سندھ اسمبلی نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے چار کارکنوں کی تشدد زدہ لاشیں ملنے کے واقعہ کے خلاف مذمتی قرار داد اتفاق رائے سے منظور کرلی، ملزمان کی گرفتاری کے لئے نہ صرف فوری کارروائی کی جائے بلکہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کے خلاف ایسے اقدامات کو فوری طورپر روکا جائے،قرارداد میں مطالبہ،سندھ اسمبلی کا اجلاس سوگ میں پیر تک ملتوی کردیا گیا

ہفتہ 3 مئی 2014 07:22

کراچی ( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔3مئی۔2014ء) سندھ اسمبلی نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے چار کارکنوں کی تشدد زدہ لاشیں ملنے کے واقعہ کے خلاف ایک مذمتی قرار داد اتفاق رائے سے منظور کرلی ۔ جس کے بعد سندھ اسمبلی کا اجلاس سوگ میں پیر تک ملتوی کردیا گیا۔سندھ اسمبلی نے منظور کردہ اس قرارداد میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کے اغواء اور قتل کے واقعہ کی نہ صرف مذمت کی بلکہ احتجاج بھی کیا ۔

اسمبلی نے مطالبہ کیا کہ ملزمان کی گرفتاری کے لئے نہ صرف فوری کارروائی کی جائے بلکہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کے خلاف ایسے اقدامات کو فوری طورپر روکا جائے۔ یہ قرارداد ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد نے پیش کی۔ قرارداد میں مزید کہا گیا کہ ایم کیو ایم کے 13اپریل کو لاپتہ ہونے والے چار کارکنوں سمیر، علی حیدر، فیضان الدین اور سلمان مشتاق کی تشدد زدہ لاشیں گڈاپ کی لنک روڈ سے ملی ہیں۔

(جاری ہے)

یہ ہلاکوخان کے وحشیانہ اقدام سے بھی بدتر اقدام ہے۔ یہ پہلے ماروائے عدالت قتل نہیں ہیں۔ قبل ازیں بھی ایم کیو ایم کے کارکنوں اور ہمدردوں کو گرفتار کیا گیا اور پھر انہیں بے رحمی سے قتل کرکے ان کی لاشیں پھینک دی گئیں۔ قرار داد سے پہلے نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے سید سردار احمد نے کہا کہ کارکنوں پر جو تشدد کیا گیا ہے، وہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔

روزانہ ہی ایسے واقعات ہورہے ہیں۔ پولیس کو پتہ ہی نہیں ہے کہ کون یہ کام کررہا ہے۔ ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر ایسے واقعات کو رکوائے اور ان واقعات میں ملوث لوگوں کو گرفتار کرکے پھانسی دلوائے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں دہشت کا راج ہے اور ایسے لگتا ہے کہ یہاں چنگیز خان کی حکومت ہے اور چنگیزی ظلم ہورہا ہے۔ حکومت ایسی حرکتوں کو فوری طور پر رکوائے ورنہ بہت مشکلات پیدا ہوجائیں گی، حالات خراب ہوجائیں گے اور ملک میں انارکی پھیل جائے گی۔

وزیر صنعت محمد عبدالرؤف صدیقی نے کہا کہ انتہائی تکلیف دہ صورت حال ہے۔دو ڈبل کیبن گاڑیوں میں کچھ نقاب پوش لوگ آئے تھے اور ہمارے ان کارکنوں کو اٹھا کر لے گئے تھے۔یہ بالکل بے گناہ تھے۔ اگر یہ گناہگار بھی ہوتے تو ان پر مقدمہ چلا کر انہیں سزا دی جاتی، اس سے اداروں کا وقار بھی بڑھتا اور مجرموں میں خوف بھی پیدا ہوتا۔ان کارکنوں پر 15دن تک بدترین تشدد کیا گیا، ان کی کھالیں اتاری گئیں اور ان کے نازک اعضاء کاٹے گئے۔

ہم کمیونسٹ حکومت میں نہیں رہ رہے، نہ ہی یہ اسٹالن یا ہٹلر کا معاشرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ آل رسولﷺ ہیں، ان کی یہ پالیسی نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے اقدامات سے نفرت جنم لے رہی ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے خوف اور ان کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہورہے ہیں۔ اگر یہ صورت حال آگے بڑھ گئی توکیسے کنٹرول کیا جائے گا۔

آپریشن زندگی بھر نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کوئی ادارہ زندگی بھر جنگ لڑ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کی طرف سے یہ بیانات بھی چھپے ہیں کہ ڈاکو پولیس کی جعلی وردیاں پہن کر جاتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کہی کارروائی کرنے جائیں اور لوگ ڈاکو سمجھ کر ان پر فائر کھول دیں۔ ایم کیو ایم کے رکن محمد حسین نے کہا کہ ہم بار بار یہ بتا رہے ہیں کہ کراچی میں کس قسم کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔

ہمارے کارکونں کے اعضاء کاٹے گئے۔ ان کے جسم پر کرنٹ لگائے گئے اور سگریٹوں سے داغا گیا اور ان کی آنکھوں میں تیزاب کے انجکشن لگائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ نفرت کے بیج بوئے گئے تو نفرت کی فصلیں اگیں گی۔ ایسا نہ کیا جائے کہ حالات کنٹرول میں نہ آئیں۔ انہوں نے کہا کہ سادہ لباس میں کارروائی کرنے والے لوگوں سے عوام میں بہت خوف ہے۔ اب عوام یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ ہر محلہ اور ہر گلی میں لائسنس والا اسلحہ لے کر بیٹھ جائیں اور ایسے لوگ آئیں تو ان پر یلغار کردیں۔

اب وقت آرہا ہے کہ لوگ اختیار اور طاقت اپنے ہاتھوں میں لینے لگے ہیں۔ کیونکہ اب وہ تھک گئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ ہم نے اپنے کارکنوں کے اغواء پر بہت احتجاج کیا اور ہر فورم پر آواز اٹھائی لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ہم سے غلطی ہوئی ہے کہ ہم نے کراچی آپریشن کی حمایت کی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا نہ صرف احترام کیا بلکہ قانون سازی کرکے انہیں اختیارات دئیے۔

اس کا ہم سب لوگوں کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں اور آپریشن کی جتنی حمایت کریں گے، اتنا ہی ہم پر تشدد کیا جائے گا اور ہمیں لاشیں دی جائیں گی۔ لوگ اب بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ نفرت کا پیغام ہے۔ نفرت کے بدلے نفرت نہیں بلکہ بغاوت ہوتی ہے۔اس کو روکنا ہم سب کا فرض ہے۔ ا نہوں نے کہا کہ عدالتیں چھوٹی چھوٹی بات پر سوموٹو ایکشن لے لیتی ہیں لیکن کراچی میں گرنے والی لاشوں پر سوموٹو ایکشن نہیں لیا جاتا۔

صوبائی وزیر کھیل و امور نوجوانان فیصل علی سبزواری نے کہا کہ میں ان کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا مسئلہ 15اپریل کو سندھ اسمبلی میں اٹھایا تھا۔ آئی جی سندھ نے اس پر ایک کمیٹی بنائی تھی۔ اب ان کارکنوں کی لاشیں ملنے پر ایک اور کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ حالات ایسے رہے تو کل کو مجھے یا کسی اور کو بھی مارا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے کے بہت دیر ہوجائے، لوگوں کے غم و غصہ کو سمجھا جائے۔

یہ کراچی ہے کوئی فاٹا نہیں ہے کہ لوگ یہاں امن لشکر قائم کردیں۔ لیکن امن لشکر کے قیام کی مثالیں یہاں موجود ہیں اور لوگ ایسا کر بھی سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ ہمیں ہر حال میں پاکستان میں جمہوریت اور امن چاہیئے۔ لیکن ہم کب تک اس کی قیمت ادا کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ملزموں کو قانون کی گرفت میں لانا ہوگا اور ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے۔