ آرٹیکل 9 اور 14 کے تحت ریاست پر شہریوں کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی اور معیار زندگی بلند کرنے کی ذمہ داری ہے‘ ابھی تک صحیح حقائق اور تحقیقات پر مشتمل سروے رپورٹ نہیں بن سکی اور جو بھی اعدادو شمار دئیے جارہے ہیں اس سے غریب کی صورتحال کو سمجھنے میں مدد تو ملتی ہے لیکن اس کے حل کیلئے اقدامات کرنے اور آرڈر جاری کرنے میں معاونت نہیں مل رہی‘ غریب آدمی کی زندگی کا معاملہ ہے‘ حکومت پنجاب بتائے کہ کیا سب کچھ ٹھیک ہے اور سب کے بچوں کو 2350 کیلوریز خوراک مل رہی ہے اور کوئی بھوک نہیں سوتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز دئیے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے فوڈ سکیورٹی وزارت کی جانب سے آٹے کی قیمتوں بارے جائزہ رپورٹ مستردکردی ہے اور وفاق اور صوبوں سے کہا ہے کہ اس حوالے سے تحقیقات پر مبنی رپورٹ مرتب کرکے 2 مئی تک عدالت میں پیش کی جائے۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کی درخواست کی سماعت کے دوران درخواست گزار کی جانب سے توفیق آصف ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عتیق شاہ بھی موجود تھے۔ توفیق آصف نے بتایا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کیساتھ بیٹھ کر 7 روز میں ڈیٹا اکٹھا کیا۔ چاروں صوبوں سے رابطہ کیا گیا۔ ڈیٹا پراپر فارم میں تو نہیں ہے تاہم اس سے چاروں صوبوں کے نرخوں کا ضرور پتہ چلتا ہے۔ آٹا پورے ملک میں موجود ہے اس کی کوئی کمی نہیں ہے۔ 660 روپے فی 20 کلوگرام بہاولپور میں نرخ تھے‘ زیادہ سے زیادہ نرخ 1150 روپے فی 20 کلوگرام کوئٹہ میں نرخ ہیں۔

اسلام آباد میں 1100 روپے فی 20 کلوگرام ہے۔ فی کلوگرام نرخ 42 سے 56 روپے تک ہے۔ راولپنڈی میں بھی 1150 روپے نرخ ہے یہ صورتحال ہے۔ ہم دونوں نے ذاتی طور پر سفر کرکے یہ ڈیٹا حاصل کیا ہے۔

عدالت نے وزارت فوڈ سکیورٹیز سے آٹے کی قیمتوں کے چارٹ بارے پوچھا تو عدالت وہ چارٹ پیش کیا گیا جس کا عدالت نے بغور مطالعہ کیا۔ وزارت فوڈ سکیورٹی کے وکیل ڈاکٹر شکیل نے انڈسٹریل ایریا میں رہائش پذیر دو افراد کی تنخواہوں بارے اور آمدنی کی تفصیلات بھی دیں۔

9 ہزارر روپے کی تنخواہ میں وہ گزارہ کررہے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ سارے مہینے کا خرچ ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ جی ہاں یہ سارے مہینے کا خرچ ہے۔ جسٹس جواد نے کہاکہ 14 روپے فی کلوگرام دودھ کہاں سے ملتا ہے اس پر عدالت کو بتایا گیا کہ 14 نہیں 60 روپے درج ہے۔ عتیق شاہ نے کہا کہ غریب لوگوں کیلئے اس نرخ پر آٹا حاصل کرنا مشکل ہے۔ مرغی 80 روپے فی کلوگرام ہے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ یہ تو فوڈ آئیٹم ہیں۔ کپڑے خریدنے ہیں‘ گھر کا کرایہ اور سکول کی فیس دینی ہے۔ عتیق شاہ نے بتایا کہ جس ملازم کی تنخواہ کا گوشوارہ دیا گیا ہے وہ 39 فیصد کے علاوہ باقی سب خوراک پر خرچ کرتا ہے۔ ادارہ شماریات کا ڈیٹا بھی لگادیا ہے۔ نسبتاً 15 ہزار روپے میں کچھ نہ کچھ گزارہ ہوجاتا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم تو ریاست کی بات کرتے ہیں۔

گھر والے اگر کسی شخص کو سپورٹ کرتے ہیں تو وہ اپنی جگہ‘ ریاست کیا کرتی ہے ہم نے تو یہ دیکھنا ہے۔ بجلی‘ گیس اور پانی کے اخراجات غریب آدمی کیسے برداشت کرتا ہے۔ انہوں نے عتیق شاہ سے کہا کہ آپ اس پر مزید کام کرکے حقائق پر مبنی تصویر ہمارے سامنے لائیں بغیر کسی خرچے کے داتا صاحب سے تو کھانا مل جائے گا۔ ریاست کے لوگوں کو صرف کھانا فراہم کرنے کی ذمہ دار ہی نہیں ہے اور بھی چیزوں کی اسے ضرورت ہوتی ہے۔

آپ رپورٹ مفصل دے دیں۔ بعدازاں ماہرین کی ذمہ داری لگائیں گے۔ توفیق آصف نے کہا کہ ان کی رپورٹ میں یوٹیلٹی بلز موجود نہیں ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم حقائق تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ معاشی ماہرین کی رائے بھی جاننا چاہتے ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ادارہ شماریات کا کام اس طرح کا ڈیٹا اکٹھا کرنا ہے۔ وہ پورے ملک سے ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ادارہ شماریات کا ڈیٹا 2011-12ء کا فراہم کیا گیا ہے ہمیں تو 10 اپریل 2014ء کا ڈیٹا چاہئے۔

2011ء میں ممکن ہے کہ آمدنی 5 ہزار روپے ہو ہمیں موجودہ حالات کے مطابق ڈیٹا چاہئے۔

آمدنی کتنی ہے اور کس طرح کے اخراجات ایک آدمی برداشت کرتا ہے وہ سب چاہئے۔ ضروریات زندگی بارے تما م تر اخراجات کا چارٹ بناکر دیں عدالت اس کا جائزہ لے گی اور پروفیشنل اکانومسٹ کی رائے بھی منگوائیں گے۔ بنیادی چیز آرٹیکل 9 اور 14 پر عملدرآمد ہے اس پر مناسب حکم جاری کرنا پڑے گا۔

ابھی تک تصویر واضح نہیں ہوسکی۔ وزارت کامرس کے وکیل نے بتایا کہ ان کی وزارت فوڈ سکیورٹی حکام سے میٹنگ ہوچکی ہے۔ اس کی تفصیلات بھی دیں گے‘ کچھ وقت دے دیں اس پر عدالت نے کہا کہ اسے ہم کچھ دن بعد لگائیں گے آپ بھی اس پر رپورٹ دے دیجئے گا۔ بجلی‘ پانی‘ گیس‘ سفری اخراجات وغیرہ‘ جو رپورٹ پیش کی گئی ہے وہ اس میں شامل نہیں ہے۔ توفیق آصف نے کہا کہ راولپنڈی اسلام آباد میں 60 روپے فی کلوگرام دودھ نہیں ملتا۔

95 روپے فی کلوگرام تک دستیاب ہے۔ لوگ داتا دربار جائیں تو وہاں تو سب کچھ مفت مل جائے گا۔ توفیق آصف نے کہا کہ خیرپور میں فی کلوگرام آٹا 60 روپے میں مل رہا تھا۔ وزارت کامرس کے وکیل نے بتایا کہ چیزوں کے مارکیٹ آنے تک کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ٹرانسپورٹ بھی ہے اور بھی چیزیں اس میں شامل ہیں۔ ہم آرڈر پاس کرنے کیلئے سارا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔

ہر طرف مختلف نرخ نظر آرہے ہیں۔ ہم بھی سوچیں گے‘ آپ بھی سوچیں۔ ساڑھے گیارہ بجے اس معاملے کا دوبارہ جائزہ لیں گے‘ حقائق واضح نہیں ہیں۔ دیہاتی علاقوں میں آٹے کا مسئلہ شہروں کی نسبت کم ہے۔ ”جدے گھر دانڑے اودھے کملے وی سیانڑے“ سوچ تب ہی آئے گی جب پیٹ بھرا ہوگا وگرنہ سوچ منفی ہی پیدا ہوگی۔ وزارت کامرس کے وکیل نے کہا کہ ہمارے ملک میں بہت سی مشکلات ہیں۔

توفیق آصف نے کہا کہ گلگت بلتستان میں لوگوں نے آٹے کی وجہ سے سڑکیں بند کررکھی ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ سنجیدہ معاملات ہیں اور غریب آدمی اور آبادی کے گزارا کرنے کا معاملہ ہے۔ عتیق شاہ نے بتایا کہ ملتان میں روزانہ کی بنیاد پر فہرست آویزاں کی گئی‘ دکانداروں سے ڈیٹا حاصل کیا گیا۔ وہاں پر 785 روپے فی 20 کلوگرام نرخ رکھا گیا۔ بہاولپور میں 660 روپے کا نرخ نظر آیا‘ نوڈیرو اور لاڑکانہ بھی گئے آٹا موجود تھا۔

چمن اور پشین بھی آٹا جارہا تھا۔ آل پاکستان آٹا فروش آرگنائزیشن کے افغانستان جانے والے ٹرکوں کو دیکھاگیا۔ آٹا افغانستان سمگل ہورہا تھا۔ آٹا ہر جگہ موجود ہے مگر یکساں نرخوں کا معاملہ نہ ہونے کی وجہ سے مسائل ہیں‘ قیمتیں مقرر کرنے اور خلاف ورزی کرنے والوں کیخلاف کوئی خاص کارروائی نہیں کی جاتی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ڈیمانڈ اور سپلائی کا معاملہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔

یہ کوئی سائنسی طریقہ کار نہیں ہے کہ جس کے تحت آپ نے قیمتیں دیکھی ہیں۔ عتیق شاہ نے بتایا کہ 40 کلوگرام گندم کی قیمتیں مقرر کی جاتی ہیں۔ عوام تک آٹے کی پہنچ کے درمیان مشکلات اور پیچیدگیوں کو دور کرنا ہوگا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ایک چیز ایک قیمت میں جب دستیاب ہے تو ملک کے مختلف علاقوں میں قیمتیں مختلف کیوں ہیں یہ انتظامی ناکامی ہے۔ آٹا اگر سمگل ہور ہا ہے تو پھر اور بھی سوچنے کی بات ہے۔

میرے خیال میں تفتان بارڈر سے ایران بھی جاتا ہے۔ توفیق آصف نے بتایا کہ پشین میں فلور ملز کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ سخی سرور‘ ڈیرہ غازیخان میں بھی فلور ملز ہیں اور وہ کوٹہ گندم کا حاصل کررہے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہمارے ملک میں اجناس کی کوئی کمی نہیں ہے صرف انتظامی معاملات میں کمی ہے۔ کردار درست کرنے کا تو ہمارے اختیار میں نہیں تاہم انتظامی معاملات کو درست ضرور کرواسکتے ہیں۔

وزارت کامرس کے وکیل نے بتایا کہ اسلام آباد کے ادارے نے اس حوالے سے تحقیقات کی ہیں۔ زرعی اداروں کا ڈیٹا بھی ان کیساتھ موجود ہے۔ ان تحقیقات میں بااثر افراد کے اثرانداز ہونے کا کہا گیا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ داتا دربار میں کبھی کسی کو بھوکا نہیں دیکھا وہاں چاہے پانچ افراد گئے ہیں یا پانچ لاکھ افراد سب کو کھانا ملتا ہے یہ تو اولیاء کا فیضان ہے جو 1100 سال سے لنگر چل رہا ہے۔

آرٹیکل 9 اور 14 کا نفاذ چاہتے ہیں۔ توفیق آصف نے کہا کہ ورلڈ بینک یو این ڈی پی کا ڈیٹا آیا ہے جس میں غربت کی شرح بتائی گئی ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اس معاملے کے پھیلاؤ کی ضرورت نہیں ہے۔ غربت کی لکیر کہاں تک ہے؟ یہ ہمیں معلوم ہے ہمیں ان سے اعدادو شمار سے اتفاق نہیں۔ بھارت کے حوالے سے بھی ڈیٹا دیا گیا تھا مگر انہوں نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

توفیق آصف نے بتایا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ ڈویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ نے بھی سروے کیا تھا۔ 2009ء کا سروے ہے۔ 46 فیصد لوگوں کو خوراک دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 56 فیصد آبادی کو خوراک کی ضرورت ہے۔ 29 فیصد غربت کی لکیر سے بھی نیچے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہاکہ ان اعدادو شمار کی بات نہیں کررہے ہم تو اس کا حل چاہتے ہیں۔

وزارت کامرس کی طرف سے بتایا گیا کہ پنجاب میں قیمتوں کے کنٹرول کے حوالے سے کام ہورہا ہے۔ ریٹ لسٹ مارکیٹ کمیٹی کی جانب سے مہیاء کی جاتی ہے وہ ہر دکان پر موجود ہے۔ نیشنل پرائس مینجمنٹ کمیٹی ملکی سطح پر کام کررہی ہے۔جسٹس جواد نے کہا کہ18 ویں ترمیم میں بہت کچھ ہو چکا ہے اس حوالے سے کنفیوژن تاحال موجود ہیں ۔ہمارے پاس درخواستیں بھی آئی ہیں ۔

بلوچستان میں نیب کا ایک کیس آیا ہے۔ہم کردار ادا کرتے ہوئے پہلے معلومات حاصل کریں گے پھر دیکھیں کہ ہم نے آگے کیا کرتا ہے۔ وزارت کامرس کے وکیل نے تجویز پیش کی کہ اگر چیف سیکرٹریز مشترکہ اجلاس کر کے اس پر غور کریں گے اور ایک دوسرے کی سہولتوں سے فائدہ اٹھائیں۔یوٹیلٹی سٹورز سے بڑی تعداد میں لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں اس سے ضرور فائدہ ہوگا۔

توفیق آصف نے بتایا کہ سینٹ میں اس حوالے سے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے ۔اکنامک کمیٹی بھی صورت حال کو مانیٹر کرتی ہے پھر بھی نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ صورت حال تشویشناک ہے۔ ریاست اگر یہ سب کرے تو بہتر ہوگا۔ ہم نے تو اتنی سی کوشش کی ہے ۔سانگھڑ والے کیس میں بھی یہ ایکسرسائز کی گئی ہے۔آئیڈیا تو مل گیا ہے مگر تحقیقات ضروری ہے ۔

توفیق آصف نے کہا کہ زیروہنگر پروگرام کے حوالے سے حکومت سے پوچھا جائے کہ یہ ادارہ کیا کام کررہا ہے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ ہم نے اپنی تسلیم کے لئے آرڈر کیا تھا۔ ہماری تسلی ہوگئی ہے کہ گراؤنڈز بنیادوں پر کام تسلی بخش نہیں ہے ۔ہم اس کا جائزہ لیں گے کہ کس ادارے کی مہارت سے فائدہ اٹھا سکیں۔وزارت کامرس کے وکیل نے کہا کہ اگر ایف بی آر آٹے کی سمگلنگ روکنے میں کامیاب ہو جائے تو قیمتوں میں نمایاں کمی ہو جائے گی ۔

توفیق آصف نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے ایک آئٹم پر پابندی لگائی تو اب وہ سستا ہوگیا ہے ۔عدالت نے حکمنامہ تحریر کراتے ہوئے کہ عدالت کی قائم کردہ کمیٹی نے رپورٹ جمع کرا دی ہے ۔انہوں نے زمینی حقائق کے مطابق اعدادو شمار اکٹھے کئے ہیں ۔زندگی کا حق آرٹیکل 9 اور عظمت او احترام کا حق آرٹیکل14 میں دیا گیا ہے تاہم عملی طور پر اس میں کچھ نہیں کیا جارہا ہے ۔

یہ مناسب ہوگا کہ عدالت متعلقہ اعدادو شمار حاصل کرے جو معاشی اور تحقیقی طورپر مرتب کیا گیا ہو ۔اس مقصد کے لئے کسی ادارے کی ذمہ داری لگانے کی ضرورت ہوگی ۔ ڈاکٹر شکیل احمد فوڈ سکیورٹی کمشنر نے بھی کچھ معلومات مہیا کی ہیں جس سے ہمیں قیمتوں کے حوالے سے آئیڈیا ملا ہے مگر ضرور اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے ضروری سروے کرایا جائے جو آٹے کی قیمتوں کے حوالے سے اصل اعدادو شمار ہمیں مہیا کر سکے ۔

کچھ معلومات ہمیں شماریات ڈویژن نے بھی مہیا کیا ہے مگر اس کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔ہم نے یہ بھی نوٹ کیا ہے کہ ڈاکٹر شکیل احمد خان نے جو ڈیٹا فراہم کیا ہے اس کے مطابق تو آٹے کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں ۔روز مرہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ مشکلات پیدا کررہا ہے۔9 ہزار کی تنخواہ لینے والا دو بچوں کے ساتھ صرف خوراک پر 5523 روپے خرچ کررہا ہے جس پر یوٹیلٹی بلز بھی شامل نہیں ہیں اور بہت سے آئٹمز بھی ہیں جو غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں ۔

فیڈریشن اور صوبائی حکومتیں روز مرہ اشیاء کی قیمتوں پر قابو رکھنے کی ذمہ دار ہیں اور شہریوں کے حقوق کی بھی ذمہ دار ہیں۔آرٹیکل 38 کے تحت زندگی ابتدائی ضروریات زندگی فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔ مستقلی اور عارضی طور پر اقدامات حکومت ہی کرتی ہے ۔شہریوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے کی بھی ریاست ذمہ دار ہے۔جسٹس جواد نے کہا کہ قانون تو موجود ہے مگر اس پر عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے ۔اس کیس کی سماعت اگلے ہفتے کریں گے اور وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس کیس کے حوالے سے جواب داخل کریں ۔ہم کسی ادارے کی مہارت سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئیں گے اس حوالے سے اگر کوئی ادارہ آگے آناچاہیے تو اس کو اجازت ہے ۔عدالت نے سماعت2 مئی تک ملتوی کر دی۔