پاک امریکہ تعلقات سنگین حد تک خراب ہوچکے ہیں ، امریکہ ،مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا کردار ادا نہیں کرینگے ،پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعتماد کی کمی ہے ،دونوں ممالک کا مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دو چار ہے ، جیمز ڈوبنز ،پاکستان کے مدارس افغانستان میں حملوں کا سبب بن رہے ہیں،امریکی محکمہ دفاع کی رپورٹ ،2013 میں 1500 پاکستانی حملوں میں ہلاک ہوئے،امریکی محکمہ خارجہ

جمعہ 2 مئی 2014 06:13

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔2مئی۔ 2014ء) اوبامہ انتظامیہ کے سابق قومی سلامتی کے مشیر جیمز ڈوبنز نے کہا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات سنگین حد تک خراب ہوچکے ہیں ، افغان بحران کے حل کیلئے اسلام آباد کا کردار انتہائی اہم ہے ۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی کانگریس میں افغانستان بارے سماعت کے موقع پر سابق قومی سلامتی کے مشیر جیمز ڈوبنز نے کہا کہ پاکستان اور امیرکہ کے درمیان باہمی اعتماد کی کمی ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات سنگین حد تک خراب ہوچکے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے مستقبل اس وقت غیر یقینی صورتحال سے دو چار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک مشترکہ تجارتی ، اقتصادی ، سماجی اور سکیورٹی مفادات رکھتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں بحران کے حل کیلئے اہم کردار ادا کرسکتا ہے انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کی بہتری کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کو ڈریونڈ لائن سمیت تمام متنازعہ ایشوز کو پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کو ترجیح دینی چاہیے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک کو دہشتگردی اور انتہا پسندی کے مشترکہ چیلنجز کا سامنا ہے اور دونوں ممالک کو ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مشترکہ اقدامات اور پیش رفت کرنی چاہیے ترکمانستان ، افغانستان ، پاکستان پائپ لائن پراجیکٹ بارے بات کرتے ہوئے جیمز ڈوبنز نے کہا کہ ہمیں اس پراجیکٹ کی تفصیلات بارے آگاہی چاہیے تاکہ کہا جاسکے کہ ہم اس پراجیکٹ میں کس طرح کی معاونت فراہم کرسکتے ہیں ۔

امریکہ نے مسئلہ کشمیر پر کسی بھی ثالثی کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان دہشتگردوں کی حمایت سے گریز کرے ۔

بھارتی خبررساں ادارے کے مطابق افغانستان اور پاکستان کے لئے امریکی خصوصی نمائندے جیمز ڈوبنز نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کسی تیسرے فریق کی ثالثی مسلسل مسترد کررہا ہے اور اس کا موقف ہے کہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کے لئے کسی فریق کو درمیان میں ڈالے بغیر براہ راست دوطرفہ بات چیت سے حل کرنے کو ترجیح دیگا ۔

انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اس مسئلے کے حل کیلئے تیسرا فریق بننے سے گریز کریگا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری کیلئے تمام ایشوز پر مذاکرات تجارت سمیت تمام شعبوں میں تعاون کے فروغ کے حامی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں انتخابات کے بعد آنیوالی حکومت کو بھی پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے قیام کے لئے مذاکرات کو ترجیح دینی چاہیے ۔

امریکی محکمہ دفاع کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے مدارس افغانستان میں انتہا پسند حملوں کا سبب بن رہے ہیں جو ایک سنگین مسئلہ ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے افغانستان کے مستحکم مستقبل اور سکیورٹی سے متعلق شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ پاکستان کی سرزمین سے افغانستان پر حملے کیے جا رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقے فاٹا اور صوبہ بلوچستان میں موجود مدارس کی جانب سے افغانستان میں حملے کیے جا رہے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان افغانستان اور بھارت میں حملے کرنے والے ان انتہا پسندوں کے خلاف مناسب اقدامات نہیں کر رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان بظاہر اس عزم کا اعادہ کرتا ہے کہ وہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے حوالے سے مثبت کردار ادا کرے گا۔

امریکی محکمہ دفاع کی رپورٹ کے مطابق حکومتِ پاکستان نے قبائلی علاقے فاٹا میں کالعدم تحریکِ طالبان اور خیبر پختونخوا میں دیگر پاکستان مخالف گروہوں کے خلاف محدود اہداف حاصل کیے ہیں جس کے نتیجے میں اب حکومتِ پاکستان طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی چاہتا ہے جس کے لیے افغان صدر حامد کرزئی اور وزیرِ اعظم پاکستان نواز شریف کے درمیان براہِ راست ملاقات ہوئی۔

مگر کابل اور اسلام آباد کے درمیان شکوک و شبہات کی فضا برقرار ہے اور پاکستان بھارت اور افغانستان میں حملے کرنے والے انتہا پسندوں کے خلاف موثر کارروائی نہیں کر رہا۔امریکہ نے کہا ہے کہ پاکستان نے کسی حد تک دیسی ساختہ دھماکہ خیر مواد کی پیداوار کو روکنے کے لیے چند اقدامات کیے ہیں مگر اس سلسلے میں بڑی پیش رفت نہیں ہوئی اور اس طرح کا مواد اب بھی پاکستان سے باہر جا رہا ہے۔

پاک افغان سرحدوں پر ہونے والی جھڑپیں اور دونوں مملک کے درمیان اعتماد کی کمی کی وجہ سے دونوں کے تعلقات اب بھی اتار چڑھاوٴ کا شکار ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان افغانستان اور بھارت میں حملے کرنے والے ان انتہا پسندوں کے خلاف مناسب اقدامات نہیں کر رہا ۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ باہمی مفادات کے تناظر میں ایک دوسرے کے درمیان بہتر تعلقات چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں پاکستان کی سربراہی میں پاک امریکہ تعلقات میں مثبت پیش رفت کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

رپورٹ میں افغانستان سے متعلق کہا گیا ہے کہ افغان سکیورٹی افواج نے انتہاپسندوں کے خلاف کامیابیاں حاصل کی ہیں جن کے نتیجے میں رواں برس پانچ اپریل کو صدارتی انتخابات ممکن ہو پائے۔امریکہ کا کہنا ہے کہ افغان حکومت اپنے 34 صوبوں میں سکیورٹی کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے جب کہ تشدد کے واقعات کم آبادی والے علاقوں میں ہو رہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق 21 دسمبر سنہ 2014 میں بین الاقوامی افواج کے انخلا کے پیش نظر افغان نیشنل آرمی کو چار پہلووٴں پر کام کرنے کی ضرورت ہے جس میں فوجی فضائی قوت، خفیہ معلومات جمع کرنے کا نظام، مخصوص فوجی کارروائیاں اورافغان سکیورٹی میں بہتری شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد افعان نیشنل سکیورٹی فورس کی دفاعی مدد، افغان صدر کی جانب سے افغانستان اور امریکہ کے درمیان باہمی سکورٹی معاہدے پر دستخط سے انکار اور سیاسی، معاشی اور سکیورٹی سے متعلق صورت حال نے افغان معاشرے میں بے یقینی کی کیفیت طاری کر رکھی ہے۔

عالمی دہشت گردی سے متعلق جاری کردہ ایک امریکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2013کے دوران پاکستان میں القاعدہ کمزور ہوئی تاہم کئی کالعدم تنظیموں کی جانب سے مسلسل دہشتگر د کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔

امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے دہشتگردی سے متعلق جاری کرد ہ اس رپورٹ میں پاکستان کے حوالے سے یہ بات بتائی گئی کہ پاکستان میں القاعدہ، کالعدم تحریک طالبان، پنجابی طالبان اور لشکر جھنگوی نے دہشت گرد کارروائیاں کیں تاہم لشکرطیبہ کی جانب سے پاکستان میں فنڈنگ کیے جانے کے باوجود کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی۔دہشت گردوں نے دیسی ساختہ بموں کے علاوہ موٹر سائیکلوں، سائیکلوں، رکشوں، گاڑیوں اورگدھا گاڑیوں میں بم نصب کرکے بھی بم دھماکے کیے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں القاعدہ کمزور ہوئی ہے،تنظیم کی قیادت اور دیگر جنگجو گروپوں کے درمیان رابطے کٹ گئے ہیں۔ دوسری جانب القاعدہ اور حقانی نیٹ ورک سال 2013 میں بھی امریکی مفادات کے لیے خطرہ بنی رہیں۔کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے پاکستان اور امریکی مفادات کو خطرات لاحق رہے۔اس تنظیم نے پاکستانی شہریوں ،حکومتی اور سکیورٹی فورسز پر درجنوں حملے کیے۔

رپورٹ کے مطابق اگرچہ بین الاقوامی کوششوں کے نتیجے میں القاعدہ کافی کمزور ہو چکی ہے تاہم اْس سے منسلک دیگر کئی تنظیموں نے مشرق وسطی اور افریقہ میں اپنی کارروائیاں بڑھا دی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایمن الظواہری کی قیادت میں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے مرکزی دھڑے کو اگرچہ کافی حد تک کمزور بنا دیا گیا ہے تاہم اْس سے منسلک دیگر کئی گروہ کافی خودمختار اور جارحانہ ہوتے جا رہے ہیں۔

پاکستانی و افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک جیسے گروہ افغانستان اور پاکستان میں ملکی اور امریکی اہداف کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔رپورٹ میں کہا ہے کہ جن پاکستانی تنظیموں کو اقوام متحدہ نے دہشت گرد قرار دیا ہوا ہے وہ پاکستان میں بے حد آسانی سے اپنے نام بدل کر کسی بھی طرح کی پابندیوں سے بچ نکلتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ایک برس میں اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیموں پر پابندیاں لگانے کے لیے پاکستان نے کارروائی کی ہے لیکن بین الاقوامی قانون کے تحت دہشت گرد تنظیموں کے اثاثے ضبط کرنے کی مہم سست رہی ہے۔

حکومتِ پاکستان کے بارے میں اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف کئی نئے قوانین نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن دہشت گردی اور دوسرے جرائم کے خلاف عدلیہ کی کارروائی انتہائی سست ہے۔رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے مقدمات کے لیے بنی عدالتوں میں گواہوں‘وکلاء، ججوں اور پولیس کو شدت پسندوں کی طرف سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے جس کی وجہ سے عدالت کی رفتار سست اور مبینہ دہشت گرد اکثر بری ہو جاتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق القاعدہ کے تعلقات کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور حقانی نیٹ ورک کے ساتھ ہیں۔رپورٹ کے مطابق افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو اب بھی پاکستان میں محفوظ پناہ گاہ حاصل ہے ،رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ مشرق وسطی اور شمالی افریقی ممالک میں کمزور حکومتوں اور عدم استحکام کی وجہ سے القاعدہ کے حامی گروپ اور اِسی طرز کی انتہاپسندانہ سوچ کی حامل دیگر تنظیموں نے اپنی کارروائیوں کا دائرہ کار بڑھا دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ عمل بالخصوص یمن، شام، عراق، شمالی افریقہ اور صومالیہ میں بڑھ رہا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق دنیا بھر سے ہزاروں جنگجووٴں نے شام کا رخ کیا، جہاں صدر بشار الاسد کے خلاف مسلح تحریک جاری ہے۔ اِن میں کئی جنگجو انگریزی زبان بھی بول سکتے ہیں۔ جنگجووٴں نے اسد انتظامیہ کے خلاف لڑنے والے گروپوں کے ساتھ مل کر لڑائی کی۔ رپورٹ کے مطابق ایسے کئی افراد کافی پر تشدد انتہا پسند گروہوں کا حصہ بنے اور امریکا و دیگر مغربی ممالک کو خدشہ ہے کہ یہ جنگجو اپنے اپنے ملکوں میں واپس جا کر داخلی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔

رپورٹ میں لگائے جانے والے اندازوں کے مطابق 2013ء میں یورپی ملک ڈنمارک سے 90 جنگجووٴں نے شام کا رخ اختیار کیا جبکہ اسی دوران فرانس سے 184، جرمنی سے 240، ناروے سے تیس تا چالیس، بیلجیم سے ایک سو اور دو سو کے درمیان اور سویڈن سے 75 جنگجو شام گئے۔ برطانوی حکومت کے اندازوں کے مطابق اس کے کم از کم چار سو شہری کسی نہ کسی وقت شامی خانہ جنگی کا حصہ بن چکے ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2012ء سے یمن، بلغاریہ، تھائی لینڈ اور ایران سے منسلک چند اداروں میں اضافی سرگرمیاں دیکھی گئی ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2013 کے دوران 1025 عام شہری جب کہ سکیورٹی فورسز کے 475 اہلکار دہشت گرد حملوں میں مارے گئے۔دہشت گردی کے واقعات سے متعلق 2013 کی سالانہ رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان اور دیگر شدت پسند گروپ بدستور پاکستان اور امریکہ کے مفادات کے لیے خطرہ ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ دہشت گرد گروپ پاکستانی حکومت، فوج اور شہریوں پر حملوں کے علاوہ پولیس اسٹیشنز، عدالتی مراکز، سرحدی چوکیوں اور انسداد پولیو کی ٹیموں پر حملوں کے علاوہ فرقہ وارانہ واقعات میں بھی ملوث رہے۔

سال 2013 کے لیے اس رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، پنجابی طالبان اور لشکر جنگھوی سے مسلسل نبرد آزما ہے جو پولیس، سکیورٹی فورسز پر حملوں یا فرقہ وارانہ تشدد اور معاشرے کے تمام طبقوں کے خلاف جرائم میں ملوث ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی نہیں کر رہا جو اپنے متبادل نام سے مالی وسائل اکٹھے کرنے میں مصروف ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جب کہ یہ گروپ تشدد کی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔رپورٹ کے مطابق 2013 میں انسداد دہشت گردی سے متعلق منظور کرائے گئے قوانین کے نفاذ کے لیے حکومت مصروف ہے۔

دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے مالی وسائل اکٹھے کرنے سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا کہ کئی ایسی تنظیمیں جن پر عالمی تعزیرات عائد ہیں وہ بھی نام بدل پر فنڈز اکٹھے کرنے میں مصروف ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ مئی 2013 میں عام انتخابات کے دوران بھی دہشت گردوں نے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور اْمیدواروں کو نشانہ بنایا۔پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت یہ کہہ چکی ہے کہ دہشت گردی ملک کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن اس مسئلے سے نمٹں ے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔