وسط افریقی جمہوریہ کے دارالحکومت سے 1300 سے زائد مسلمانوں کا انخلا ء، مخالفین کی جانب سے لوٹ مار ،جلاو گھیراو،بنگوئی میں جاری فسادات میں اب تک ہزاروں مسلمان مارے جاچکے ہیں،عیسائی عسکریت پسندوں کی تنظیم ’اینٹی بلاکا‘ کی طرف سے مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے،ایمنسٹی انٹر نیشنل

منگل 29 اپریل 2014 10:35

بنگوئی(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔29 اپریل۔2014ء )وسط افریقی جمہوریہ کے دارالحکومت بنگوئی سے سینکڑوں مسلمانوں کو امن فوج کی نگرانی میں نکال لیا گیا، اس دوران مخالفین کی جانب سے لوٹ مار کی گئی،غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق دارالحکومت بنگوئی سے افریقی اور فرانسیسی امن فوجیوں کی نگرانی میں 13 سو سے زائد مسلمانوں کو بحفاظت دوسرے علاقوں میں منتقل کیا گیا، 20 ٹرکوں میں سوار اس قافلے کے جانے کے بعد بنگوئی مسلمان آبادی سے خالی ہوگیا ہے،ان افراد کے انخلا کے بعد علاقے میں مخالف گروپوں نے جلاو گھیرا وکیا اور مسلمانوں کی املاک کو لوٹ لیا۔

بنگوئی میں گزشتہ سال سے جاری فسادات میں اب تک ہزاروں مسلمان مارے جاچکے ہیں اور لاکھوں افراد دیگرشہروں میں منتقل ہوچکے ہیں۔

(جاری ہے)

براعظم افریقہ کے اندرونی خلفشار کے حامل ملک وسطی افریقی جمہوریہ کے بعض حکومتی اور سیاسی اہلکاروں کے خیال میں مسلمانوں کی یہ ہجرت گزشتہ اٹھارہ ماہ سے مسیحیوں اور مسلمانوں کے مابین جاری تنازعے میں مزید شدت پیدا کر سکتی ہے اور ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ زور پکڑ سکتا ہے۔

ان تیرہ سو مسلمانوں کو بنگوئی کے شمال میں واقع پی کے 12 نامی ٹاوٴن سے نکالا گیا۔ اسی علاقے میں سب سے زیادہ مسلمان آباد تھے اور اسی کو مسلمانوں کا مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا تھا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک سینئر مشیر یوان میرنر کا کہنا تھاکہ یہ صورتحال المناک اور ناقابل معافی ہے لیکن ان کی زندگیوں کو بچانے کے لیے ان کے انخلاء کا ہی واحد راستہ بچا تھا۔

“ یوان میرنر کا کہنا تھا کہ دسمبر اور جنوری میں نسل کشی کے واقعات سے بچنے کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا تھا۔ فرقہ وارانہ فسادات کے بعد ہزاروں مسلمان ان علاقوں سے خاندانوں سمیت ہجرت کر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے ہزاروں مسلمانوں کی جبری نقل مکانی کو ان کی ”نسل کْشی“ کے مترادف قرار دیا ہے۔عیسائی عسکریت پسندوں کی تنظیم ’اینٹی بلاکا‘ کی طرف سے مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

مسیحی مسلح گروپ مسلمان عسکری گروپ ’سیلیکا‘ کے مخالف ہیں۔ سیلیکا گروپ مختلف مسلمان عسکری گروہوں کے اتحاد سے سن 2012ء میں وجود میں آیا تھا اور ابتدائی طور پر اس گروپ نے حکومت کے ساتھ امن معاہدہ کر لیا تھا۔ان دو مذہبی گروپوں کے مابین خونی لڑائی کا آغاز ایک برس پہلے مارچ میں ہوا۔ گزشتہ برس مارچ میں سابق مسیحی صدر فرانسوا بوزیزے کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا اور ان کی جگہ میشل جوتودیا عسکری گروپ سیلیکا کی مدد سے اس ملک کے پہلے مسلمان صدر بن گئے تھے۔

جوتودیا سیلیکا کے سربراہ بھی تھے اور وہ رواں برس جنوری میں بین الاقوامی دباوٴ کی وجہ سے مستعفی ہو گئے تھے۔ وسطی افریقی جمہوریہ کی تقریبا 80 فیصد آبادی مسیحی ہے۔مارچ میں اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین انتونیو گوئٹیرس کا 15 رکنی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا، ”دسمبر کے آغاز سے ہم غربت اور بحران کی شکار وسطی افریقی جمہوریہ CAR میں مسلمان آبادی کا موٴثر طریقے سے صفایا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔“ انہوں نے مزید کہا، ”ہزاروں مسلمان یہ ملک چھوڑ چْکے ہیں، موجودہ بحرانوں میں یہ ہجرت کرنے والوں کا دوسرا بڑا بہاوٴ ہے۔ جو مسلمان باشندے وسطی افریقی جمہوریہ میں رہ گئے ہیں انہیں مسلسل خطرات کا سامنا ہے۔“

متعلقہ عنوان :