سمیرا ملک نااہلی کیس،وکیل کی تبدیلی کی درخواست پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری،مخدوم علی خان عدالتی معاون مقرر، نظر ثانی کی درخواست کی سماعت میں عدالتی اختیار محدود ہوتا ہے مگر کو اس کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا،جسٹس انور ظہیر جمالی، یہ کیس سیاسی موت کا نہیں بلکہ میرٹ کا ہے،جسٹس گلزار، وکیل کی ذمہ داری نہیں کہ کیس کومنطقی انجام تک پہنچائے،جسٹس دوست محمد،صرف سپریم کورٹ رولز کی وجہ سے مرضی کا وکیل مقرر کرنے کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا،عاصمہ جہانگیر ، کونسل کی تبدیلی کے لئے ضروری وجوہات کا ہونا ضروری ہے،حامد خان کے دلائل

منگل 6 مئی 2014 08:13

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔6مئی۔ 2014ء)سپریم کورٹ نے سمیرا ملک نا اہلی کیس میں دائر نظر ثانی کی درخواست کی سماعت کے دوران وکیل کی تبدیلی بارے سپریم کورٹ رولز اور آرٹیکل دس اے کے باہم متصادم ہونے کے حوالے سے عاصمہ جہانگیر کے دلائل پر اٹارنی جنرل پاکستان کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں اور ان سے جواب طلب کیا ہے جبکہ سینئر قانون دان مخدوم علی خان کو بھی عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے ان سے درج بالا معاملے پر آئینی وقانونی معاونت طلب کی ہے اور جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ نظر ثانی کی درخواست کی سماعت میں عدالتی اختیار محدود ہوتا ہے مگر کسی بھی شخص کو اس کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا ۔

سپریم کورٹ رولز 26 آرڈر6 کے تحت نظر ثانی کی درخواست میں وکیل کی تبدیلی نہیں ہو سکتی جبکہ دوسری طرف آئین کے آرٹیکل 10 کے تحت درخواست گزار کو کسی بھی وکیل کو مقرر کرنے کا حق حاصل ہے۔

(جاری ہے)

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ عدالت فیصلے کے اثرات سے بخوبی آگاہ ہے مگر یہ کیس سیاسی موت کا ہے یا نہیں بلکہ کیس میرٹ کا ہے جبکہ جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ وکیل کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ کیس کو اس کے منطقی انجام تک پہنچائے جبکہ سمیرا ملک کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے موقف اختیار کیا ہے کہ صرف سپریم کورٹ رولز کی وجہ سے اس کے وکیل کو آرٹیکل دس اے کے تحت اپنی مرضی کا وکیل مقرر کرنے کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا جبکہ ملک محمد اسلم کے وکیل حامد خان نے کہا ہے کہ کونسل کی تبدیلی کے لئے ضروری وجوہات کا ہونا ضروری ہے ۔

انہوں نے یہ دلائل گزشتہ روز دیئے ہیں۔جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے پیر کے روز سماعت شروع ہوئی تو سمیرا ملک کی جانب سے عاصمہ جہانگیر اڈووکیٹ پیش ہوئی اور موقف اختیار کیا کہ نظر ثانی کی درخواست میں وکیل کی تبدیلی کیوں کی گئی ہے انہیں عدالت کو اس حوالے سے بتانا چاہئے۔ راجہ مبین وکیل رہے ہیں انہوں نے نظر ثانی درخواست تیار کی ہے ۔

تحریری درخواست دی گئی تھی کہ کونسل تبدیل کرنا ہے جو مسترد کردی گئی تھی ۔سینئر وکیل افتخار گیلانی نے خود بھی اس کیس میں پیش ہونے سے انکار کر دیا ہے۔جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ ہمارے پاس دو درخواستیں زیر سماعت ہیں ۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ درخواست گزارنے خود بھی تحریری طورپر افتخار گیلانی کو اپنے کیس میں روک دیا تھا ۔افتخار گیلانی نے مستقبل میں بھی درخواست گزار کسی بھی مقدمے میں پیش ہونے سے معذرت کرلی ہے اس حوالے سے باقاعدہ ایک خط بھی تحریری کیا۔

خط میں واضح طورپر انہوں نے کہا کہ وہ ذاتی وجوہات پر پیش ہونا چاہتے۔جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ نظر ثانی کی درخواست کے دوران وکیل کی تبدیلی بارے ہمیں تمام قواعد وضوابط کا جائزہ لیکر فیصلہ کرنا ہے کہ اجازت دینا بھی یا نہیں۔عاصمہ جہانگیرنے مختلف مقدمات کے حوالے دیئے ۔مولوی حنیف کے الیکشن معاملے میں عدالت کونسل کی تبدیلی کی اجازت دے چکی ہیں۔

یہ پہلا مقدمہ ہے کہ جس میں متعلقہ حکام کی ہدایت کا خیال نہیں رکھا گیا ۔یونیورسٹی کے صرف ایک جملے پر انتخابی امیدواروں کو اہل اور نا اہل قرار دیا گیا ہے۔ججز پنشن کیس میں جسٹس ثاقب نے فیصلے میں کہا ہے کہ تازہ نظر ثانی کی درخواست میں کوئی دوسرا کونسل پیش ہو سکتا ہے یہ تو سیاسی موت دینے کا فیصلہ ہے جو میری ساری زندگی پر لاگو ہوتا ہے ۔

آرٹیکل 10 اے کے تحت انہیں فیئر ٹرائل کا حق حاصل ہے اس آرٹیکل کے تحت کونسل کی تبدیلی ہو سکتی ہے۔ کوئی بھی وکیل اپنی خواہشات کے برعکس پیش نہیں ہوتا مسئلہ یہ ہے کہ افتخار گیلانی پیش ہونے کے لئے تیار نہیں بلکہ وہ کسی بھی سمیرا ملک کے مقدمے میں پیش نہیں ہونا چاہتے تو کیا عدالت صرف اسی وجہ سے سمیرا ملک کو ان کے وکیل مقرر کرنے سے محروم کر دے گی۔

جسٹس انورظہیر جمالی نے کہا کہ یہ رولز (6 ) 26 ،آرٹیکل10 اے کے خلاف ہے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ معاملہ سیاسی موت کا نہیں بلکہ کیس کے میرٹ کا ہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ آرٹیکل10 کے تحت قانونی پرویژن کی وجہ سے (6)26 متاثر ہو سکتا ہے۔حامد نے کہا کہ رویو کا معاملہ ایک منفرد اختیار کا ہے۔دائرہ کار میں آرٹیکل10 اے کے تحت کوئی فرق نہیں پڑتا۔

کونسل کی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ ججز پنشن کیس میں کہا ہے کہ نظر ثانی کی درخواست کی سماعت میں عدالت کے اختیار محدود ہیں۔ اس سے کوئی اختلاف نہیں ہے کہ کوئی بھی پارٹی اپنی درخواست کے اخراج پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی جا سکتی ہے کیا اس پارٹی کو دلائل کا حق نہیں دیں گے کہ رولز 26 آرڈر چھ کے تحت اس کا کونسل کوئی اور ہے کیا یہ آرٹیکل10 اے کے خلاف نہیں ہوگا ۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ اگر ایک کونسل پیش نہیں ہوتا تو ہم کیا کریں؟کیا یہ کیس نہ سنیں ۔اگر سننا ہے تو کس کو سنیں گے۔ رویو بارے تو کوئی اصول موجود ہیں مگرکونسل کاکیا کیا جائے۔ایک کونسل خود پیش نہیں ہونا چاہے تو عدالت کیا کرے گی ۔انہوں نے حامدخان سے پوچھا کہ آپ ہماری رہنمائی کریں۔ جسٹس انورظہیر نے حامد خان سے کہا کہ آپ تیاری کریں اور پھر دلائل دیں ۔

جسٹس دوست محمد نے کہا کہ کونسل کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ مقدمے میں پیش ہوں اور دلائل دیں۔حامد خان نے کہا کہ کونسل کی تبدیلی کے معاملے کا فیصلہ بنچ نے کرنا ہے کہ آیا دوران سماعت کونسل کی تبدیلی ہو سکتی ہے یا نہیں۔ اس کا بھی فیصلے کرنا پڑے گا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ اس ہفتے تو اس مقدمے کی سماعت ہو سکتی ہے۔ اگر اس ہفتے سماعت نہ ہو سکی تو پھر دوبارہ سے لارجر بنچ مقرر کرنا چیف جسٹس کااختیار ہے ۔

ممکن ہے کہ ہم میں سے کوئی جج پر نسپل سیٹ پر موجود نہ ہو۔جسٹس انور ظہیر نے کہا کہ اس معاملے پر عدالتی معاون بھی مقرر ہو سکتا ہے ۔جسٹس گلزار نے کہا کہ فیصلے کے اثرات ہم جانتے ہیں مگر آرٹیکل 10 اے بارے بھی فیصلہ کرنا بھی بہت اہم ہوگا۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ محمود علی قصوری ،عابد منٹوسمیت کئی وکلاء کو تبدیل کرنے کی اجازت دی گئی ۔بعد ازاں جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ کیس کی سماعت ہم ملتوی کر رہے ہیں ۔

عدالت کو فیصلہ کرنا ہے کہ سپریم کورٹ رولز26 آرڈر6 کیس آرٹیکل10 اے کی روح کے منافی ہے یا نہیں؟ کیا ایک شخص کو اپنے خلاف لگائے گئے فوج فوجداری الزامات کے دفاع میں نظر ثانی کی درخواست سماعت کے دوران کونسل کو تبدیل کرنے کا اختیار ہے یا نہیں؟ ۔عدالت نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مخدوم علی خان کو عدالتی معاون مقرر کیا ہے اور کہا کہ ہم تاریخ نہیں دے رہے ہیں اور سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ان کی ڈگری اصلی ہے اب قومی ا سمبلی والے پیسے مانگ رہے ہیں ۔عدالت صرف اتنا کہہ دے کہ سب معاملات قانون کے مطابق چلائے جائیں ۔عدالت نے کہا کہ یہ معاملہ میرٹ کا ہے میرٹ پر سن کر فیصلہ دیں گے اس پر فی الحال نوٹس کر دیتے ہیں۔