سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی پالیسی تبدیل،قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی نے عدالتی افسران کے وزارت قانون یا صوبائی محکمہ ہائے قانون میں جانے پر عائد پابندی ختم کر دی ، ہائی کورٹس عدالتی افسران کو انتظامی عہدے پر جانے کی اجازت دے سکتی ہیں، عدالتی افسران کے عدلیہ سے تعلق ختم ہوجائے گا ، اسلام آباد میں ضلعی عدالتوں اور ماڈل جیل کی جلد تکمیل کیلئے سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک ایک جج پر مشتمل کمیٹی قائم،چیف جسٹس کا 2014ء کو مذہبی برداشت کے فروغ کا سال قرار دینے اور اقلیتو ں کے تحفظ کیلئے موثر قانون سازی پر زو ردیا ، دنیا میں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے ،جسٹس تصدق حسین جیلانی

اتوار 27 اپریل 2014 08:12

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27اپریل۔2014ء) قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے عدالتی افسران کے وزارت قانون یا صوبائی محکمہ ہائے قانون میں جانے پر عائد پابندی ختم کردی ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ ہائی کورٹس عدالتی افسران کو انتظامی عہدے پر جانے کی اجازت دے سکتی ہیں تاہم عدالتی افسران کے عدلیہ سے تعلق ختم ہوجائے گا جبکہ اسلام آباد میں ضلعی عدالتوں اور ماڈل جیل کی جلد از جلد تکمیل کیلئے سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک ایک جج پر مشتمل کمیٹی قائم کردی ہے جو ان منصوبوں کی نگرانی کرے گی اور چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے 2014ء کو مذہبی برداشت کے فروغ کا سال قرار دینے اور اقلیتو ں کے تحفظ کیلئے موثر قانون سازی پر زو ردیا ہے ۔

(جاری ہے)

قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کا اجلاس ہفتہ کو یہاں چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی صدارت میں ہوا اجلاس میں چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت جسٹس آغا رفیق احمد خان ، چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس عمر عطاء بندیال ، چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس مقبول باقر ، چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس مظہر عالم خان میانخیل سمیت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس محمد انور خان کاسی ، چیف جسٹس سپریم کورٹ آزاد جموں وکشمیر جسٹس محمد اعظم خان ، چیف جج سپریم اپلیٹ کورٹ گلگت بلتستان جسٹس رانا محمد ارشد خان اور چیف جج چیف کورٹ گلگت بلتستان جسٹس صاحب خان نے شرکت کی ۔

فاضل چیف جسٹس اور پالیسی ساز کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ زندگی کے تمام شعبوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کردار بڑھ گیا ہے اگرچہ عدلیہ نے اپنے نظام میں نظم و ضبط اور انتظام کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی متعارف کرائی ہے لیکن ابھی ہم اس کے خاطر خواہ فوائد حاصل نہیں کرسکے یکساں ، مربوط انفارمیشن سسٹم کی تنصیب سے اطلاعات کی فراہمی اور عدلیہ کی کارکردگی بہتر ہوگی اور وہ وقت بچے گا جو کاغذوں پر خرچ ہوتا ہے ۔

کمیٹی نے وزارت قانون و انصاف کی طرف سے قومی جوڈیشل پالیسی میں نرمی کرتے ہوئے عدالتی افسران کو وزارت میں تعینات کرنے کے بارے میں درخواست کا جائزہ لیا ۔ کمیٹی نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ عدالتی افسران کی انتظامی عہدوں پر تقرری عدلیہ کی آزادی کے اصول کے منافی ہے تاہم وزارت قانون اور متعلقہ محکموں کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہائی کورٹس عدالتی افسران کو ان میں جانے اجازت دے سکتی ہیں تاہم عدالتی افسران کو عدلیہ سے ناطہ توڑنا ہوگا ۔

کمیٹی نے تنازعات نمٹانے کے متبادل طریقہ کار کے بارے میں سندھ ہائی کورٹ کے قواعد کا جائزہ لیا فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ اگرچہ ضابطہ دیوانی (سی پی سی )میں سیکشن 89Aمتعارف کرائے ہوئے دس سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے جس کے تحت تنازعات نمٹانے کے متبادل طریقہ کار کا تعین کیا گیا تھا لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ اب تک قواعد نہیں بنائے جاسکے جس کے باعث عوام کو اس کا فائدہ نہیں ہوسکا کمیٹی نے تفصیلی غور کے بعد فاضل جج جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا جس میں ہر ہائی کورٹ کا ایک جج شامل ہوگا اور یہ کمیٹی سی پی سی کے سیکشن 89Aکو موثر بنانے کیلئے یکساں قواعد تجویز کرے گی ۔

کمیٹی نے بین الاقوامی عدالتی کانفرنس 2014ء کی سفارشات کا بھی جائزہ لیا فاضل چیف جسٹس نے اس کانفرنس کو کامیاب بنانے کیلئے متعلقہ کمیٹی کے ارکان کے کردار کو سراہا ۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس میں ملکی اور بین الاقوامی وفود کی شرکت اس بات کا اظہار ہے کہ عدلیہ پر توجہ مرکوز ہوچکی ہے جس کی وجہ ملک میں قانون اور آئین کی حکمرانی کے لئے کام کرنا ہے یہ ایک اچھی ابتداء ہے اور اس سے یقیناً ہمارے ملک کا وقار بھی بلند ہوگا ۔

کمیٹی نے کہا کہ ورکنگ گروپوں کی طرف سے پیش کی گئی سفارشات پر عملدرآمد سے انصاف کا انتظام بہتر ہوگا اورمعاشرے میں برداشت اور قانون کی حکمرانی کے فروغ کی راہ ہموار ہوگی ۔ کمیٹی نے ان پر عملدرآمد کی منظوری دی ۔ چیف جسٹس نے اجلاس کے دوران اسلام آباد میں ضلعی عدالتوں اور ماڈل جیل کے قیام میں تاخیر کا سخت نوٹس لیا اور کہا کہ ضلعی عدالت اسلام آباد پر حالیہ خود کش حملے میں درخواست گزاروں ، وکلاء اور عدالتی افسران کی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں انہیں پرامن اور تحفظ والا ماحول فراہم کرنے کیلئے ان منصوبوں پر فوری عملدرآمد ضروری ہے ۔

چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے فاضل جج کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک جج بھی شامل ہوگا اور یہ کمیٹی ان منصوبوں کی فوری تکمیل کی نگرانی کرے گی ۔ اجلا س سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے رواں سال 2014ء کو ملک میں مذہبی برداشت کے فروغ کا سال قرار دینے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ ملک میں اقلیتوں کے تحفظ کیلئے موثر قوانین بننے چاہئیں ، انسانی حقوق کے تحفظ میں عدلیہ کا کردار انتہائی اہم ہے دنیا میں بہت سے ملکوں میں اقلیت میں موجود مسلمانوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے عدالتی کارکردگی بہتر ہوئی ہے تاہم اس میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں اقلیتوں کے تحفظ کیلئے موثرقوانین بننے چاہئیں انسانی حقوق کے تحفظ میں عدلیہ کا اہم کردار ہے 2014ء کو برداشت کے کلچر اور مذہبی ہم آہنگی کا سال قرار دینا چاہیے انہوں نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ نے انفارمیشن ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کیا ہے بین الاقوامی جوڈیشل کانفرنس کی سفارشات پر بھی غور کیا جائیگا۔انہوں نے کہا کہ معاشرے میں برداشت کے کلچر کے فروغ کیلئے عدلیہ کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے دنیا بھر کے بہت سے ملکوں میں مسلمان اقلیت میں رہائش پذیر ہیں اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ غیر مسلم ملکوں میں مقیم مسلمانوں کو عبادت کرنے سمیت دیگر حقوق احسن طور پر دیئے جائیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے سمیت ان کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں حکومت کو چاہیے کہ وہ قوانین پر عملدرآمد کے لیے مزید موثر لائحہ عمل مرتب کرے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ وہ تجویز دیتے ہیں کہ ملک میں رواں سال 2014ء کو مذہبی برداشت کے فروغ کا سال قرار دیا جائے انہوں نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے موثر استعمال کے ذریعے مقدمات کے انتظامات ، عدالتی ریکارڈ کے تحفظ اور وکلاء کو ایس ایم ایس الرٹس سمیت دیگر فوائد بھی حاصل کئے جس سے عدالت کی کارروائی بہتر ہوئی ہے تاہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مکمل استعمال سے عدالتی کارکردگی مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔

ادھرچیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی نے رواں سال 2014ء کو ملک میں مذہبی برداشت کے فروغ کا سال قرار دینے کی تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں اقلیتوں کے تحفظ کیلئے موثر قوانین بننے چاہئیں ، انسانی حقوق کے تحفظ میں عدلیہ کا کردار انتہائی اہم ہے دنیا میں بہت سے ملکوں میں اقلیت میں موجود مسلمانوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے عدالتی کارکردگی بہتر ہوئی ہے تاہم اس میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے ۔

ہفتہ کو لاہور میں نیشنل جوڈیشل پالیسی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس کی صدارت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کی اجلاس میں چاروں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان نے شرکت کی ۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ ملک میں اقلیتوں کے تحفظ کیلئے موثرقوانین بننے چاہیں انسانی حقوق کے تحفظ میں عدلیہ کا اہم کردار ہے 2014ء کو برداشت کے کلچر اور مذہبی ہم آہنگی کا سال قرار دینا چاہیے انہوں نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ نے انفارمیشن ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کیا ہے بین الاقوامی جوڈیشل کانفرنس کی سفارشات پر بھی غور کیا جائیگا ۔

انہوں نے کہا کہ معاشرے میں برداشت کے کلچر کے فروغ کیلئے عدلیہ کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے دنیا بھر کے بہت سے ملکوں میں مسلمان اقلیت میں رہائش پذیر ہیں اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ غیر مسلم ملکوں میں مقیم مسلمانوں کو عبادت کرنے سمیت دیگر حقوق احسن طور پر دیئے جائیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے سمیت ان کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں حکومت کو چاہیے کہ وہ قوانین پر عملدرآمد کے لیے مزید موثر لائحہ عمل مرتب کرے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ وہ تجویز دیتے ہیں کہ ملک میں رواں سال 2014ء کو مذہبی برداشت کے فروغ کا سال قرار دیا جائے انہوں نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے موثر استعمال کے ذریعے مقدمات کے انتظامات ، عدالتی ریکارڈ کے تحفظ اور وکلاء کو ایس ایم ایس الرٹس سمیت دیگر فوائد بھی حاصل کئے جس سے عدالت کی کارروائی بہتر ہوئی ہے تاہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مکمل استعمال سے عدالتی کارکردگی مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔