ملک کی سیاسی قیادت کا دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ قرار دیتے ہوئے اس کیخلاف بھرپور انداز میں لڑنے کا عزم ، یکسوئی کے ساتھ یہ جنگ اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک ایک بھی دہشتگرد موجود ہے ،سیاسی جماعتوں کے اجلاس میں اتفاق اچھے اور برے طالبان کی کوئی تمیز نہیں ہوگی،محمد نوازشریف،وزیرداخلہ کی قیادت میں پارلیمانی جماعتوں کی کمیٹی سات دن میں دہشتگردی کیخلاف پلان آف ایکشن تیار کرے گی جو قومی قیادت کو پیش کیا جائے گا ،قومی وعسکری قیادت اسے قوم کے سامنے لائے گی،افغانستان بھاگنے والے دہشتگردوں کا پاکستان اور اْفغانستان کی حکومتیں ملکر تعاقب کریں گی، وزیر اعظم کی اجلاس کے بعد مشترکہ پریس، المناک واقعہ پر شدید غم اور دکھ کا اظہار کیلئے ایک قرارداد بھی منظور کرلی گئی

جمعرات 18 دسمبر 2014 09:04

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔18دسمبر۔2014ء)ملک کی سیاسی قیادت نے دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ قرار دیتے ہوئے اس کیخلاف بھرپور انداز میں لڑنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے طے کیا ہے کہ یکسوئی کے ساتھ یہ جنگ اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک ایک بھی دہشتگرد موجود ہے اور وزیراعظم محمد نوازشریف نے واضح اعلان کیا ہے کہ اچھے اور برے طالبان کی کوئی تمیز نہیں ہوگی،وزیرداخلہ کی قیادت میں پارلیمانی جماعتوں کی کمیٹی سات دن میں دہشتگردی کیخلاف پلان آف ایکشن تیار کرے گی جو قومی قیادت کو پیش کیا جائے گا اور قومی وعسکری قیادت اسے قوم کے سامنے لائے گی،افغانستان بھاگنے والے دہشتگردوں کا پاکستان اور اْفغانستان کی حکومتیں ملکر تعاقب کریں گی۔

یہ اعلانات وزیراعظم نے بدھ کو یہاں سیاسی جماعتوں کے اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں کئے،اس موقع پر اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ وزیراعظم کے دائیں اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ان کے بائیں جبکہ دیگر سیاسی قائدین بھی موجود تھے جن میں اسفندیارولی،وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف،شاہ محمود قریشی،سراج الحق اور دیگر شامل ہیں۔

(جاری ہے)

وزیراعظم نے بتایا کہ ایک قرارداد بھی منظوری کی گئی ہے جس میں اس المناک واقعہ پر شدید غم اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اسے درندگی اور سفاکی کا ایسا وحشیانہ عمل قرار دیا گیا ہے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔انہوں نے کہا کہ اس قومی کاز کیلئے ہم نے بات چیت کی ہے اور میں قومی قیادت کا شکر گزار ہوں جس نے یہاں آکر سب کچھ بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک ہونے کا ثبوت دیا اور مجھ پر جس اعتماد کا اظہار کیا وہ میرے لئے اعزاز ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ اجلاس اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ دہشتگردی اور انتہا پسندی کیخلاف یہ جنگ ہماری اپنی جنگ ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے متفقہ طور پر لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔اجلاس محسوس کرتا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے دوران پاک فوج اور دیگر سیکورٹی اداروں نے بڑی قربانیاں دی ہیں اور کامیاب آپریشن کے ذریعے دہشتگردوں کے لاتعداد ٹھکانے اور نیٹ ورک تباہ کئے۔

پشاور میں برپا ہونے والا یہ انسانی المیہ فرار ہونے والے دہشتگردوں کی بزدلانہ کارروائی ہے لیکن اس سے ہمارے قومی عزم میں دراڑ نہیں ڈالی جاسکے گی۔اجلاس واضح طور پر اعلان کرتا ہے کہ اچھے برے طالبان کی کوئی تمیز نہیں ہوگی۔قومی قیادت نے اس عزم کو دہراتے ہوئے طے کیا ہے کہ یکسوئی کے ساتھ یہ جنگ اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک ایک بھی دہشتگرد موجود ہے۔

اجلاس حکومت کی اس کوشش کو تحسین کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس نے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک جگہ بٹھایا اور عملی جدوجہد کی پیشکش کو بھی سراہا گیا۔وزیراعظم نے بتایا کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ تمام سیاسی پارلیمانی جماعتوں کی ایک کمیٹی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی سربراہی میں قائم کی جائے گی اور سات دن میں دہشتگردی کیخلاف پلان آف ایکشن تیار کرے گی۔

اس کمیٹی میں ہر پارلیمانی پارٹی کا ایک ایک نمائندہ شامل ہوگا اور فوج و انٹیلی جنس ادارے بھی شریک ہوں گے،یہ منصوبہ قومی قیادت کو پیش کیا جائے گا اور اس کی منظوری کے بعد ملک کی قومی اور عسکری قیادت مشترکہ طور پر اسے قوم کے سامنے پیش کرے گی۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ کسی وجہ سے موت کے سزاؤں پر عملدرآمد روکا گیا تھا لیکن اب یہ سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کے نتائج انتہائی حوصلہ افزاء رہے ہیں،دہشتگردوں کے ٹھکانے تباہ کئے گئے،کچھ دہشتگرد افغانستان بھاگ گئے ہیں پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں ملکر ان کا پیچھا کریں گی۔آج ہم نے جو عزم کیا ہے یہ دہشتگردی کے جن سے نمٹنے کا ہے اور ہم اس پر قائم رہیں گے۔ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ اجلاس میں بہت سے معاملات پر بات چیت ہوئی،ایک سیل بنانے پر بھی غور کیا گیا ہے،ہر محاذ پر دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے پر بات ہوئی ہے اور ہمارے منصوبے میں تمام امور کھل کر سامنے آجائیں گے۔

ایک اور سوال کے جواب میں نوازشریف نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ دہشتگردی کے مقدمات کی سماعت تیز ہو اور کوئی ایسی گنجائش نہ رہے کہ سخت گیر دہشتگرد بچ جائیں،اس حوالے سے کافی تجاویز ہیں،فوج کی طرف سے بھی کہا جارہا ہے کہ جو پکڑے جاتے ہیں انہیں سزا کیوں نہیں ملتی،ہم اس مسئلے کو حل کریں گے۔ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ آپریشن سب دہشتگردوں کیخلاف تھا اور کوئی فرق نہیں کیا گیا،افغانستان میں انتخابات کے بعد نئی حکومت آئی اور افغان صدر یہاں آئے اور ہم نے اتفاق کیا کہ کسی قیمت پر اپنی سرزمین دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اگر ایسا کوئی معاملہ ہوگا تو اسے میڈیا میں لانے کی بجائے مل بیٹھ کر طے کریں گے،ہم صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ افغانستان اور پورے خطے میں امن چاہتے ہیں افغانستان بھی خلوص دل سے کوشش کر رہا ہے اور ہم بھی آگے بڑھ رہے ہیں یقیناً نتیجہ اچھا ہوگا ۔