طالبان نے مذاکرات کیلئے جنوبی وزیرستان کا انتخاب کر لیا ، مذاکراتی کمیٹی کے ارکان کی تعداد بڑھانے پر بھی زور ،افغان طالبان کا پاکستانی طالبان دھڑوں کے درمیان فائر بندی کرانے کا دعویٰ ،میران شاہ میں پمفلٹ تقسیم کئے گئے ، پستو زبان میں لکھے گئے پمفلٹ میں لکھا گیا کہ طالبان دھڑوں کے درمیان سیز فائر میں 12 اگست تک توسیع ہو گی،غیر ملکی خبر ایجنسی کا دعوی ،جنگ اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے، مذاکرات کا آئندہ دور کسی قبائلی علاقے میں متوقع ہے، پروفیسر ابراہیم

اتوار 27 اپریل 2014 08:12

پشاور( رحمت اللہ شباب۔اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27اپریل۔2014ء)طالبان نے مذاکرات کیلئے جنوبی وزیرستان کا انتخاب کر لیا ہے ، اور مذاکراتی کمیٹی کے ارکان کی تعداد بڑھانے پر بھی زور دیا ہے ۔ اس سلسلے میں طالبان کی سیاسی شوریٰ نے مولانا سمیع الحق کو آگاہ کر دیا ہے ۔ طالبان کے اندرونی ذرائع نے بتایا ہے کہ طالبان نے اپنی کمیٹی یعنی سیاسی شوریٰ کے علاوہ دو چھوٹی کمیٹیاں بھی قائم کر دی ہیں ۔

پہلی کمیٹی کو مشاورتی کمیٹی کا نام دیا گیا ہے ۔ جو 7افراد پر مشتمل ہے ۔ مشاورتی کمیٹی طالبان کے دیگر گروپوں کے ساتھ مشاورت کرے گی اور بعد میں سیاسی شوریٰ تک معاملات پہنچنائے گی ۔ دوسری کمیٹی کا نام سپریم کمیٹی رکھ دیا گیا ہے ۔ اس کمیٹی میں علمائے کرام ، جرگہ کے ماہر 7افراد کو شامل کیا گیا ہے ۔

(جاری ہے)

مشاورتی کمیٹی کی جانب سے پیش کردہ تجاویز پر سیاسی شوریٰ اور دونوں کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس ہو گا اور جو فیصلہ ہو گا وہ حکومتی کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا ۔

مذاکرات کو حتمی شکل دینے کیلئے عمر میڈیا کو بھی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ عمر میڈیا ان افراد کے نام ، ولدیت اور پتے جمع کر رہا ہے جنہیں شک کی بناء پر حکومتی ایجنسیوں نے تحویل میں لیا ہوا ہے ۔ ادھرجماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر اور طالبان مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسرمحمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ طالبان شوریٰ سے ابتدائی رابطہ ہوگیا ہے اور جیسے ہی ان کی طرف سے جواب موصول ہوگا دونوں کمیٹیوں اور طالبان شوریٰ کے درمیان براہ راست مذاکرات کے دوسرے دور کے لئے تاریخ اور جگہ کا تعین کرلیا جائے گا۔

امید ہے آئندہ چند روز میں حکومت طالبان مذاکرات دوبارہ پٹڑی پر آجائیں گے۔ جنگ اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ۔ مذاکرات کا آئندہ دور کسی قبائلی علاقے میں متوقع ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے المرکز اسلامی میں ہفتہ کے روزمختلف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کوالگ الگ انٹرویوزدیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اور طالبان کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس میں ہمیں طالبان سے مذاکرات کے آئندہ دور کے لئے رابطے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ طالبان کمیٹی کے رابطہٴ کار مولانا یوسف شاہ کا طالبان قیادت سے رابطہ ہوگیا ہے اور اب ہمیں طالبان کی طرف سے جواب کا انتظار ہے جو امید ہے جلد مل جائے گا۔انہوں نے کہا کہ دونوں طرف سے قیدیوں کی رہائی سے مذاکرات کا ماحول سازگار بنانے اور اعتماد سازی میں بہت بڑی مدد ملے گی۔پروفیسر محمد ابراہیم خان نے مزید کہا کہ حکومت اور طالبان کمیٹی کے درمیان گزشتہ اجلاس میں یہ محسوس کیا گیا کہ ایک ایسی سب کمیٹی ہونی چاہئے جو طالبان اور حکومت دونوں کی شکایات کا جائزہ لیا کرے اور تحقیق کے بعد اگر کسی بھی فریق کی شکایت درست ثابت ہو تو اسکا ازالہ کیا جاسکے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا ایجنڈا ملک میں امن کا قیام ہے اور تمام تر رکاوٴٹوں اور مشکلات کے باوجود ہم امن کے لئے اپنی کاوشیں جاری رکھیں گے۔ پوری قوم گزشتہ دس برسوں سے مسلسل بدامنی اور انتشار سے تنگ آچکی ہے ۔ لوگ چاہتے ہیں کہ انہیں امن و سکون کا ماحول میسر آئے ۔ انہوں نے کہا کہ امن آئے گا تو ملک میں خوشحالی آئے گی اور ملک اقتصادی اور معاشی طور سے بھی آگے بڑھے گا اور بیرونی سرمایہ کار بھی پاکستان کا رخ کریں گے۔

جبکہ افغان طالبان نے پاکستان کے طالبان دھڑوں کے درمیان فائر بندی کرانے کا دعوی کیا ہے۔غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ میں گذشتہ روز پمفلٹ تقسیم کئے گئے ہیں۔جس پر پستو زبان میں لکھا ہوا ہے کہ طالبان دھڑوں کے درمیان سیز فائر میں 12 اگست تک توسیع ہو گی ہے اور اس پمفلٹ پر لکھا ہوا ہے کہ سیز فائر اسلامک امارت افغانستان نے کرائے ہیں۔

خان سجنا گروپ کے ایک کمانڈر نے معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے غیر ملکی خبر ایجنسی کو بتایا ہے کہ ہم اس معاہدے پرسختی کے ساتھ عمل درآمد کریں گے۔ رپورٹ کے مطابق حکیم اللہ محسود کے مارے جانے کے بعد خان سید سجنا کا نام طالبان کمانڈر کے لئے مسترد کئے جانے پر دونوں دھڑون کے درمیان لڑائی شروع ہوئی تھی اور اب تک 60 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔