لاہور ہائیکورٹ کا سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ وزیر اعظم،وزیر اعلی سمیت 21افراد کیخلاف درج کرنے کا سیشن عدالت کا فیصلہ برقرار ،فاضل عدالت نے وفاقی وزیر اطلاعات سنیٹر پرویز رشید،وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور وزیر مملکت پانی و بجلی عابد شیر علی اور وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کی سیشن عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کیلئے دائر درخواستیں مسترد کردیں

بدھ 27 اگست 2014 02:11

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27اگست۔2014ء) لاہور ہائیکورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ وزیر اعظم،وزیر اعلی سمیت 21افراد کے خلاف درج کرنے کا سیشن عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا ،فاضل عدالت نے وفاقی وزیر اطلاعات سنیٹر پرویز رشید،وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور وزیر مملکت پانی و بجلی عابد شیر علی اور وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کی سیشن عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کیلئے دائر درخواستیں مسترد کردیں۔

گزشتہ روز مسٹر جسٹس محمود مقبول باجوہ کی عدالت میں کیس کی سماعت شروع ہوئی تو فاضل جج نے ریمارکس دئیے کہ فیصلہ میرٹ پر کیا جائیگا عدالتی ڈیکورم برقرار رکھا جائے۔ پرویز رشید کے وکیل اعظم نذیر تارڑنے موقف اختیار کیا کہ جسٹس آف پیس کے فیصلے میں کہا گیا ہے ان سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ہلاکتیں وزیراعظم ، وزیر اعلیٰ اور وزراء کے ایما پر ہوئیں جو بالکل غلط ہے ، وفاقی وزراء ہونے کی بناء پرصوبائی معاملے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ، سیاسی طور پر ملوث کیا جارہا ہے ، جسٹس آف پیس کا حکم درست نہیں یا تو فاضل عدالت خود اس کو درست کردے یا پھر کیس ریمانڈ کردیا جائے جبکہ 22a,22b کو پہلے ہی فاضل عدالت میں زیر سماعت ہے ، اس معاملے کو اس کے ساتھ فل بنچ بناکر سماعت کرلے ، کیونکہ اس مقدمے کے اندراج سے ان کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا اور ہوسکتا ہے اس کیس کا فیصلہ کچھ اور آجائے

دوسری جانب منہاج القرآن انتظامیہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے روبرو تفتیش کا حصہ بننے اور عدالتی ٹربیونل کے روبرو بیان قلمبند کرانے کی بجائے وزیر اعظم ،وزیر اعلی سمیت اکیس افراد کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست لے کربراہ راست تھانے سے رجوع کیا۔

(جاری ہے)

عدالتی حکم پر جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ عارف مشتاق نے بند کمرے میں تفتیش کی رپورٹ پیش کی۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب حنیف کھٹانہ نے کہا کہ سیشن عدالت کے جج نے فیصلہ سنانے سے قبل جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم اور پولیس کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بغیر یکطرفہ فیصلہ سنایا۔انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ معاملہ کی حساسیت کی پیش نظرلارجز بنچ تشکیل دیدیا جائے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ طاہر القادری نے مبالغہ آمیزی کی اور ماڈل ٹاون واقعہ کا ذمہ دار وزیر اعظم،وزیر اعلی اور وفاقی وزراکو قرار دیدیا۔ بیرسٹر جاوید اقبال جعفری نے کہا کہ سرکاری وکیل ریاست کی جانب سے وکالت کرتا ہے اور ملزموں کو سزاء دلاتا ہے مگر یہاں سرکاری وکلا ملزموں بچانے کیلئے عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں ، سانحہ ماڈل ٹاؤن میں وزیراعظم ، وزیر اعلیٰ سمیت دیگر وزراء ملوث ہیں تحریری دلائل عدالت میں جمع کرردئیے ہیں۔

جس پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کیس کے قانونی پہلووں کا جائزہ لے کر فیصلہ سنائے گی،عدالتی آداب کے پیش نظر سیاسی دلائل نہ دئیے جائیں۔منہاج القرآن کے وکیل منصور آفریدی نے فاضل جج کو گلوبٹ کیجانب سے توڑ پھوڑ اور گاڑیوں کو نقصان پہنچانے کی تصاویر اوروقوعہ کے متعلق تصاویر فراہم کیں اورکہا کہ ٹھوس ثبوت ، گواہوں اور مرنے والوں کے لواحقین کی عدم موجودگی میں پولیس کی مدعیت میں درج کی جانے والی ایف آئی آر کی کوئی حیثیت نہیں،لاہور ہائیکورٹ کے حکم پرادارہ کے سامنے رکاوٹیں لگائی گئیں جووزیراعظم ، وزیراعلیٰ اور دیگر وزراء کے حکم پر رات 12 بجے بغیر کوئی نوٹس دئیے ہٹانے کیلئے پولیس اور انتظامیہ نے دھاوا بولا ،سپریم کورٹ کے احکامات پر بھی رات کو عمل نہیں جاتا بلکہ دن کے وقت کاروائی کی جاتی ہے انہوں نے کہا کہ گلو بٹ کو بچانے کیلئے اس کیخلاف دوسری ایف آئی آر درج کی گئی اور کیس کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سیشن عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کا حکم دیا جائے اور پرویز رشید کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کیا جائے۔