سینٹ کی پانی و بجلی کمیٹی کی ملک ہھر میں سٹریٹ لائٹس کو شمسی توانائی پر لانے کی سفارش، سارے صوبوں میں لوڈشیڈنگ‘ بجلی کی پیداوار اور ضرورت‘ سرکلر ڈیٹ اور ڈسٹری بیوشن کے حوالے سے اعدادو شمارطلب کر لئے، اسلام آباد کے ریڈ زون میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی‘ رائیونڈ میں بجلی جاتی تو ہے تاہم دو فیڈر نصب ہونے کے باعث مسئلہ نہیں ہوتا ،کمیٹی کو بریفنگ، فیول ایڈجسٹمنٹ اور وصولیوں کی حوالے سے صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیراعلی کو تحریری درخواست کرکے معاملے کو مشترکہ مفادات کونسل میں حل کرانے کی بھی سفارش

منگل 6 مئی 2014 08:13

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔6مئی۔ 2014ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی نے ملک ہھر میں سٹریٹ لائٹس کو شمسی توانائی پر لانے کی سفارش کی ہے اور سارے صوبوں میں لوڈشیڈنگ‘ بجلی کی پیداوار اور ضرورت‘ سرکلر ڈیٹ اور ڈسٹری بیوشن کے حوالے سے اعدادو شمارطلب کر لئے ہیں اور کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ اسلام آباد کے ریڈ زون میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی‘ رائیونڈ میں بجلی جاتی تو ہے تاہم دو فیڈر نصب ہونے کے باعث بجلی کا مسئلہ نہیں ہوتا اگر ہو بھی تو جنریٹر فراہم کردئیے جاتے ہیں کیونکہ وہاں پر وزیراعظم اور صوبائی وزیراعلی کی رہائشگاہ ہے تاہم ان کے ذمے بجلی کے کوئی واجبات باقی نہیں ہیں‘ کمیٹی نے سابقہ اجلاس میں سابق ایم ڈی این ٹی ڈی سی کی جانب سے یکم اپریل تک لورالائی اور ڈیرہ غازی خان میں فیڈرز تنصیب کے منصوبوں کی یقین دہانی کی باوجود مکمل نہ ہونے پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے حکام کو تحقیقات کرکے ذمہ داران کا تعین کرکے آئندہ اجلاس میں کمیٹی کو مکمل رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی‘ کمیٹی نے فیول ایڈجسٹمنٹ اور وصولیوں کی حوالے سے صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیراعلی کو تحریری درخواست کرکے معاملے کو مشترکہ مفادات کونسل میں حل کرنے کی بھی سفارش کردی۔

(جاری ہے)

پیر کے روز سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی زاہد خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ اجلاس کے دوران لوڈشیڈنگ کے حوالے سے رکن کمیٹی سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے استفسار کیا کہ حیدرآباد میں بجلی منقطع کرنے سے حیسکو بتائے کہ اسے کیا فائدہ ہوا۔ حیدرآباد میں قیامت کا سماں ہے بجلی ہے نہ پانی‘ لوگ عذاب بھگت رہے ہیں اس پر چیئرمین کمیٹی زاہد خان نے ہدایت جاری کی کہ فوری طور پر حیدرآباد میں بجلی و پانی بحال کرکے رکن کمیٹی مولا بخش چانڈیو کو مطلع کیا جائے۔

مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ اتنا بحران نہیں ہے جتنی کہ بدنظمی ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس موقع پر چیئرمین کمیٹی زاہد خان نے ہدایت جاری کی کہ آئندہ اجلاس میں سارے صوبوں کے حوالے سے لوڈشیڈنگ‘ بجلی کی پیداوار اور ضرورت‘ سرکلر ڈیٹ اور ڈسٹری بیوشن کے حوالے سے اعدادو شمار کمیٹی کے سامنے پیش کئے جائیں۔ سینیٹر زاہد خان کا کہنا تھا کہ وزارت پانی و بجلی نے ہمیشہ غلط اعدادو شمار پیش کئے ہیں۔

اگر صرف ملک میں 3 ہزار میگاواٹ بجلی کا شارٹ فال ہے تو بارہ بارہ گھنٹے کیسے لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ وزارت پانی و بجلی کے حکام نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے ایک ارب روپے پیپکو کی ادائیگیاں کرنی ہیں تاہم 500 ملین روپے کی ادائیگیاں کردی گئی ہیں۔ صوبے میں صرف ہائیکورٹ کو ڈبل فیڈر سے بجلی فراہم کی جارہی ہے جبکہ عدلیہ نے 21 ملین کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔

وزیراعلی ہاؤس کو ایک فیڈر سے بجلی فراہم کی جارہی ہے ایمرجنسی کی صورت میں انہیں جنریٹر فراہم کردیا جاتا ہے۔ صوبے میں جن فیڈرز پر بجلی کے نقصانات 70 فیصد سے زائد ہوں وہاں زیادہ لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ سینیٹر نثار محمود کا کہنا تھا کہ مالاکنڈ ڈویژن میں 97 فیصد ریونیو دینے کے بعد بھی دس بارہ گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے جس پر کمیٹی نے ہدایت جاری کی کہ اس حوالے سے مالاکنڈ ڈویژن سے متعلقہ اعدادو شمار کی دوبارہ تصدیق کرکے خامیاں دور کی جائیں۔

تکنیکی مسائل کو بہانہ نہ بنایا جائے بلکہ ان مسائل کو دور کرکے اپنی پالیسی کو مزید بہتر کیا جائے۔ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں حیسکو حکام کو طلب کرتے ہوئے حیدرآباد میں بجلی کی صورتحال کے حوالے سے تمام متعلقہ اعدادو شمار کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت کردی۔ لیسکو حکام نے بتایا کہ وفاق نے لیسکو کے 524 ملین روپے جبکہ صوبائی حکومت نے 452 ملین کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔

لیسکو حکام کے مطابق واسا اور ٹی ایم اے لیسکو کو ادائیگیاں نہیں کررہے جس کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے‘ فی الوقت واسا نے لیسکو کو 1562 ملین کی ادائیگی کرنی ہے جن میں سے 863 ملین کی ادائیگی کردی گئی ہے جبکہ تحصیل میونسپل اتھارٹیز کی جانب سے 2272 ملین کی ادائیگیاں ابھی ہونی ہیں جن میں سے 6.8 ملین کی ادائیگیاں کی گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ رائیونڈ میں بطور وزیراعظم ہاؤس 2 فیڈر لگے ہوئے ہیں اور چونکہ وزیراعظم کی وہاں پر رہائشگاہ ہے اسلئے انہیں خصوصی مراعات فراہم کی گئی ہیں اور 2 فیڈرز کے بعد اگر بجلی جائے تو جنریٹر فراہم کردئیے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ریڈ زون میں لوڈشیڈنگ نہیں کی جارہی۔ سینیٹر ہمایوں خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ان کے بجلی کے استعمال پر جنوری میں ان کو 1300 یونٹ اور فروری کے مہینے میں 180 یونٹ بجلی کے بل بھجوادئیے گئے‘ اتنا فرق کیسے آسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت پانی و بجلی کے اعلی حکام اراکین پارلیمنٹ کی فون کالز کا جواب دینے کی زحمت بھی نہیں کرتے جس پر سینیٹر نثار محمود نے اس بات پر شدید اعتراض کرتے ہوئے ہمایوں مندوخیل کی بھرپور حمایت کی۔

انہوں نے کہا کہ ایک ایکسین نے ان کے شناسا غریب مزدوروں کو 25 ہزار روپے فی میٹر نصب کرنے پر رشوت مانگی جس پر وزارت پانی و بجلی کے حکام نے ان کی جانب سے رابطہ کرنے کے باوجود ان کی کال کا جواب دیا اور نہ ہی اس ایکسین کیخلاف کوئی کارروائی ہی کی اس پر کمیٹی نے اس حوالے سے ایڈیشنل سیکرٹری کو خود تحقیقات کرکے کارروائی اور پندرہ رروز میں کمیٹی کو تفصیلی رپورٹ فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔

آئیسکو کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے بتایا کہ اسلام آباد میں بہت سے بڑے سرکاری اداروں کی کئی کئی ماہ کی ادائیگیاں واجب الاداء تھیں جس پر 4 مارچ کو انہیں نوٹس جاری کئے گئے کہ 28 اپریل تک ادائیگیاں کردیں‘ عدم ادائیگیوں کے بعد ان سرکاری اداروں اور دفاتر کو بجلی کی فراہمی منقطع کردی گئی جس پر بعض اداروں بشمول تحصیل میونسپل اتھارٹی اور نادرا نے اپنے حصے کی ادائیگیاں کردیں تاہم کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کیساتھ سٹریٹ لائٹس کا مسئلہ ابھی حل طلب ہے۔

مارچ کے آخر تک سی ڈی اے نے 2.13 ارب روپے کی ادائیگیاں کرنی تھیں جن میں سے 1.7 ارب روپے سٹریٹ لائٹس کے ضمن میں تھے ان میں سے ابھی تک سی ڈی اے نے 376 ملین کی ادائیگیاں کی ہیں۔ کمیٹی نے سی ڈی اے کو نوٹس جاری اور ادائیگیاں نہ ہونے پر سی ڈی اے کے تمام دفاتر کی بجلی منقطع کرنے کی ہدایت کردی جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ سی ڈی اے کے تمام دفاتر کی بجلی منقطع ہے اور وہ جنریٹر استعمال کررہے ہیں۔

کمیٹی نے تمام ملک کی سٹریٹ لائٹس بالخصوص وفاقی دارالحکومت کی سٹریٹ لائٹس کو شمسی توانائی پر لانے کی بھی سفارش کردی۔ وزارت پانی و بجلی کے حکام نے بتایا کہ انہیں احساس ہے کہ رات کے وقت بجلی کی لوڈشیڈنگ سے عوام کی صحت اور پڑھائی پر کافی اثر پڑ رہا ہے جس پر وزارت کوشش کرے گی کہ رات کو ملک بھر میں بجلی کی کم از کم لوڈشیڈنگ کی جائے۔ کمیٹی نے این ٹی ڈی سی حکام کو لورالائی اور ڈیرہ غازی خان گرڈ کو مکمل کرکے 30 اپریل کو کمیٹی کو بلاکر اس کے افتتاح کا وعدہ کیا تھا تاہم آج بتایا جارہا ہے کہ یہ کام مئی میں مکمل ہوگا اس پر چیئرمین زاہد خان نے شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کے سامنے جھوٹ بولنے پر انہیں شدید ترین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ایم ڈی این ٹی ڈی سی کو گھر بھی بھیجا جاسکتا ہے۔

ایڈیشنل سیکرٹری پانی و بجلی نے شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے جلد مکمل کرنے کی یقین دہانی کروائی تاہم چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ اس حوالے سے مکمل تحقیقات کرکے جلد ذمہ داران کا تعین کرکے آئندہ اجلاس پر کمیٹی کو تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے گی۔ کمیٹی نے ایک ہفتے میں منصوبے کی تکمیل کیلئے تحریری طور پر ڈیڈ لائن فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔

کیسکو حکام کا کہنا تھا کہ پولیس نے کیسکو کو 130 ملین کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں 30 مئی تک اپنے ذمے سبسڈی کی واجب الاداء رقوم کی ادائیگیاں مکمل بنائیں۔ ایک سوال کے جواب میں وزارت پانی و بجلی کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ تیل کی عدم ادائیگی کے باعث بجلی کی پیداوار پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

کوئلے کے ذریعے صرف 30 میگاواٹ بجلی پیدا ہورہی ہے جوکہ زیادہ قابل اعتبار نہیں۔ ہائیڈل ذرائع سے 3100 میگاواٹ بجلی کی پیداوار جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جولائی تک 1800 میگاواٹ جبکہ اگست تک 1900 میگاواٹ بجلی نئے منصوبوں کے ذریعے جمع ہوجائے گی۔ این ٹی ڈی سی حکام کے مطابق بجلی کی کل پیداوار 10700 میگاواٹ ہے جس میں آئی پی پیز کا حصہ 5800 میگاواٹ ہے۔ کمیٹی نے فلڈ کمیشن کو آئندہ اجلاس میں صوبہ وار سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی تفصیلات کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کی ہدایات جاری کردیں۔ چیئرمین کمیٹی نے یہ بھی ہدایت جاری کی کہ فیول ایڈجسٹمنٹ اور ادائیگیوں کے حوالے سے وزیراعلی سندھ کو تحریری درخواست کی جائے کہ وہ معاملے کو مشترکہ مفادات کونسل میں حل کریں۔