نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد شروع کردیاگیا، چوہدری نثار،دہشتگردوں ان کی مالی معاونت کرنے والوں اور ملک کے خلاف بندوق اٹھانے والوں کے خلاف کارروائی کا آغاز،اب پاکستان کے گلی کوچوں میں عوام کو بھی دہشتگردوں کے خلاف شعور دینا ہوگا، ملک سے انتہا پسندی، دہشتگردی کے خاتمے کیلئے سیاسی عسکری قیادت متفق ہیں، تمام دہشتگردانہ کارروائیوں کے بارے میں انٹیلی جنس اطلاعات پہلے فراہم کی جاتی رہی ہیں،وزیر داخلہ

اتوار 4 جنوری 2015 10:42

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔4 جنوری۔2015ء)وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد شروع کردیاگیا،دہشتگردوں ان کی مالی معاونت کرنے والوں اور ملک کے خلاف بندوق اٹھانے والوں کے خلاف کارروائی کا آغاز،افغان مہاجرین کی رجسٹریشن اور مرحلہ وار واپسی شروع،میڈیا دہشتگردوں کے بیانات شائع نہ کرے،فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر دہشتگردوں کو سپورٹ کرنے والوں کیخلاف کارروائی اور ایسی تمام سائٹس بند کرنے پر عملدرآمد شروع کردیا گیا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پنجاب ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا،انہوں نے کہا کہ ملک سے انتہا پسندی،عسکریت پسندی اور دہشتگردی کے خاتمے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں اور عسکری قیادت متفق ہیں،اب پاکستان کے گلی کوچوں میں عوام کو بھی دہشتگردوں کے خلاف شعور دینا ہوگا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ملٹری کورٹس کسی بھی سیاستدان،مدرسے،تاجر،صحافی اور عام شہری کے خلاف استعمال نہیں ہونگے،ہمارا عدالتی سسٹم بے حد مضبوط ہے اور ہمیں اس پر مکمل اعتماد ہے،ملٹری کورٹس کا مطلب ان عدالتوں پر عدم اعتماد نہیں ہے،عام عدالتیں بھی معمول کے مطابق کام کریں گی۔

انہوں نے کہا کہ خصوصی عدالتوں کا مطلب یہ نہیں کہ جو بھی ان عدالتوں میں جائے اسے سرا ملے گی،بہت سے بے گناہ افراد بھی ہوں گے اگر کسی کے خلاف کچھ ثابت نہ ہو تو اس کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی،میڈیا عوام کی یہ غلط فہمی دور کرے کہ ملٹری کورٹس سے ہر ایک کو سزا یا پھانسی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ یہ ملٹری کورٹس ہیں کوئی کینگرو کورٹس نہیں یہ بھی ایک قانون کے تحت کام کرتے ہیں اور ہر ایک کو صفائی کا پورا موقع ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ قانون پاکستان کے عام شہریوں کے خلاف نہیں بلکہ ان دہشتگردوں کے خلاف ہے جو مسجدوں،سکولوں،بازاروں کو نشانہ بناتے ہیں اور ہمارے فوجیوں اور سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ بربریت کا مظاہرہ کرتے ہیں،خصوصی عدالتوں میں صرف ان کیخلاف مقدمہ چلے گا جو کسی آئین وقانون کے تابع نہیں ہوتے،جن کا کوئی مذہب نہیں ہے،جب وہ پکڑے جائیں تو وکیلوں اور ججز کو دھمکیاں دیتے ہیں،ایسے افراد کو جہاں بھی پکڑا جائے گا انہیں ملٹری کورٹس میں پیش کیا جائے گا۔

چوہدری نثار نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت جو حالات ہیں اس میں خصوصی عدالتوں کا قیام ناگزیر تھا،اس وقت پوری قوم حالت جنگ میں ہے اورجنگی حالات میں اس طرح کے اقدامات کئے جاتے ہیں،9/11کے بعد امریکہ کی سپریم کورٹ کی باقاعدہ منظوری کے ساتھ ملٹری ٹریبونل بنے تھے۔انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پر تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا ہے جس کے تحت اقدامات کا آغاز کردیا گیا ہے،جس کے تحت وفاق اور صوبوں میں کالعدم تحریک طالبان اور ان کی معاونت کرنے والے ان پر سرمایہ لگانے والے منصوبہ سازوں اور منصوبوں میں حصہ لینے والوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیاگیا ہے،تمام انٹیلی جنس اداروں نے اپنے اپنے علاقوں میں ایسے عناصر کے خلاف کارروائیاں شروع کردی ہیں جس کے تحت گزشتہ چند دنوں میں 400سے زائد انٹیلی جنس آپریشنز میں100دہشتگرد مارے جاچکے ہیں جبکہ250سے زائد کو گرفتار کیا گیا ہے،بعض مخصوص مدارس جن کے بارے میں مصدقہ اطلاعات ہیں کہ وہ دہشتگردی کی کارروائیوں میں کسی نہ کسی طورپر ملوث ہیں ان کے خلاف دینی مدارس کے رہنماؤں اور علمائے کرام اور دینی جماعتوں کو مکمل اعتماد میں لیکر کارروائی کریں گے اور اس سلسلے میں جلد ہی اے پی سی کی متعلقہ کمیٹی مدارس کے علمائے کرام سے بات چیت کرے گی،صرف ان مدارس کے خلاف کارروائی ہوگی،جن کے بارے میں ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں یہ صرف گنے چنے مدارس ہیں،دیگر تمام مدارس ہمارے لئے محترم ہیں اور وہ اسلام کی اشاعت وترویج میں مصروف ہیں،ان کا معاشرے میں اہم کردار ہے۔

انہوں نے کہا کہ نفرت انگیز تقاریر لاؤڈسپیکر کا غلط استعمال،مذہبی منافرت پھیلانے،لاؤڈ سپیکر کو دشمنی اور دہشتگرد کارروائیوں کیلئے استعمال کرنے کی مکمل ممانعت ہوگی اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف سخت ترین کارروائی ہوگی۔چوہدری نثار کا مزید کہنا تھا کہ دہشتگردی کی کارروائیوں کو شہرت دینے والے میڈیا کے خلاف بھی کارروائی ہوگی اور دہشتگردوں کے پیغامات اور بیانات نشر کرنے پر پابندی ہوگی،دہشتگردوں کی کسی بھی دھمکی کو میڈیا نشر نہ کرے،اس سلسلے میں ایک قانون تیاری کے مراحل میں ہے جو جلد ہی سامنے آجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ برادر اسلامی ممالک سے مختلف ذرائع سے آنے والی رقومات کی مکمل چھان بین کی جائے گیٍ کیونکہ ان میں اکثر رقومات غلط فہمی یا ناقص معلومات کی بنا پر دہشتگردی میں استعمال ہورہی تھی ہم نے تمام دوست ممالک کو اس سلسلے میں آگاہ کردیا ہے کہ عطیات یا دیگر مدوں میں بھیجنے والی رقومات حکومتی چینل نے ذریعے بھجوائیں تاکہ اس کا حساب کیا جاسکے اسی طرح عوام بھی ایسے اداروں کو مالی امداد دینے سے اجتناب کریں اور پہلے ان کے متعلق چھان بین کریں،صرف رجسٹرڈ اداروں کو عطیات دیا کریں۔

مذہبی اور تعصب کی بنیاد پر کسی کو نشانہ بنانے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا،کالعدم تنظیموں یا نام بدل کر کام کرنے یا خاموشی کے ساتھ کام کرنے والی تنظیموں کے خلاف بھی کارروائی کا آغاز ان کے فنڈز منجمد اور ان کے خلاف فوری کارروائی شروع کردی گئی اور اگر اس کے باوجود ان اداروں نے اپنا کام بند نہ کیا توان کے کیسز بھی ملٹری کورٹس میں لے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں موجود تمام افغان مہاجرین کی دوبارہ رجسٹریشن کی جائیگی اور پہلے مرحلے پر انہیں واپس کیمپوں میں منتقل جبکہ اس کے بعد واپس بھیجا جائے گا۔سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے بھی اقدامات شروع کردئیے گئے ہیں اور ایسے تمام سائٹس بلاک کردی جائیں گی جو دہشتگرد استعمال کر رہے ہیں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ملک میں ہونے والی تمام دہشتگردانہ کارروائیوں کے بارے میں انٹیلی جنس اطلاعات پہلے فراہم کی جاتی رہی ہیں اور ایسے واقعات میں انٹیلی جنس کی غفلت قرار دینا کسی طورپر درست نہیں۔

پنجاب ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ کراچی میں ہونے والے واہگہ بارڈر ،ڈی آئی خان جیل توڑنے جیسے تمام واقعات کی درجنوں مرتبہ صوبوں کے متعلقہ اداروں کو آگاہ کیا جاتا رہا ہے،آرمی پبلک سکول پشاور واقعے سے قبل پیشگی اطلاعات میں یہ بتایا گیا کہ آرمی پبلک سکول پر دہشتگردی کی جائے گی مگر ان پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور اس بارے میں سینیٹ اور دیگر مقامات پر تقریروں میں وزارت داخلہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

وفاق صرف معلومات فراہم کرنے کی حد تک ذمہ دار ہے اور اگر صوبے ہم سے فوج یا سول فورسز طلب کرے تو ہم ان کو دیتے ہیں،میں نے گزشتہ ڈیڑھ سالوں سے ایسے الزامات کا جواب نہیں دیا مگر آئندہ اگر وزارت داخلہ پر الزام لگایا گیا تو میں اس کا بھرپور جواب دوں گا،دہشتگردی کو سیاست کی نظر نہیں کرنے چاہئے دہشتگردی میں بنیادی کردار صوبوں کا ہے اس سلسلے میں کمیٹیاں بنائی گئی ہیں مگر صوبے ان کے اجلاس نہیں بلاتے ہیں جب تک دہشتگردی کے خلاف قومی کوششیں نہیں ہوں گی اس وقت تک نتائج حاصل ہوسکتے