نئے چیف الیکشن کمشنرکی تقرری کے لئے بالواسطہ طور پر 11دن کی مہلت؟،چیف جسٹس نے جسٹس انور ظہیر جمالی کو قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کے عہدہ سے واپس بلانے کا حکم جاری کر دیا،اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو بھی باقاعدہ آگاہ کردیا گیا ہے،سپریم کورٹ کا اعلان،مزید وقت نہیں دیں گے‘ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کو نوٹس جاری ہوں گے،سپریم کورٹ،مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا معاملہ لٹکایا جارہا ہے حکومت چاہے تو قائد حزب اختلاف سے فون پر بھی مشاورت کرسکتی ہے، چیف جسٹس ناصرالملک کے ریمارکس

منگل 25 نومبر 2014 08:51

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔25نومبر۔2014ء) چیف جسٹس ناصر الملک نے حکومت کو نئے چیف الیکشن کمشنرکی تقرری کے لئے بالواسطہ طور پر 11دن کی مہلت دیتے ہوئے پانچ دسمبر سے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس انور ظہیر جمالی کی خدمات واپس لینے کا حکم جاری کردیا۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو بھی باقاعدہ آگاہ کردیا گیا ہے تاہم اس وقت تک نئے چیف الیکشن کمشنرکی تقرری نہ ہونے پر الیکشن کمیشن میں آئینی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔

پیر کو سپریم کورٹ سے جاری کردہ اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے پیر کے روز صبح کے وقت قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کی خدمات کی واپسی کے حوالے سے جو فیصلہ دینا تھا وہ دے دیا ہے اور جسٹس انور ظہیر جمالی پانچ دسمبر سے قائم مقام چیف الیکشن کمشن نہیں ہوں گے۔

(جاری ہے)

آئینی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کی خدمات واپس ہوگئیں اور حکومت نے بھی مستقل چیف الیکشن کمشنر تعینات نہ کیا تو اس سے آئینی بحران پیدا ہوجائے گا کیونکہ چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ ایک آئینی عہدہ ہے جسے ایک روز کیلئے بھی خالی نہیں چھوڑا جاسکتا۔

گزشتہ روز مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ناصر الملک نے وفاقی حکومت پر واضح کردیا تھا کہ مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی میں حکومت کو مزید مہلت نہیں دی جائے گی اور سپریم کورٹ اپنا جج بھی واپس بلا لے گی۔ اسی بات کو پورا کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس انور ظہیر جمالی کی خدمات پانچ دسمبر سے واپس لینے کیلئے حتمی حکم جاری کردیا گیاہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے چوبیس نومبر سے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کی خدمات واپس نہیں لیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو بھکر اور ملک کے دیگر علاقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات متاثر ہوسکتے تھے اور ان کیلئے نہ صرف نئی تاریخوں کا اعلان کرنا پڑتا بلکہ ممکن تھا کہ الیکشن کمیشن کیلئے مشکلات پیش آسکتی تھیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کی واپسی کے بعد آئینی بحران شدت اختیار کرے گا اس لئے آئینی ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی جلد از جلد کی جائے۔

سپریم کورٹ گزشتہ روز کی سماعت میں اس بات کا عندیہ بھی دے چکی ہے کہ اگر مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی نہ ہوئی تو عدالت وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کو نوٹس جاری کرے گی۔ادھرسپریم کورٹ نے مستقل چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے کیس میں حکومت کو مزید مہلت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بس بہت ہوگیا‘ مزید وقت نہیں دیں گے‘ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کو نوٹس جاری ہوں گے جبکہ بلدیاتی انتخابات سے متعلق وزیراعظم اور وزرائے اعلی کو بھی نوٹس جاری کرسکتے ہیں‘ قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کی واپسی کا فیصلہ آج ہی کریں گے۔

یہ حکم چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پیر کے روز جاری کیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا معاملہ لٹکایا جارہا ہے حکومت چاہے تو قائد حزب اختلاف سے فون پر بھی مشاورت کرسکتی ہے۔ کافی وقت دیا ہے مزید وقت نہیں دیں گے۔ قائد حزب اختلاف ملک میں واپس آئیں گے تو وزیراعظم دورے پر باہر چلے جائیں گے جبکہ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت چاہے تو معاملہ ایک دن میں ہی حل ہوسکتا ہے۔

حکومت کو اضافی ایک گھنٹہ بھی نہیں دے سکتے۔ اگر مخلصانہ کوشش کی گئی ہے تو اس کا ریکارڈ عدالت میں پیش کریں۔ سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل آف پاکستان پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت کو بتایا کہ حکومت مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کیلئے مخلصانہ کوششیں کررہی ہے اس حوالے سے چار ناموں پر غور کیا گیا جس میں دو ریٹائر ججوں جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی اور جسٹس (ر) رانا بھگوان داس نے مستقل چیف الیکشن کمشنر بننے سے انکار کردیا۔

دونوں مرتبہ حکومت اور اپوزیشن کا مستقل چیف الیکشن کمشنر کے نام پر اتفاق ہوا مگر ایک سیاسی جماعت کی وجہ سے معاملات مکمل نہیں ہوسکے اب نئے سرے سے مشاورت کرنا ہوگی۔ قائد حزب اختلاف بیمار اور بیرون ملک ہیں ان کی واپسی پر معاملہ طے کرلیا جائے گا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے تو کہا تھا کہ 24 نومبر تک تقرری کردی جائے گی آپ کو بہت سے مواقع دئیے مزید تاخیر نہیں کرسکتے۔

قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کا نوٹیفکیشن بھی واپس لیں گے۔ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کو بھی نوٹس جاری ہوں گے۔ یہ اتنا بڑا معاملہ نہیں کہ جس میں اتنی زیادہ تاخیر کی جارہی ہے۔ اگر ایک عہدے کیلئے یہ حال ہے تو باقی معاملات کیسے چلیں گے۔ بعدازاں عدالت نے آرڈر لکھواتے ہوئے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے حوالے سے حکومت کو مزید وقت نہیں دے سکتے۔ حکومت عدالت میں جواب پیش کرے۔ اس معاملے کی یکم دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کے مقدمے میں سماعت کی جائے گی۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت یکم دسمبر تک ملتوی کردی۔