دہشت گردی ایک چیلنج ، جلد قابو پا لیں گے، سرتاج عزیر، جس فیصلہ کن انداز میں موجودہ حکومت نے سکیورٹی معاملات پر کام کیا ہے پہلے کبھی نہیں ہوا ، مشیر خارجہ ،دہشتگردی کا مرض آنے میں وقت لگا اور جانے میں بھی لگے گا‘، ’ بلا شبہ سکیورٹی کے حوالے سے سوالیہ نشان موجود ہیں ، اس میں پنجاب بھی شامل ہے، شہباز شریف ، حکومت نے کافی مثبت اقدامات کیے ہیں اور قومی سلامتی کے اداروں میں اصلاحات سے اچھے نتائج آنے کی امید ہے، سابق آئی ایس آئی سربراہ جنر ل (ر) احسان الحق کی بی بی سی سے گفتگو

ہفتہ 3 مئی 2014 07:42

لندن (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔3مئی۔2014ء ) مشیر خارجہ پاکستان سر تاج عزیر نے کہا ہے کہ حکومت نے انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں امید ہے کہ ان کے نتائج جلد سامنے آئیں گے، جبکہ وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے اعتراف کیا ہے ہے بے شمار کوششوں کے باوجود سکیورٹی کے حوالے سے سوالیہ نشان موجود ہیں ، ا اس میں پنجاب بھی شامل ہے، بی بی سی بات چیت کرتے ہوئے امورِ قومی سلامتی کے لیے وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے مشیر سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جو اب ہو رہا ہے پہلے کبھی نہیں ہوا۔

انھوں نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ جس فیصلہ کن انداز میں پچھلے نو ماہ میں نواز شریف کی حکومت نے سکیورٹی معاملات پر کام کیا ہے، پہلے کراچی میں پھر قومی سلامتی پالیسی ہے۔

(جاری ہے)

نیکٹا بن رہی ہے۔ سریع الحرکت فورس بن ر ہی ہے، جوائنٹ انٹیلیجنس آرگنائزیشن بن رہی ہے اور ان تمام سکیورٹی اقدامات سے مجھے امید ہے کہ ہم دہشت گردی پر قابو پا لیں گے۔

‘ وزیراعلیٰ پنجاب کے شہباز شریف نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’دہشت گردی ایک مرض ہے جس کو آنے میں بھی وقت لگا اور اب اس کے جانے میں بھی وقت لگے گا۔‘شہباز شریف نے تسلیم کیا کہ ’سکیورٹی کے حوالے سے سوالیہ نشان ہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔ اس میں پنجاب بھی شامل ہے۔ لیکن یہ ایک چیلینج ہے جس کو ہم نے قبول کیا ہے لیکن اصل دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اسے ختم کرنے یا اسے شکست دینے کے لیے ہم پر عزم ہیں اور اس بیماری کا خاتمہ کر کے دم لیں گے، شہباز شریف کا کہنا تھا کہ گذشتہ چند برس میں دہشت گردی سے 40 ہزار پاکستانیوں کی ہلاکت کوئی معمولی بات نہیں اور ’ہم اس بارے میں مکمل طور پر یکسو ہیں کہ لا اینڈ آرڈر ٹھیک کیے بغیر معاملہ ٹھیک نہیں ہوگا۔

یہ ہماری اولین ترجیح ہے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل(ر) احسان الحق کا کہنا تھا کہ حکومت نے کافی مثبت اقدامات کیے ہیں اور قومی سلامتی کے اداروں میں اصلاحات سے اچھے نتائج آنے کی امید ہے۔تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’یہ کہنا کہ ہم زیرو لیول سے شروع کر رہے ہیں میرے خیال میں صحیح نہیں اور اس بارے میں حقائق جاننے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’پہلے بھی خفیہ اداروں کی رابطہ کاری اور انسدادِ دہشتگردی کا نظام موجود تھا۔

‘انھوں نے کہا کہ ’نائن الیون کے بعد جب ہمیں دہشت گردی کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا تو اس وقت بھی 2002 میں کچھ اصلاحات کی گئی تھیں اور ایک انسدادِ دہشت گردی کا سینٹر قائم کیا گیا تھا۔ پہلے بھی فوج کے تحت ایک خصوصی ٹاسک فورس بنائی گئی تھی جو ایک کاوٴنٹر ٹیررازم فورس تھی۔آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ ’اب جب حکومت اس طرح کی فورس کی بات کرتی ہے تو اسے اس فورس کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ سنہ 2007 کے بعد دہشت گردی کے ڈائنامکس میں تبدیلی آئی ہے تو پھر ان اداروں کی بھی ڈائنامکس تبدیل کی جانی چاہییں۔‘