مدارس میں اصلاحات کے منصوبے پر کام جاری ہے: بلیغ الرحمٰن، سب نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی ہے کہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ وہ عصری مضامین بھی مدارس میں پڑھانا چاہتے ہیں۔ حکومت کے لیے ایک بڑا چینلج اڑھائی کروڑ بچوں کو دوبارہ اسکولوں میں لانا ہے۔ طالبان سے ’مذاکرات میں بالکل پیش رفت ہو رہی ہے، اس کا بہتر نتیجہ آئے گا،مزاکرات سے بغیر جنگ و جدل اور دونوں اطراف کا خون بہائے ہم مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتے ہیں، وفاقی وزیر مملکت برائے تعلیم اور اْمور داخلہ کی گفتگو

جمعرات 8 مئی 2014 08:05

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔8مئی۔2014ء ) پاکستان کے وفاقی وزیر مملکت برائے تعلیم اور اْمور داخلہ بلیغ الرحمن نے کہا ہے کہ دینی مدارس میں اصلاحات متعارف کرانے کے ایک مجوزہ منصوبے پر کام کیا جا رہا ہے اور اْن کے بقول مدارس کی تنظیموں کی جانب سے اس کا مثبت جواب ملا ہے۔اْنھوں نے کہا کہ دیگر مذاہب کی درسگاہوں سے بھی اس ضمن میں رابطہ کیا گیا ہے اور سب نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی ہے کہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری مضامین بھی وہ پڑھانا چاہتے ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ سے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ب اس منصوبے کے تحت پہلے مرحلے میں بہت سے جب کہ دوسرے مرحلے میں تمام مدارس کو قومی دھارے میں شامل کر لیا جائے گا۔”ہم نے ان سے کہا ہے کہ اپنی دینی تعلیم جو بھی آپ پڑھاتے اْس کے ساتھ ساتھ آپ جو بنیادی چیزیں ہیں، جیسے بچوں کو کم از کم لکھنے پڑھنے کی بنیادی چیزیں سمجھ آ جائیں تو کسی نے بھی اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا۔

(جاری ہے)

“وزیر مملکت برائے تعلیم نے کہا کہ حکومت کے لیے ایک بڑا چینلج اڑھائی کروڑ بچوں کو دوبارہ اسکولوں میں لانا ہے۔”پانچ سے نو سال کی عمر کے کم از کم 60 لاکھ سے زیادہ ایسے بچے ہیں جو اسکولوں سے باہر ہیں، اس طرح پانچ سے 16 سال کے بچے اور بچیاں جو اسکولوں سے باہر ہیں ان کی کل تعداد دو کروڑ کے قریب بنتی ہے۔“وزیر مملکت برائے تعلیم کا کہنا تھا کہ حکومت تعلیم کے بجٹ میں اضافے کے عزم پر قائم ہے۔

”ہمیں یقین ہے کہ آنے والے بجٹ میں قوم پہلے سے زیادہ بہتر بجٹ دیکھے گی۔ 1960ء سے بات کی جا رہی ہے کہ ملک کی قومی پیداوار ’جی ڈی پی‘ کا چار فیصد تعلیم پر خرچ ہونا چاہیئے۔ مجھے اْمید ہے کہ یہ خواب 2018ء تک ضرور شرمندہ تعبیر ہو گا۔“بلیغ الرحمٰن کے پاس وزیر مملکت برائے اْمور داخلہ کا اضافی قلمدان بھی ہے۔ ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تحریک طالبان پاکستان سے جاری مذاکرات کے بارے میں اْن کا کہنا تھا کہ بات چیت کے عمل کے آغاز کے بعد ملک میں دہشت گرد حملوں میں کمی آئی ہے۔

”مذاکرات میں بالکل پیش رفت ہو رہی ہے اور بالکل پر اْمید ہیں کہ اس کا بہتر نتیجہ آئے گا اور یہ بہترین طریقہ ہوتا ہے کہ بغیر جنگ و جدل اور دونوں اطراف کا خون بہائے ہم مطلوبہ نتائج حاصل کریں۔۔۔اگر خدانخواستہ خدانخواستہ یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو پھر اس معاملے کو ہم ایسے نہیں چھوڑ سکتے تو پھر ہم اس کے لیے قیمت دینے کو تیار ہیں۔“وزیراعظم نواز شریف کی حکومت نے رواں سال کے اوائل میں مذاکرات کے عمل کا آغاز کیا تھا، اگرچہ سرکاری مذاکراتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کے درمیان صرف ایک ہی براہ راست ملاقات ہوئی لیکن حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی کے مسئلے کے حل میں سنجیدہ ہے۔

متعلقہ عنوان :