شاہد خان آفریدی کی شہرت نے انھیں پاکستان کا چہرہ بنا دیا ہے اور اب ہر بل بورڈ یا ٹی وی کمرشل میں انھیں دیکھا جا سکتا ہے، غیر ملکی خبررساں ادارے کا سروے ،1996 میں سری لنکا کے خلاف نیروبی میں اپنے دوسرے انٹرنیشنل ون ڈے میں 37 گیندوں پر سو رنز بنانے آفریدی پاکستان میں ایک اہم شخصیت بن گئے ہیں۔گزشتہ ہفتے ورلڈ کپ 2015 کے بعد ون ڈے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے ان کے اعلان سے اب ان کے کروڑوں چاہنے والے اس کشمکش میں مبتلا ہوگئے،لڑکیاں آفریدی کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب ہوتی ہیں اور بہت سی ان سے شادی کرنے کی بھی خواہش مند ہیں

جمعرات 1 جنوری 2015 08:22

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔یکم جنوری ۔2015ء ) اگر فینز کی تعداد ہی کرکٹ میں عظمت کا نشان ہے تو پاکستانی آل راوٴنڈر شاہد خان آفریدی کو ملک کے عظیم ترین کھلاڑیوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔1996 میں سری لنکا کے خلاف نیروبی میں اپنے دوسرے انٹرنیشنل ون ڈے میں 37 گیندوں پر سو رنز بنانے آفریدی پاکستان میں ایک اہم شخصیت بن گئے ہیں۔گزشتہ ہفتے ورلڈ کپ 2015 کے بعد ون ڈے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے ان کے اعلان سے اب ان کے کروڑوں چاہنے والے اس کشمکش میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ آفریدی کے بعد اب وہ کسے دیکھیں گے؟ غیر ملکی رساں ادارے مطابق پاکستان میں کسی کرکٹر کو اتنی پزیرائی نہیں ملی جنتی شاہد آفرید کو ملی ہے۔

آفریدی وہ کھلاڑی ہیں جن کی وجہ سے اسٹیڈیم شائقین سے بھر بھی جاتا تھا اور ان کے نہ ہونے سے اکثر خالی نظر آتا تھا۔

(جاری ہے)

ان کو کھیلتے ہوئے دیکھنے کا شوق اتنا شدید ہے کہ جب اپنی سنچریوں کا ورلڈ ریکارڈ بنانے کے کچھ عرصے بعد پشاور میں ایک میچ کے دوران آفریدی زمبابوے کے ایک باوٴلر کی گیند پر آوٴٹ ہوئے تو شائقین چلانے لگے کہ 'آفریدی کو دوبارہ کھیلنے دیا جائے'۔

لڑکیاں آفریدی کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب ہوتی ہیں اور بہت سی ان سے شادی کرنے کی بھی خواہش مند ہیں۔سال 2004 میں دو خواتین عروسی ملبوسات میں اسٹیڈیم آئیں اور اس شرط پر جانے کے لیے تیار ہوئیں کہ انھیں آفریدی سے روبرو ملاقات کا موقع دیا جائے۔شاہد آفریدی نے اپنے غیر روایتی اسٹائل کے ساتھ اپنے فینز کا دل جیت لیا ہے۔یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ آفریدی کا کیریئر اورپاکستانی الیکٹرانک میڈیا ایک ساتھ ہی پروان چڑھا، جسے 2002 میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں مزید فروغ ملا۔

کرکٹ پر لکھنے والے پاکستانی مصنف اور تاریخ دان عثمان سمیع الدین کا کہنا ہے کہ 'آفریدی کو ملنے والی مقبولیت کا کسی بھی دور میں مقابلہ نہیں کیا جا سکتا'۔سمیع الدین کے مطابق انھوں نے ایک ایسے وقت میں کھیلنا شروع کیا، جب تیزی سے فروغ پاتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا نے بھی انھیں سابق کھلاڑیوں عمران خان، وسیم اکرم اور وقار یونس کی طرح ایک بڑا اسٹار بنانے میں مدد فراہم کی۔

آفریدی کا اثر پاکستان کی گلیوں میں کھیلے جانے والی کرکٹ پر بھی دیکھا جا سکتا ہے، جہاں کروڑوں بچے ان کے اسٹائل کی تقلید کرتے ہوئے ہر گیند کو پارک سے باہر پھینکنے کی کوشش کرتے ہیں۔آفریدی کی شہرت نے انھیں پاکستان کا چہرہ بنا دیا ہے اور ان کی پسندیدگی کا اظہاراس بات سے بھی ہوتا ہے کہ ہر بل بورڈ یا ٹی وی کمرشل میں انھیں دیکھا جا سکتا ہے۔حتیٰ کہ اب اپنے کیریئر کے اس موڑ پر بھی آفریدی کو شیمپو سے لے کر بینکنگ اور اسکن کریم سے چیونگ گم کے اشتہار میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔آفریدی جیسی شہرت شاید صرف ہندوستان کے لٹل ماسٹر سچن ٹنڈولکر کو ہی حاصل ہے۔

متعلقہ عنوان :