ایران میں طلاق کے رجحان میں غیر معمولی اضافہ،گذشتہ ایک برس کے دوران انجام پائی بیس میں سے پانچ شادیاں طلاق پر منتج ہوئیں ،غربت، منشیات اور شوہر کا بیوی پر تشدد بھی طلاق میں اضافے کا باعث ہیں،تہران حکومت صورتحال پر انتہائی پریشان

جمعرات 24 اپریل 2014 07:36

تہران(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔24اپریل۔2014ء)ایران میں طلاق کی شرح میں غیر معمولی اضافہ سامنے آیا ہے، جس کے نتیجے میں عمر رسیدہ افراد کے مقابلے میں نوجوانوں کی تعداد میں اضافے کی حکومتی پالیسی ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی"ایرنا" کے مطابق گذشتہ ایک برس کے دوران انجام پائی بیس میں سے پانچ شادیاں طلاق پر منتج ہوئی ہیں۔

دوسری طرف حکومت کی شہریوں کو زیادہ سے زیادہ شادیاں اور زیادہ بچے پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کے باوجود طلاق کے رجحان میں غیر معمولی اضافے سے حکومتی حلقے بھی پریشان دکھائی دیتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق تہران جیسے بڑے شہروں میں گذشتہ سات برسوں میں طلاق کا رجحان 12 فی صد سے بڑھ کر 21 فی صد تک جا پہنچا ہے۔

(جاری ہے)

تہران میں یہ شرح ایک تہائی ہے۔

یعنی ہر تین میں سے ایک شادی جلد ہی ختم ہو جاتی ہے۔ایران کے قومی ادارہ شماریات کے چیئرمین احمد تویسرکانی کا کہنا ہے کہ مارچ 2013ء سے مارچ 2014ء کے عرصے میں ایران میں 07 لاکھ 57 ہزار753 شادیاں ہوئیں جو کہ اس سے پچھلے سال کی نسبت 4.4 فی صد کم رہیں جبکہ اسی عرصے میں طلاق کے ایک لاکھ 58 ہزار 753 واقعات رونما ہوئے جو کہ ملک میں طلاق کی شرح میں 4.6 فی صد اضافہ ہے۔

ایران میں طلاق کے بڑھتے رجحان کے اسباب ومحرکات کے بارے میں تویسرکانی کا کہنا تھا کہ طلاق کے کئی اسباب ہیں۔ میاں بیوی کے درمیان معمولی جھگڑے بھی اکثر طلاق پر منتج ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ غربت، منشیات اور شوہر کا بیوی پر تشدد بھی طلاق میں اضافے کا باعث ہیں۔ادھر ایرانی وزارت صحت کے مطابق گذشتہ ایک سال کے دوران نومولود بچوں کی پیدائش کی شرح 1.8 فی صد رہی جبکہ مجموعی طور پر آبادی کی شرح 1.2 رہی ہے۔

خیال رہے کہ ایرانی حکومت ملک میں نوجوانوں کی تعداد میں بڑھتی ہوئی قلت سے پریشان دکھائی دیتی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اگر نئے بچوں کی پیدائش کی شرح میں اسی طرح کمی جاری رہی تو اگلے تیس سال کے دوران ملک میں صرف بوڑھے رہ جائیں گے۔ایرانی حکومت کے عہدیدار محمد ناظمی اردکانی کا کہنا ہے کہ بچوں کی پیدائش کی شرح میں غیر معمولی کمی تشویش کا باعث ہے۔

اگر یہ بدستور جاری رہتی ہے تو اگلے تیس سال کے بعد ہمیں ایک نوجوان بھی نہیں ملے گا۔آبادی میں اضافے کے حوالے سے ایرانی مجلس شوریٰ میں بحث بھی ہوتی رہتی ہے جس میں عوام سے زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے ذاتی طور پر حکومتی عہدیداروں سے کہہ رکھا ہے کہ وہ عوام میں زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ اگلے پچاس سال میں ایران کی آبادی 77 ملین سے بڑھا کر 150 ملین کی جا سکے۔

متعلقہ عنوان :