ایل پی جی کیس چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو ارسال،عدالت کے پاس وقت نہیں ہوگا اس لئے کس کی سماعت اگلے ماہ کرینگے، سپریم کورٹ

جمعرات 24 اپریل 2014 07:43

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔24اپریل۔2014ء)سپریم کورٹ نے ایل پی جی کیس کو اگلی ماہ سماعت کے لئے مقرر کرنے بارے معاملہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو ارسال کر دیا ہے ۔عدالت کا کہنا ہے کہ جمعرات کو عدالت کے پاس وقت نہیں ہوگا اس لئے اس کیس کی سماعت اگلے ماہ کریں گے ۔جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے بدھ کے روز کیس کی سماعت کی ۔

جام شورو جوائنٹ ونچر قیام خواجہ آصف کیس کی سماعت کے دوران وکیل خواجہ طارق رحیم پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ فیصلے میں7 فائنڈنگز ہیں ۔ریکارڈ پر موجود کاغذات کو صحیح طور پر پڑھ کر فیصلہ نہیں کیا گیا مس ریڈنگ کی گئی ۔ متعلقہ قانون کو مطعل کئے بغیر فیصلہ دیا۔ ایس ایس جی ایل اور وزارت پٹرولیم کے درمیان ہونے والا معاہدہ تھا۔

(جاری ہے)

رائلٹی 9.2 کا معاملہ تھا ۔

ہم نے13 ارب روپے ادا کئے ہیں ۔فیصلے میں معاہدے کی شرائط کو نہیں دیکھا گیا۔کہاگیا تھا کہ معاہدے پر دستخط کے بعد تین ماہ بعد معاہدے پر عملدرآمد ہوگا۔12 ستمبر کو بڈبانڈز دیئے گئے بورڈ کو نہیں بتایا گیا۔جے جے وی ایل کو قومی معاملات پر فائدہ پہنچایا گیا ۔انہوں نے کہا کہ (3) 184 کادائرہ کار اور نظر ثانی درخواست محدودحد تک ہوتی ہے۔ درخواست کے قابل سماعت ہونے اور آرٹیکل10 اے بارے میں دلائل دیئے ۔

بولی دینے کی دعوت سے معاملات کا آغاز ہوتا ہے جس میں مختلف پری کوالیفائیڈ کمپنیوں کو بولی دینے کی دعوت دی جاتی ہے۔ تمام بولی دہندگان کو بینک گارنٹی دینی پڑتی ہے ۔بولی کے طلب گار مالکان کسی بھی وقت بولی کو مسترد کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور اس حوالے سے وہ کسی وضاحت دینے کے بھی پابند نہیں ہوتے ۔اگر کوئی شخص بولی نہیں دیتا تو پھر بھی مالک اس کو بولی دینے کے لئے کہہ سکتے ہیں۔

مالک زیادہ سے زیادہ بولی دہندگان سے مذاکرات کے حق رکھتے ہیں۔جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ یہ سب تو عام معاملات ہیں جس کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ خواجہ طارق نے کہا کہ بولی دینے سے قبل بولی کے درمیان اور بولی کے آخر میں مالکان کو کسی ھی بولی دینے والے فریق سے مذاکرات کا حق حاصل ہے۔ایک دفعہ جب بولی کی ویلیوٹیشن ہو جاتی ہے تو ایس ای سجی ایل اس کو تحریری طور پر نوٹیفائی کرے گی اور اس پر معاہدے کے لئے شارٹ لسٹ بولی دہندہ سے مذاکرات کرے گی اور حتمی فیصلہ کرے گی اور بعد ازاں کامیاب بولی دہندگان کو لیٹر لکھے گی ۔

بولی کا عمل ہونے اور لیٹر لکھے جانے کے بعد مذاکرات شروع ہو کر مکمل ہو جاتے ہیں ۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ جب معاہدہ کے لئے مذاکرات مکمل ہو جاتے ہیں ۔کیا مذاکرات جاری رہیں گے ؟جسٹس جواد ایس خواجہ نے بھی یہی سوال کیا تو فاضل وکیل کا کہنا تھا جی ہاں مذاکرات جاری رہیں گے ۔ہر سطح پر کامیاب فریق سے مذاکرات جاری رہیں گے کہ یہاں تک کامیابی کا لیٹر ارسال کرنے کا مرحلہ آجائے گا۔

پھر اگلی سٹیج اور مرحلہ شروع ہوتا ہے ۔بولی کے مسترد ہونے تک مذاکرات جاری رہیں گے۔ ہر مرحلہ مذاکرات کرنے کا حق دے دیا ہے ۔ قانونی حیثیت کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے۔1998 ء سے 12 سال تک پلانٹ چلانے کا تجربہ نہیں تھا۔ نئی ٹیکنالوجی کا حامل پلانٹ تھا ۔پاکستان کو پتھر کے زمانے میں بھجوانے کی دھمکی دی گئی ۔نئے پلانٹ پر میرا اچھا خاصہ خرچ ہوا۔

97 فیصد ریکوری کرا دی تھی ۔اب وہ مرحلہ آگیا کہ معاہدے کے لئے مذاکرات کا آغاز ہوگیا۔ ایس ایس جی ایل جب تک متعلقہ اداروں سے اجازت حاصل نہیں کر لیتی اس وقت تک مذاکرات کو کامیاب قرار نہیں دیا جائیگا۔ لیٹر آف انٹرسٹ (LOi) کا پیریڈ مذاکرات کی ناکامی کے بعد شروع ہوتا ہے ۔بولی کو مسترد کرنے کے لئے ٹھوس وجوہات اب تو دینا پڑیں گے کیونکہ تین مراحل گزر چکے ہیں ۔

بولی کے بعد 30 روز دینے کا مقصد مزید تسلی کرنا ہے ۔اگر ایس ایس جی ریکارڈ کے ساتھ آ جائیں تو بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ آپ جو چاہیں یہاں پیش کر سکتے ہیں ۔جسٹس جواد نے کہا کہ آپ کا بولی چاہیے ریکارڈ لے آئیں۔مذاکرات کا ریکارڈ میرے پاس نہیں تھا۔پانچ قسم کے ڈرافت موجود ہیں ۔قانون کے مطابق معاہدہ اس وقت قابل عمل ہوگا جب تمام تر معاملات تحریری شکل میں ہوں گے۔

(فارم آف امپیلیمیٹینشن ایگزیمنٹ) معاہدہ کی تحریری شکل میں لایا جانا ضروری ہے ۔پراجیکٹ میں کامیاب پارٹی کو تمام پارٹیوں کی صورت حال سے آگاہ کیا جاتا ہے ۔تنازع کی شکل میں اس معاہدے کو دیکھا جائے گا۔ ہر مرحلے پر مذاکرات کو سامنے رکھا جائے گا۔بعد ازاں عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے معاملہ چیف جسٹس کو ارسال کردیا ہے۔