آزادی و انقلاب مارچ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پہنچ گئے،کارکن کنٹینرز اور رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے ریڈ زون میں داخل ہوئے، پولیس نے کوئی مزاحمت نہیں کی ، ان سے ہتھیار لے کر ڈنڈے تھما دیئے گئے تھے،کنٹینرز ہٹانے کے دوران 4 افراد زخمی،اسلام آباد کے اسپتالوں میں بھی ایمرجنسی نافذ،پارلیمنٹ ہاؤس، وزیراعظم سیکرٹریٹ، وزیراعظم ہاؤس، ایوان صدر، دفتر خارجہ، ڈپلومیٹک انکلیوژ، سرینا ہوٹل کی سیکورٹی سخت کردی گئی،کشیدہ صورتحال کے باعث مذاکراتی عمل شروع، لیاقت بلوچ کا خورشید شاہ سے رابطہ

بدھ 20 اگست 2014 09:19

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20اگست۔2014ء)آزادی و انقلاب مارچ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پہنچ گئے۔کارکن کنٹینرز اور رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے ریڈ زون میں داخل ہوئے جبکہ دوسری جانب پولیس بھی مظاہرین کو روکنے کیلئے تیار کھڑی تھی ، تاہم ان سے ہتھیار لے کر ڈنڈے تھما دیئے گئے تھے اور کوئی مزاحمت نہیں کی گئی ۔منگل کے رات عمران خان اور طاہر القادری کے اعلان کے بعد آزادی و انقلاب مارچ کے شرکاء نے پارلیمنٹ کی جانب بڑھنا شروع کیا، دونوں جماعتوں کے کارکنان کی بڑی تعداد آگے بڑھنا شروع ہوئی، کنٹینرز اور رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے مظاہرین ریڈ زون میں داخل ہوگئے اور کارکنوں نے ہاتھوں کی زنجیر بنالی، جبکہ کنٹینرز ہٹانے کے دوران 4 افراد زخمی ہوگئے۔

آزادی اور انقلاب مارچ کے شرکاء ایک مقام پر اکٹھے ہوگئے ہیں جبکہ عمران خان کا کنٹینر بھی آگے بڑھ رہا ہے، وہ اپنے کارکنوں کو جوش دلانے کیلئے وقتاً فوقتاً خطاب بھی کر تے رہے ، خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد بھی مارچ میں شریک ہے، جو گو نواز گو کے نعرے لگارہے ہیں۔

(جاری ہے)

دوسری جانب ریڈ زون میں موجود پولیس اہلکاروں سے بندوقیں واپس لے لی گئیں اور مظاہرین پر لاٹھی چارج نہ کرنے کا حکم دیدیا گیا، آزادی و انقلاب مارچ کے شرکاء کو نہ روکنے کی بھی ہدایت کردی گئی۔

اسلام آباد کے اسپتالوں میں بھی ایمرجنسی نافذ کردی گئی، پولی کلینک کے ایمرجنسی وارڈ خالی کرالیا گیا، 50 سے زائد بیڈز کا بھی انتظام کرلیا گیا۔اس سے قبل انقلا ب مارچ کی روانگی کے موقع پر آبپارہ چوک انقلابی ترانوں سے گونجتا رہا، سرینا ہوٹل تک کا راستہ بآسانی صاف کردیاگیا ، ایمبیسی روڈ پر پہنچتے ہی مظاہرین کو روکنے کیلئے پولیس کی آنسو گیس کی شیلنگ،متعدد انقلابی زخمی ، پارلیمنٹ ہاؤس، وزیراعظم سیکرٹریٹ، وزیراعظم ہاؤس، ایوان صدر، دفتر خارجہ، ڈپلومیٹک انکلیوژ، سرینا ہوٹل کی سیکورٹی سخت کردی گئی۔

کشیدہ صورتحال کے باعث مذاکراتی عمل شروع،

لیاقت بلوچ کا قائد حزب اختلاف خورشید شاہ سے رابطہ،طاہر القادری کا پولیس شیلنگ پر سخت رد عمل کا اظہار ، ان کا کہنا ہے کہ حکومت و پولیس ہوش کا ناخن لیں، یہی رویہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی وجہ بناکیوں حکومت بوکھلاہٹ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن سے بڑا سانحہ رونما کرانا چاہتی ہے،امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہاہے کہ انقلابی و آزاد ی مارچ اگر پرامن طور پر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پہنچ گئے تو مذاکراتی عمل شروع کرینگے۔

منگل کی شام عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری نے نما ز مغرب کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کی جانب انقلاب مارچ چلانے کا اعلان جیسے ہی کیا تو کارکنان میں جوش و خروش دیدنی تھا جبکہ اس پر مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما حسن ظفر نقوی نے ساحر لدھیانوی کی نظم ”خون تو خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائیگا“ جیسے ہی پڑی تو انقلابیوں میں جذبہ و ولولے کی نئی لہر دوڑ گئی اور انقلاب انقلاب کی آوازوں سے وفاقی دارالحکومت کی فضا گونج اٹھی۔

اس موقع پر ڈاکٹر طاہر القادری سمیت دیگر قائدین نے بھی حسن ظفر نقوی کوداد دی۔ بعد ازاں 8:45 پر جیسے ہی مارچ کو پارلیمنٹ کی جانب گامزن کرنے کا اعلان کیاگیا تو اسی اثناء میں پاکستان تحریک انصاف کا آزادی مارچ بھی خیابان سہر وردی پر آگیا جبکہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سمیت دیگر مرکزی قائدین کی گاڑیاں بھی عوامی تحریک و انقلابی مارچ کے قائدین کے ساتھ آملیں ۔

اس موقع پر کرین سے آبپارہ سے متصل شیل پمپ کے پاس لگے گئے کنٹینرز ہٹائے گئے اور آبپارہ تا سیرینا ہوٹل تک کا سفر بآسانی تین گھنٹوں میں طے کیاگیا انقلاب و آزادی مارچ کا ایک سرہ سرینا ہوٹل چوک اور آخری سرہ آبپارہ چوک سے مل رہا تھا جبکہ لوگوں کے سرہی سر نظر آتے تھے۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے چند کارکنان نے جلدبازی کا مظاہرہ کیا اور ریڈزون کی جانب دوڑنا شروع کردیا وہ کارکنان جیسے ہی ایمبیسی روڈ کے ذریعے ریڈزون کی جانب جانے کیلئے کوشاں ہوئے تو پولیس نے آنسو گیس کے شیل فائر کئے مگر تحریک انصاف کے جیلے وفاقی دارالحکومت کی سڑکوں پر دوڑتے رہے پولیس کی شیلنگ کے باعث متعدد انقلابی و آزادی مارچ کے کارکنان زخمی بھی ہوگئے۔

ادھر سیرینا ہوٹل تک تعینات پولیس راستوں سے ایک جانب ہٹ گئی جبکہ عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے کچھ کارکنان نے انہیں شکریہ کا سلام بھی دیا جبکہ عوامی تحریک کے کارکنان نے سڑکوں کے دونوں سائیڈوں پر حفاظتی حصار بنالیا۔

عوامی تحریک کے انقلابی مارچ کی خاص بات یہ تھی کہ کارکنان منظم انداز سے آگے بڑھے جبکہ منہاج القرآن کے حفاظتی دستے کے بعد خواتین آگے جبکہ طاہر القادری و دیگر قائدین کی گاڑیاں مارچ کے عین وسط میں چل رہی تھیں ۔

مارچ کے آخر میں بھی منہاج القرآن ایک حفاظتی دستہ سارے راستے چلتا رہا تاکہ کوئی مشکوک شخص مارچ میں داخل نہ ہوسکے۔ جیسے ہی میڈیا پر انقلاب و آزادی مارچ کے پارلیمنٹ ہاؤس کی جانب روانہ ہونے کی خبریں چلائی گئیں تو پارلیمنٹ ہاؤس، وزیراعظم ہاؤس، وزیراعظم سیکرٹریٹ، سپریم کورٹ، دفتر خارجہ، ڈپلومیٹک انکلیوژاور سرینا ہوٹل جن کی سیکورٹی پہلے ہی سخت تھی اس میں مزید اضافہ کردیاگیا اور سیکورٹی حصار میں لے لیاگیا۔

ذرائع نے ”خبر رساں ادارے“ کو بتایا کہ مذاکراتی عمل بھی کشیدہ صورتحال کے باعث شروع ہوگیاہے اور جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ سے ملاقات کی ہے اور موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ہے جس میں موجودہ صورتحال اور بدھ (آج) سے مذاکرات کی ممکنہ شکل کے حوالے سے مشاورت کی گئی جبکہ لیاقت بلوچ نے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا بھی اہم پیغام بھی قائد حزب اختلاف کو پہنچایا اور ملاقات کے بعد سراج الحق کوتمام صورتحال بارے آگاہی دی۔

جس پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا ہے کہ جیسے ہی انقلاب و آزادی مارچ پرامن طور پر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے بیٹھ جائینگے تو مذاکراتی عمل شروع کرینگے ۔ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں کچھ اہم نکات پربھی غور کیاگیاہے اور حکومت سے بھی رابطے کا فیصلہ کیاگیاہے۔ دوسری جانب پولیس کی شیلنگ پر شیخ انقلاب ڈاکٹر طاہر القادری نے کہاہے کہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے کیونکہ پولیس کے استعمال سے ایک مرتبہ پھر سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسی تاریخ دہرانا چاہتی ہے حکمران اور پولیس ہوش کے ناخن لیں ہم ہر صورت اپنی منزل پر پہنچیں گے۔

بعد ازاں مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی نے کہاہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیخلاف ابھی تک ایف آر تک نہیں کاٹی گئی۔ انہوں نے آرمی چیف سے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی ملاقات کے سوال پر کہاکہ فوج ملک کا مضبوط اور اہم ادارہ ہے اس کوبدنام کرنے کی سازش حکومت کررہی ہے تاکہ یہ تاثر دے سکے کہ فوج سیاست میں ملوث ہے۔ انہوں نے کہاکہ جمہوریت کو عمران یا طاہر القادری سے نہیں میاں برادران کے غیر جمہوری رویوں کی وجہ سے خطرہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ شریف برادران کے استعفے تک کسی صورت واپس نہیں جائینگے۔