ملک میں سی این جی انڈسٹری بغیر کسی قانون اور ضابطہ اخلاق کے لگائی گئی ،یہ انڈسٹری نہیں لگنی چاہیے تھی،شاہد خاقان عباسی ،ماضی حکومتوں کے غلط فیصلوں کے سے آج پاکستان انرجی کرائسسز کا شکار ہے۔قطر کی حکومت کے ساتھ ایل این جی کا معاہدہ رشتہ داریوں کی بنیاد پر نہیں ہوگا۔ شجاعت عظیم کا اس معاہدے سے کوئی تعلق نہیں ، امریکی اور بین الاقوامی پابندیوں کے باعث پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبہ جاری رکھنا مشکل ہے ،وفاقی وزیر پٹرولیم کی صحافیوں سے گفتگو

منگل 29 اپریل 2014 10:42

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔29 اپریل۔2014ء)وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ملک میں سی این جی انڈسٹری بغیر کسی قانون اور ضابطہ اخلاق کے تحت لگائی گئی ۔یہ انڈسٹری نہیں لگنی چاہیے تھی ۔ماضی حکومتوں کے غلط فیصلوں کے باعث آج پاکستان انرجی کرائسسز کا شکار ہے۔قطر کی حکومت کے ساتھ ایل این جی کا معاہدہ رشتہ داریوں کی بنیاد پر نہیں ہوگا۔

شجاعت عظیم کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ گیس کی ڈیمانڈ 6 بلین مکعب فٹ ہے جبکہ سپلائی4بلین مکعب فٹ ہے۔ ہزار مرتبہ کہہ سکتا ہوں کہ امریکی اور بین الاقوامی پابندیوں کے باعث پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبہ جاری رکھنا مشکل ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پہلے گاڑیوں کو ہفتے میں 72 گھنٹے سی این جی مل رہی تھی اب 54 گھنٹے مل رہی ہے ۔دورانیہ کم ہونے کے باعث مسائل میں اضافہ ہوا ہے اور گاڑیوں کی قطاریں لگ گئی ہیں۔ ملک میں گیس کی ڈیمانڈ زیادہ اور سپلائی کم ہے ۔ ایل این جی کے حوالے سے قطر کے ساتھ جو معاہدہ ہوگا وہ حکومتی سطح پر ہوگا ۔اس میں کسی قسم کی رشتہ داریوں نہیں ہوگی اور نہ ہی اس معاہدے سے شجاعت عظیم کا کوئی تعلق ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں سی این جی کی انڈسٹری نہیں لگنی چاہیے تھی اس سے خرابیاں اور مسائل پیدا ہوئے ہیں ۔جو لوگ ملک میں انرجی بحران کا ذمہ دار موجودہ حکومت کو ٹھہرا رہے ہیں وہ پارلیمنٹ میں بات کریں ہم انہیں جواب دیں گے ۔ایل این جی کا معاہدہ قطر کی حکومت سے ہو رہا ہے اس میں قطر کی حکومت رشتہ داریوں کی بنیاد پر حکومت پاکستان کو ایل این جی فراہم نہیں کرے گی بلکہ یہ معاہدہ حکومت کے ساتھ اصولوں کی بنیاد پر ہوگا ۔اس معاہدے میں پی ایس او کے تحت شفافیت کو ملحوظ خاطر رکھا جائیگا۔جن لوگوں کے پاس 25 لاکھ مالیت کی گاڑیاں ہیں وہ بتائیں صرف پانچ سو روپے بچانے کے لئے اتنی لمبی قطاروں میں کیوں کھڑے ہوتے ہیں ۔