قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کی ذیلی کمیٹی کا سابقہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں پر عملدر آمد نہ ہونے پر شدید برہمی کا اظہار،پی اے سی کی جانب سے آج تک کئے گئے تمام فیصلوں پر عملدر آمد و عملدرآمد نہ کرنے کے ذمہ داران کا تعین کر کے رپورٹ طلب ، پاکستان اسٹیل مل کا 6 سال میں 108 ارب کا نقصان ہوا،7000 ملازمین کی ضرورت ہے، 18000 کام کر رہے ہیں،5000ہزار اضافی ملازمین بھرتی کیئے گئے ، ایڈیشنل سیکرٹری صنعت و پیدا وار کی بریفنگ

جمعہ 25 اپریل 2014 08:38

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔25اپریل۔2014ء) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کی ذیلی کمیٹی نے سابقہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں پر عملدر آمد نہ ہونے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پی اے سی کی جانب سے آج تک کئے گئے تمام فیصلوں پر عملدر آمد کی رپورٹ طلب کر تے ہوئے عملدرآمد نہ کرنے والے ذمہ داران کا تعین کر کے رپورٹ طلب کر لی ہے ،جبکہ ایڈیشنل سیکرٹری صنعت و پیداوارخضر حیات نے بتایا پاکستان اسٹیل مل کا 6 سال میں 108 ارب کا نقصان ہوا،7000 ملازمین کی ضرورت ہے، 18000 کام کر رہے ہیں،5000ہزار اضافی ملازمین بھرتی کیئے گئے ، وزارت کے 25 ادارے نقصان میں ہیں،ہر ادارہ 2 ارب مانگ رہا ہے، مگر حکومت پیسے نہیں دے گی،ان اداروں سے ملازمین نکالنا حکومت کا سیاسی فیصلہ ہو گا، وزارت کے 28 اداروں پر کوئی کنٹرول نہیں،ان اداروں کے بورڈز بھی بااختیار ہیں،کمیٹی میں سیکرٹری قربانی کا بکرا بن جاتا ہے۔

(جاری ہے)

کمیٹی کا اجلاس کنوینئر کمیٹی رانا افضال کی زیر صدار ت جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا ۔ آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہوزارت صعنت و پیداوار کے ادارے پیٹاک میں 1996ء میں افسران کی غیر قانونی تقرری کی گئی جس پر کمیٹی نے برہمی کا اظہار کر تے ہوئے کہا ہے کہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ ایسے ضائع نہیں ہونے دیں گے، کمیٹی نے ذمہ دران کے خلاف 2 ہفتوں میں کارروائی کی ہدایت کر دی ۔

کمیٹی نے سٹیٹ انجینئرنگ کارپوریشن کے مالی سال 1994-95ء سے 1996-97ء کے دوران مسلسل نقصانات پر ذمہ داران کا تعین کرنے کی ہدایت کی ۔ کمیٹی نے کہا کہ منافع بخش ادارہ صرف ہیوی مکینیکل کمپلیکس ہے، یوٹیلیٹی سٹور حکومت سے پیسے نہیں لیتی مگر منافع ہے، باقی سارے ادارے خسارے میں جا رہے ہیں۔ ایم ڈی مشین ٹول فیکٹری نے موقف اختیار کیا کہ پاکستان میں مشین رول فیکٹری کو بند کر دیا تو بہت نقصان ہو گا، اگر پیسہ دیا جائے تو ادارہ چلا سکتے ہیں۔

جس پر کمیٹی رکن میاں عبدالمنان نے کہا کہ مشین ٹول فیکٹری مجھے ایک سال کے لئے دے دیں، اگر منافع نہ ہوا تو پھانسی پر لٹکا دیں۔ کنوینئر کمیٹی نے کہا کہ ان لوگوں کے مطابق ہر چیز کی نجکاری کر دی جائے، کل تو یہ لوگ کہیں گے کہ پارلیمنٹ کو بھی فروخت کر دیں۔ کمیٹی نے آڈٹ اعتراضات کونمٹایا نہیں ۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس نے ایک کروڑ 52 لاکھ 23ہزار روپے کے قرضے اور ایڈوانس لینے ہیں، جس پر ایم ڈی ایچ ای سی نے بتایا کہ بعض معاملات عدالتوں میں ہیں،13لاکھ روپے کی رقم ریکور کرنی ہے اور اس پر قانونی چارہ جوئی کا خرچہ 13 لاکھ روپے آ جائے گا، جس پر کمیٹی نے 2004ء کے بعد آنے والے تمام منیجنگ ڈائریکٹر سے انکوائری کر کے رپورٹ کمیٹی میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

آڈٹ حکام نے بتایا کہ گھی کارپوریشن آف پاکستان میں مالی سال 1997ء تک 63کروڑ1لاکھ 92ہزار تھا، جس پر کمیٹی نے کہا کہ اگر ایسی کمپنی چین میں ہوتی تو ذمہ داران کو پھانسی پر لٹکا دیا جاتا، قومی دولت کو مال مفت دل بے رحم کے مصداق خرچ کر دیا جاتا ہے۔ کمیٹی نے 63کروڑ روپے کے نقصانات کی دوبارہ انکوائری کرانے کی ہدایت کر دیا ہے۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ یوٹیلیٹی سٹور کارپوریشن نے 1994-95ء میں جو دال مسور 330 میٹرک ٹن ترکی سے منگوائی گئی تھی اس کی رسیدوں میں 67لاکھ83 ہزار روپے کا نقصان سامنے آیا ہے، جس پر پی اے او نے بتایا کہ کیس نیب کو بھجوایا گیا تھا، نیب نے یہ کیس واپس بھیج دیا ہے۔

نیب حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ یوٹیلیٹی سٹور نے دس سالوں سے ہمیں ریکارڈ ہی نہیں دیا،12مارچ 2012ء کو ہمیں ریکارڈ دیا اور 16 نومبر 2012 کو ہم نے تمام ریکارڈ بورڈ کو واپس کر دیا کہ اس پر ادارہ خود ایکشن لے۔ جس کا تسلی بخش جواب ایم ڈی یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن نہ دے سکے۔ کمیٹی نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ایک ترکش کمپنی کی سیکورٹی ضبط نہ کرنے کے معاملے کی 1 ماہ میں تحقیقات کا حکم دے دیا ۔

آڈٹ حکام نے بتایا کہ گھی کارپوریشن آف پاکستان نے 20 کروڑ 29 لاکھ 80ہزار روپے کی 6 گھی ملیں نجکاری کمیشن کے ذریعے فروخت کی تھیں جن کے 8کروڑ 40لاکھ 54ہزار روپے 2002ء سے ابھی تک وصول نہیں ہو سکے ہیں۔ حکام نے بتایا کہ ہری پور گھی مل سے 5 کروڑ 39 لاکھ 72ہزار اور سورج گھی مل سے 7 کروڑ 58 لاکھ 11 ہزار وصول کرنے ہیں۔ کمیٹی نے جواب سے مطمئن نہ ہونے پر سیکرٹری صنعت و پیداوار کو ایک دن کا موقع دیا ہے کہ وہ جمعہ کو کمیٹی میں مکمل تیاری کے ساتھ شرکت کرے۔

کمیٹی کو ایڈیشنل سیکرٹری صنعت و پیداوار خضر حیات نے بتایا کہ وزارت کے 25 ادارے نقصان میں ہیں،یوٹیلیٹی اسٹورز اور ہیوی میکینکل کمپلکس منافع میں ہیں۔ہر ادارہ 2 ارب مانگ رہا ہے، مگر حکومت پیسے نہیں دے گی۔ان اداروں کی نجکاری ہو گی،ماضی میں کارپوریشنز میں سی ای او سیاستی بنیادوں پر لگائے گئے اب بورڈز ارکان اور سی ای او میرٹ پر تعینات کیے جار ہے ہیں،ان اداروں سے ملازمین نکالنا حکومت کا سیاسی فیصلہ ہو گا،کمیٹی نے کہا کہ اداروں میں بھرتی ہونے افراد کی فہرست فراہم کی جائے، کنوینیئر کمیٹی رانا افضال نے کہا کہ یہ افراد کن کے کہنے پر بھرتی ہوئے، تعین کیا جائے، ادارے خود اپنے پاوٴں میں کھڑے ہوں،ہر چیز نجی صوبے کے حوالے نہیں کر سکتے،کل کوئی پارلیمنٹ کی نجکاری کا بھی کہے گا،ایڈیشنل سیکرٹری صنعت و پیداوار نے کہا کہ پاکستان اسٹیل مل کا 6 سال میں 108 ارب کا نقصان ہوا،7000 ملازمین کی ضرورت ہے، 18000 کام کر رہے ہیں،11000 اضافی ملازمین کا فیصلہ حکومت نے کرنا ہے، وزارت کے 28 اداروں پر کوئی کنٹرول نہیں،ان اداروں کے بورڈز بھی بااختیار ہیں،کمیٹی میں سیکرٹری قربانی کا بکرا بن جاتا ہے،پاکستان مشین ٹول فیکٹری کو وزارت دفاعی پیداوار کے حوالے کر دیا جائے،کمیٹی نے سابقہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں پر عملدر آمد نہ ہونے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پی اے سی کی جانب سے آج تک کئے گئے تمام فیصلوں پر عملدر آمد کی رپورٹ طلب کر تے ہوئے عملدرآمد نہ کرنے والے افسران کا تعین کر کے رپورٹ طلب کر لی ہے ۔