سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تفتیشی ٹیم(جے آئی ٹی)کی 9 پولیس افسران و اہلکاران کی گرفتاری کی سفارش، اہم پولیس افسران واضح طور پر فائرنگ کرتے ہوئے فوٹیج سے شناخت کئے جا سکتے ہیں، رپورٹ ،پولیس نے تفتیش کے دوران ادارہ منہاج القرآن کے کارکنوں کی شناخت میں کوئی تعاون نہیں کیا،ادارہ منہاج القرآن کے شامل تفتیش نہ ہونے کے باعث حتمی رائے قائم کرنے میں بڑی رکاوٹیں ہیں،ڈی آئی جی آپریشن نے کہا کہ ہمیں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف اور رانا ثناء اللہ کی طرف سے سخت حکم آیا ہے کہ قادری خاندان کا نام ونشان مٹا دو،خواہ جتنی بھی جانیں لینا پڑیں، رپورٹ میں بیانات

بدھ 27 اگست 2014 02:11

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27اگست۔2014ء)سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تفتیشی ٹیم(جے آئی ٹی)نے 9 پولیس افسران و اہلکاران کی گرفتاری کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اہم پولیس افسران واضح طور پر فائرنگ کرتے ہوئے فوٹیج سے شناخت کئے جا سکتے ہیں،پولیس نے تفتیش کے دوران ادارہ منہاج القرآن کے کارکنوں کی شناخت میں کوئی تعاون نہیں کیا،ویڈیوز کے ذریعے ان پولیس افسران اور اہلکاروں کی شناخت کی گئی ہے اور یہ فائرنگ کرتے ہوئے پائے گئے،ادارہ منہاج القرآن کی انتظامیہ اور زخمیوں کے شامل تفتیش نہ ہونے کے باعث حتمی رائے قائم کرنے میں بڑی رکاوٹیں ہیں،پولیس بظاہر فائرنگ کرتی نظر آتی ہے لیکن اس کا فائر دوسری جانب کسی کو لگا یا نہیں ایسی کوئی شہادت نہیں ملتی ا س لئے حتمی نتیجہ نہیں دیا جاسکتا۔

(جاری ہے)

خبر رساں ادارے کو موصولہ رپورٹ کے مطابق جن افسران اور ملازمین کی ویڈیو فوٹیج میں آتشیں اسلحہ سے فائرنگ کرتے ہوئے شناخت ہوئی ہے ان میں ایس پی سیکورٹی سلیمان علی خان،انسپکٹر سابقہ ایس ایچ او تھانہ سبزہ زار شیخ عامر سلیم،ایس آئی ایلیٹ فورس حافظ اطہر محمود،ہیڈ کانسٹیبل ایلیٹ فورس محمد نوید،ہیڈ کانسٹیبل ایلیٹ فورس خرم رفیق،ایس ایچ او تھانہ شاہ زمان شیخ عاصم ،ایلیٹ فورس کے کانسٹیبل نثار،ڈرائیور عبید اور کانسٹیبل ریاض بابر شامل ہیں،جن میں سے شیخ عامر سلیم ،حافظ اطہر محمود،محمد نوید اور خرم رفیق گرفتار ہیں جن کے جسمانی ریمانڈ حاصل کئے گئے ہیں،

ایس پی سلیمان علی خان سمیت دیگر کی فائرنگ کرتے ہوئے شناخت ہوئی تاہم ویڈیو فوٹیج اور دیگر ذرائع سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی کہ ان کی فائرنگ سے کوئی شخص زخمی یا جاں بحق ہوا۔

واقعہ کی ذمہ داری ان عہدیداران پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے اس فائرنگ کے احکامات صادر کئے اور جو احکامات موقع پر دئیے گئے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سی سی پی او لاہور کے ذریعے طلب کرنے کے باوجود سابق ایس ایچ او شیخ عاصم،کانسٹیبل ایلیٹ فورس نثار،ڈرائیور عبید،کانسٹیبل ریاض بابر نہ تو جے آئی ٹی کے سامنے شامل تفتیش ہوئے اور نہ ہی کوئی صفائی پیش کی یہ لوگ اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر ہوچکے ہیں ان کو شامل تفتیش کیا جانا اشد ضروری ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تین پولیس ملازمین کو پہلے فائر لگا،اس طرح یہ بات عیاں ہے کہ دونوں اطراف سے فائرنگ ہوئی،تاہم یہ بات واضح نہیں کہ بلندی سے فائرنگ کس نے کی؟۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس فورس میں یہ بات پھیل گئی تھی کہ دو اہلکار مظاہرین کی فائرنگ سے ہلاک ہوگئے ہیں اور انہیں مشتعل مظاہرین اٹھا کر لے گئے ہیں جس پر مختلف پولیس پارٹیاں تشکیل دی گئیں اور نفری طلب کی گئی۔

پولیس نے اس موقع پر52افراد کو گرفتار کیا،واقعہ میں98افراد زخمی ہوکر ہسپتالوں میں داخل ہوئے جن میں سے 10ہلاک ہوگئے۔رپورٹ کے مطابق محمد جواد حامد ڈائریکٹر کی جانب سے ایک اور درخواست مع رٹ پٹیشن نعمان عتیق ایڈووکیٹ تفتیشی افسر کو دی گئی جس میں کہا گیا کہ جب سینئر پولیس افسران کو یہ بتایا گیا کہ یہ رکاوٹیں حفاظتی انتظامات کے تحت چار سال قبل عدلیہ اور پولیس کے حکم سے لگائی گئیں تو جواباً ڈی آئی جی آپریشن نے کہا کہ ہمیں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف اور رانا ثناء اللہ کی طرف سے سخت حکم آیا ہے کہ قادری خاندان کا نام ونشان مٹا دو،خواہ جتنی بھی جانیں لینا پڑیں،اس کے بعد پولیس نے شیلنگ شروع کردی اور گھر کے مین گیٹ کو گولیاں ماریں،گیٹ کے سامنے پارک میں سیکورٹی پوسٹ کو بھی گرادیا گیا

جس میں موجود قرآن مجید کے نسخے بھی زمین پر گرگئے،ٹی وی پر بے حرمتی کی یہ انتہا دیکھ کر مزید لوگ جمع ہوگئے،ڈی آئی جی آپریشن لاہور اس عرصہ میں کسی ہائی اتھارٹی سے مسلسل ہدایات لیتے رہے،ڈی آئی جی اور ایس پی کے حکم سے ڈرائیوروں نے کرین اور بلڈوزر کا رخ رہائش گاہ کی طرف کیا تو موقع پر موجود لوگ اور کچھ خواتین جو واویلا سن کر وہاں پہنچ گئی تھیں گھر کے گیٹ کے آگے دیوار بن کر کھڑی ہوگئیں تو ڈی آئی جی آپریشن نے اپنے ہمراہی مسلح گن مین کو حکم دیا کہ میں تین تک گنوں گا اگر یہ نہ ہٹے تو گولی مار دیں،اس پر واقعتاً اس نے تین تک گنتی گنی مگر خواتین بدستور ڈٹی رہیں تو اس کے ہمراہی گن مین نے ڈی آئی جی آپریشن کے حکم پر سیدھا فائر کیا جو مسماة تنزیلا امجد زوجہ امجد اقبال کو چہرے پر لگا اسی طرح طارق عزیز ایس پی ماڈل ٹاؤن کے حکم پر اس کے ہمراہی گن مین نے اپنی رائفل سے فائر کیا جو مسماة شازیہ مرتضی زوجہ مرتضی حنیف سکنہ واہگہ ٹاؤن کو سامنے گردن پر لگا دونوں زخمی ہوکر گریں جنہیں فوری ہسپتال روانہ کیا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکیں۔

پولیس کی اس غارت گری پر وہاں موجود لوگ سراپا احتجاج بن گئے تو پولیس نے دائیں بائیں دونوں اطراف سے سیدھی گولیاں چلا دیں جس سے 100کے قریب افراد زخمی ہوگئے جن میں سے کئی بعد ازاں چل بسے۔ڈی آئی جی آپریشن اور ایس پی ماڈل ٹاؤن نے ڈی ایس پی ماڈل ٹاؤن آفتاب احمد اور ایس ایچ او فیصل ٹاؤن رضوان ہاشمی کو حکم دیا کہ وہ نفری لے کر مرکزی سیکرٹریٹ کی طرف جائیں اور اسے بھی مسمار کردیں جس پر وہاں بھی پولیس نے حشر برپا کردیا۔

نعمان عتیق ایڈووکیٹ نے دوسری درخواست میں شہباز شریف،رانا ثناء اللہ،سی سی پی او لاہور محمد شفیق،ڈی آئی جی آپریشن رانا عبدالجبار،ایس پی آپریشن صدر ملک اویس،ایس پی آپریشن ماڈل ٹاؤن لاہور طارق عزیز اور 500سے 600پولیس ملازمین کے خلاف دی،جس میں کہا گیا کہ 17جون کو لاہور پولیس نے وزیراعلیٰ شہباز شریف اور وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے حکم پر ادارہ منہاج القرآن پر حملہ کرکے انسانیت سوز مظالم ڈھائے اور دو خواتین سمیت 8افراد کو شہید اور100کو زخمی کردیا۔

تفتیشی ٹیم نے زخمیوں کو طبی امداد دینے والے ڈاکٹر رضوان،ڈاکٹر بشیر احمد اور دیگر سے بھی بیانات لئے۔ایس پی سیکورٹی سلیمان علی خان کی طرف سے جے آئی ٹی کو دئیے گئے بیان کے مطابق منہاج القرآن کی جانب سے فائرنگ ہو رہی تھی اور انہوں نے ہوائی فائرنگ کی،انہوں نے ایلیٹ فورس کو طلب نہیں کیا تھا جبکہ ویڈیو فوٹیج میں انہیں ایس ایم جی گن سے فائرنگ کرتے ہوئے واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گردنواح کے مکینوں کے بیانات کے مطابق ادارے سے بھی فائرنگ کی گئی تھی لیکن اس کا کوئی واضح ثبوت جے آئی ٹی کو فراہم نہیں کیا گیا۔