سپریم کورٹ کا شاہراہ دستور کی ایک لین مکمل کلیئر کرنیکا حکم، اٹارنی جنرل اور فریقین کے وکلاء سے چوبیس گھنٹوں میں جواب طلب،معاملہ شاہراہ دستور کا نہیں‘ دستور کا ہے‘دستور اور جمہوریت کو خطرات لاحق ہیں، جسٹس آصف سعید کھوسہ، دھرنے کے شرکاء اگر قابو میں نہیں تو ہمیں بتایا جائے‘ احتجاج کا کوئی طریقہ اور حد ہوتی ہے،جسٹس جواد ایس خواجہ، سیاسی گند یہاں نہ لایا جائے، احتجاج کرنا ہر کسی کا حق ہے اس سے نہیں روک سکتے مگر دوسروں کے حقوق بھی متاثر نہیں ہونے دینگے ،جسٹس ثاقب نثار کے ماورائے آئین اقدام کیس کی سما عت کے دورا ن ریما رکس

جمعرات 28 اگست 2014 08:03

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔28اگست۔2014ء) سپریم کورٹ میں متوقع ماورائے آئین اقدام کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ناصرالملک نے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کی طرف آنے والی شاہراہ دستور کی ایک لین خالی کرنے کا حکم دیتے ہوئے اٹارنی جنرل اور فریقین کے وکلاء سے چوبیس گھنٹوں میں جواب طلب کیا ہے اور ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے اس پر کوئی بات نہیں کرسکتے۔

صورتحال پہلے سے مختلف نہیں راستہ بند ہے اور لوگوں کی تلاشی لی جارہی ہے‘ چاہتے ہیں کہ لوگوں کی آمدورفت میں رکاوٹ نہ ہو۔ دھرنے کے شرکاء کی جانب سے شاہراہ دستور سے دوسری طرف منتقل نہ ہونا عدالتی حکم کی خلاف ورزی میں نہیں آتا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کا کام آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے لوگوں کو انصاف فراہم کرنا ہے۔

(جاری ہے)

آئین کو سب زبان سے تو تسلیم کرتے ہیں مگر افسوس کہ عمل نہیں کرتے۔ دھرنے کے شرکاء اگر قابو میں نہیں تو ہمیں بتایا جائے‘ احتجاج کا کوئی طریقہ اور حد ہوتی ہے جبکہ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دئیے کہ خدارا آئین کو بچائیں جو بنیادی حقوق اور آزاد عدلیہ کا ضامن ہیں۔ احتجاج کرنا ہر کسی کا حق ہے اس سے نہیں روک سکتے مگر دوسروں کے حقوق بھی متاثر نہیں ہونے دیں گے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہڈیوں کا ڈاکٹر چار مرتبہ دماغ کا آپریشن کرچکا ہے اب اسے آپریشن سے روکا جائے۔ معاملہ شاہراہ دستور کا نہیں‘ دستور کا ہے۔ دستور اور جمہوریت کو خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز سپریم کورٹ بار‘ لاہور بار اور دیگر درخواستوں کی سماعت کے دوران دئیے۔ چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے گذشتہ روز جب سماعت کا آغاز کیا تو اٹارنی جنرل آف پاکستان‘ عوامی تحریک کے وکیل علی ظفر‘ تحریک انصاف کے وکیل اور دیگر درخواست گزاروں کے وکلاء پیش ہوئے۔

اس دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ ہم نے حکم دیا تھا کہ شاہراہ دستور کو خالی کیا جائے ایسا کیوں نہیں ہوا جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ ان کا دھرنا شاہراہ دستور پر نہیں پریڈ ایونیو پر ہے۔ عوامی تحریک دوسری جگہ منتقل نہیں ہونا چاہتی تاہم عوامی تحریک نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ شاہراہ دستور پر آمدورفت کی رکاوٹوں کو دور کرے گی اس پر عدالت نے کہا کہ ان کو ہم دوسری جگہ منتقل ہونے کا تو نہیں کہہ سکتے تاہم اتنا ضرور کردیں کہ آنے والوں کو پریشانی نہ ہو۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اخبارات میں آیا ہے کہ جمہوریت پر لعنت بھیجی جارہی ہے۔ آئین کا خدارا تحفظ کریں۔ پاکستان بننے کے بعد جو نعمت ملی وہ آئین ہی ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے باوردی سٹاف نے رجسٹرار کو درخواست دی ہے کہ انہیں روک کر تلاشی لی جارہی ہے۔ کسی کے مطالبات سے ہمارا کوئی تعلق نہیں تاہم اگر حالات کنٹرول سے باہر ہیں تو ہم اسے انارکی قرار دے دیتے ہیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ سیاسی گند یہاں نہ لایا جائے۔ اس دوران عوامی تحریک کے وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ یہ جو رکاوٹوں کی وجہ سے پریشانی ہوتی ہے یہ انفرادی معاملہ ہے۔ چند لوگوں کی تکلیف ان لوگوں کے دکھ کے برابر نہیں ہوسکتی کہ جن کے جیتے جاگتے چودہ لوگ ماردئیے جائیں اسی وجہ سے یہاں پر احتجاج کیا جارہا ہے۔ ہماری قیادت جب لوگوں کو سمجھانے کیلئے بات کرتی ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ لوگ اپنے پیاروں کے دکھ میں جذباتی ہوتے ہیں تاہم مجمع کنٹرول میں ہے اس پر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ یہ کہنا کافی نہیں کہ یہ انفرادی مسئلہ ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے علی ظفر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر عوامی تحریک کی قیادت اپنے کارکنوں کو کنٹرول نہیں کرسکتی تو ہمیں بتایا جائے۔ آج بھی ہمیں کئی رکاوٹیں عبور کرکے سپریم کورٹ پہنچنا پڑا۔ تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ تحریک انصاف کسی بھی ماورائے آئین اقدام کی حمایت نہیں کرے گی ویسے بھی وہ پریڈ ایونیو پر بیٹھے ہوئے ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آج حالات بہت نازک ہیں۔ آئین اور جمہوریت کو خطرات لاحق ہیں۔ پہلے بھی اس کا چار آپریشن ہوچکا ہے اب پھر آپریشن نہ کردیا جائے۔ درخواست گزار بھی اسی وجہ سے پریشان ہیں جس پر عدالت نے کیس کی مزید سماعت (آج) جمعرات تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل‘ رجسٹرار سپریم کورٹ اور فریقین کے وکلاء کو ہدایت کی کہ جو لین سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کی طرف آتی ہے اور وہ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے سامنے کی لین ہے اس کو مکمل طور پر خالی کیا جائے۔ کارکنان کی جانب سے لوگوں کی تلاشی کو روکا جائے۔ ان تمام معاملات کو یقینی بناتے ہوئے اس پر عملدرآمد رپورٹ چوبیس گھنٹوں میں سپریم کورٹ میں پیش کی جائے۔ عدالت اس کیس کی مزید سماعت (آج) جمعرات کو بھی جاری رکھے گی۔