سینیٹ قائمہ کمیٹی خزانہ و اقتصادی کی حکومت کو پیٹرولیم مصنوعات میں پانچ فیصد ٹیکس اضافہ واپس لینے کی سفارش ، اگلے اجلاس میں وزیر خزانہ اور سیکرٹری خزانہ اوگرا ٓرڈنینس میں خامیاں دور کرنے کیلئے مفصل بریفنگ دیں ، کمیٹی ، اوگرا اتھارٹی میں ممبران کی تعداد مکمل نہ ہونے پر شدید ناراضگی کا اظہا ر

ہفتہ 10 جنوری 2015 08:29

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔10 جنوری۔2015ء )قائمہ کمیٹی سینیٹ خزانہ و اقتصادی امور کے اجلاس میں حکومت کو پیٹرولیم مصنوعات میں پانچ فیصد ٹیکس اضافہ واپس لینے کی سفارش کی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ کمیٹی کے اگلے اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ اور سیکرٹری خزانہ اوگرا ٓرڈنینس میں خامیاں دور کرنے کیلئے مفصل بریفنگ دیں ۔ چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات میں 50 فیصد کمی ہوئی لیکن پاکستان میں صرف 12 فیصد کی کمی کی گئی ٹیکس سے پارلیمنٹ اور عوام دونوں سخت پریشان ہیں جس پر پارلیمنٹ میں بھی سیر حاصل بحث ہو چکی اور عوامی نمائندے مجوزہ ٹیکس اضافے کے سخت خلاف ہیں کمیٹی خود اوگرا کے ماہانہ قیمتوں کے تعین کرنے والے اجلاسوں میں شریک ہو کر مانیٹرنگ کیا کرے گئی جس پر چیئرمین اوگرا سعید احمد نے کہا کہ اوگرا اجلاس میں کمیٹی اراکین کی شرکت پر کوئی اعتراض نہیں کمیٹی کے اجلاس میں اوگرا اتھارٹی میں ممبران کی تعداد مکمل نہ ہونے پر شدید ناراضگی کا اظہا رکیا گیا کمیٹی اجلاس میں اراکین نے کثرت رائے سے پیٹرولیم مصنوعات پر پانچ فیصد ٹیکس واپس لینے کی سفارش کی جس پر سینیٹر رفیق راجوانہ نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ ایوان بالاء میں بحث کے بعد اور اٹارنی جنرل آف پاکستان کی وضاحت کے بعد چیئرمین سینیٹ سید نیئر حسین بخاری کے پاس ہے جنہوں نے رولنگ محفوظ کی ہوئی ہے کمیٹی کو چیئرمین سینیٹ کی رولنگ کا انتظار کرنا چاہیے ۔

(جاری ہے)

سینیٹر سردار فتح حسنی نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات میں کمی قوم پر احسان نہیں ٹرانسپورٹ اور پی آئی اے کے کرایوں میں کمی نہیں کی گئی اور کہا کہ بد قسمتی سے پی ایس او کا ایم ڈی دیہاڑی دار مزدور سے بھی کم درجے کا ہے اور قائمقام کے طور پر کام کر رہاہے عدالت اعظمیٰ کے تین ماہ کے دوران مستقل ایم ڈی بھرتی کرنے کے فیصلے پر حکومت عمل نہیں کر رہی وزیر اعظم پاکستان خود پی ایس ا و کے معاملات پر توجہ دیں اور کہا کہ اوگرا کے کچھ غیر قانونی کاموں اور فیصلوں کی وجہ سے ہم بھکاری بن گئے ہیں جس پر چیئرمین اوگرا سعید احمد نے جواباًکہا کہ ہم نے غیر قانونی فیصلے نہیں کیے سینیٹر کلثوم پروین نے اوگرا کے فیصلوں پر شدید تحفظات کا اظہا رکرتے ہوئے کہا کہ اوگرا اتھارٹی کے نامکمل ہونے کے باوجود غیر قانونی فیصلے کیے گئے چیئرمین اوگرا نے وضاحت کی کہ 2013 میں واقعی کچھ فیصلے کیے گئے تھے جو لاہور ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دیے دے اور کہا کہ ہر ماہ کی یکم سے 29 تاریخ تک اجلاس کا انقاد کرتے ہیں کارگو کی درآمد کی قیمت کو مد نظر رکھنا پڑتا ہے حکومت نے واضع فارمولا دیا ہوا ہے اُس کو دیکھ کر ہی نرخوں کا تعین کیا جاتا ہے پی ایس او کا مارکیٹ میں اس وقت 70 سے 75 فیصد حصہ داری ہے پیٹرولیم لیوی کا تعین حکومت خود کرتی ہے سینیٹر حاجی عدیل نے سوال اُٹھایا کہ تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود فیول سرچارج کم کیوں نہیں کیا گیا اور کہا کہ 70 ارب کے نقصانات پورے کرنے کیلئے حکومت انتظامی اور سرکاری اخراجات میں کمی کرے وزیراعظم اور وزراء بیرون ملک دوروں پر جہاز بھر کر لے جاتے ہیں اور امریکی صدر اوباما کیلئے مختص ہوٹل سے بھی مہنگی رہائش میں قیام کرتے ہیں کیا قوم دعا کرے کہا پیٹرولیم کی قیمتوں میں پھر اضافہ ہوجائے سینیٹر عثمان سیف اللہ نے اراکین کمیٹی اور چیئرپرسن سے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر پارلیمنٹ سے بالاء پانچ فیصد اضافہ کے خلا ف سینیٹر ز کا انفرادی حیثیت میں عدالت سے رجوع کرنا چاہیے جس کی اراکین کمیٹی نے کثرت رائے سے حمایت کی اور سینیٹر رفیق رجوانہ نے اختلاف کیا سینیٹر صغریٰ امام نے جی ایس ٹی اضافہ کو آئین سے متصادم قرار دیا اور کہا کہ اس کو ختم کیا جانا چاہیے سینیٹر صغرٰ ی امام نے مزید کہا کہ زراعی آمدن حاصل کرنے والے ٹیکس دہندگان کا صوبائی زراعی آمد ن کے این ٹی این ٹیکس نمبر جاری کیے جائیں زراعی آمدن پر ٹیکس وفاقی قرار دینے کیلئے آئینی ترمیم بھی کی جائے چیئرمین ایف بھی آر طارق باجوہ نے انکشاف کیا کہ پاکستانیوں کے سویٹرزرلینڈ کے بینکوں میں پڑے 2 سو ارب ڈالر کی معلومات سوئس بینک فراہم نہیں کر رہے اور مزید کہا کہ دوبئی میں سرمایہ کاری کرنے والے پاکستانیوں کی تفصیلات کیلئے دوبئی حکومت کو خط لکھ دیا گیا ہے چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ زراعی ٹیکس کا نفاذ صوبوں کا اختیار ہے پرتیش زندگی گزارنے والے انکم ٹیکس گوشوارے میں زراعت کی آمدن ظاہر کرتے ہیں جس پر ایف بی آر کچھ نہیں کر سکتا انہوں نے آگاہ کیا کہ 2013 میں انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد 7 لاکھ 10 ہزار ، 2014 میں 7 لاکھ 71 ہزار تھی جنوری 2015 میں 8 لاکھ 29 ہزار ہے اُمید ہے کہ اس سال گوشوارے 9 لاکھ سے تجاوز کر جائیں گے طارق باجوہ نے کہا کہ آئین کے تحت حکومت ٹیکس نہیں لگا سکتی لیکن ٹیکس ریٹ میں اضافے کا اختیار حکومت کے پاس ہے اس سال معیثت کو فائدہ اور ایف بی آر کو نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا پچھلے سال کا اضافی سلیز ٹیکس 3 ارب 50 کروڑ روپے کم ہوجائے گا اور ٹیکس وصولیاں بھی 70 ارب کم ہونگی لیکن بجلی کی قیمتوں میں 2 فیصد کمی کی وجہ سے معیثت کو بڑھوتی کا موقع ملے گا موجودہ ٹیکس دہندگان کے مقابلے میں لوگوں کو دگنا ٹیکس دینا چاہیے ملک میں اب بھی کروڑوں شہری ان ڈاریکٹ ٹیکس ادا کررہے ہیں حاجی عدیل نے کہا کہ فاٹا میں ٹیکس وصولی نہ کرنے کی آئینی پابندی کے باوجود ان ڈاریکٹ ٹیکس وصول کیا جارہا ہے جس پر چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ فاٹا کا شہری ملک کے دوسرے حصوں میں ٹیلی فون کارڈ استعمال کرے تو ٹیکس کٹوتی ہوگی کمیٹی نے سفارش کی کہ زراعی آمد ن پر ٹیکس وفاقی ٹیکس قرار دینے کیلئے پارلیمنٹ میں ترمیم لائی جائے اور پیٹرولیم مصنوعات پر پانچ فیصد ٹیکس واپس لیا جائے جس کی اراکین کی کثرت نے حمایت کی اور ملک رفیق رجوانہ نے مخالفت اوگرا چیئرمین کی طرف سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین کرنے کیلئے سمری حکومت کو بجھوانے پر سینیٹر عثمان سیف اللہ نے کہا کہ اوگرا چیئرمین کے بقول تیل کی قیمت حکومت ہی طے کرتی ہے اوگرا چیئرمین اورگرا آرڈنینس کے تحت اتھارٹی اور دوسری طرف حکومت کو قیمتوں کے تعین کی تجویز دے رہے ہیں چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل نے چیئرمین اوگرا کی طرف سے اطمینان بخش جوابات نہ ملنے پر اراکین کمیٹی سے رائے لی کہ اگلا اجلاس صرف اوگرا کے متعلقہ منعقد کیا جائے جس میں وفاقی وزیر خزانہ اصل صورتحال سے آگاہ کریں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ چیئرمین اوگرا سے بریفنگ کے بجائے اگلے اجلا س میں وزیر خزانہ سے اصل حقیقت معلوم کی جائے کمیٹی کے اجلاس میں ایڈیشنل سیکرٹری فنانس شجاعت علی سینیٹر صغریٰ امام ، کلثوم پروین ، عثمان سیف اللہ کے کسی ایک بھی سوال کا اطمینان بخش جواب نہ دے سکے اور ہر دفعہ یہی کہتے رہے کہ وفاقی سیکرٹری خزانہ جواب دے سکتے ہیں جس پر کمیٹی کے اراکین نے وفاقی سیکرٹری خزانہ کی اجلاس میں عدم شرکت پر ناراضگی کا اظہار کیا کمیٹی کے اجلاس میں چیئرپر سن سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ مشرقی پاکستان میں 1970 کے سیلاب کی وجہ سے لگایا گیا ٹیکس ابھی تک وصول کیا جارہا ہے سینیٹر صغریٰ ا مام نے کہا کہ ایس آراو کلچر ختم ہونا چاہیے اور آئینی سوال اُٹھایا کہ کیا پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر ٹیکس لگایا جاسکتا ہے حالانکہ سپریم کورٹ بھی واضع فیصلہ دے چکی ہے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے لیوی ٹیکسز نہیں لگانے چاہیں اس سے پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کا تاثر قائم ہوتا ہے جس پر چیئرپرسن نے کہا کہ پارلیمنٹ کی موجودگی میں کسی کو کوئی بھی ٹیکس لگانے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے سینیٹر کلثوم پروین نے تجویز کیا کہ ٹیکس گوشواروں کے فارم آسان بنائیں جائیں ایک ہی خاندان کے فرد الگ الگ ٹیکس ریٹرن جمع کراتے ہیں چھوٹی سے غلطی سے وکیل کو فیس دینا پڑتی ہے چیئرمین ایف بی آر نے وضاحت کی کہ دس لاکھ سے زائد آمدن پر ویلتھ اسٹیٹمنٹ مانگی جاتی ہے جس میں زیر کفالت بچوں کی تفصل بھی فراہم کرنا ضروری ہے چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل نے چیئرمین ایف بی آر سے سوال کیا کہ دوسرے ممالک کو ایف بی آر معلومات دے رہا ہے لیکن کچھ مخصوص ملک ہمیں معلومات نہیں دے رہے جس پر چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ہمیں معلومات حاصل کرنے میں مشکلات ہیں لیکن دوسرے ممالک کو معلومات فراہم نہ کریں تو بیرونی امداد بند ہو جائے گی سینیٹر عثمان سیف اللہ کیطرف سے دوبئی میں سرمایہ کاری کے پاکستان میں اشتہارت کے خلاف کارروائی پر چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ یہ کمپنیاں پہلے پاکستان میں بکنگ کرتی تھیں ایف بی آر کے نمائندے بیٹھنے کی وجہ سے پاکستان میں بھی اشہتارات دے جارہے ہیں سینیٹر صغریٰ امام نے تجویز کیا کہ سٹاک ایکسچینج فارن کرنسی اکاؤنٹس منقولہ غیر منقولہ جائیدادوں کے بارے میں بھی ایف بی آر ٹیکس لگائے ۔

کمیٹی کے اجلا س میں سینیٹر ز حاجی عدیل ، صغریٰ امام ، عثمان سیف اللہ ، کلثوم پروین ، سردار فتح محمد حسنی ، ملک محمد رفیق رجوانہ ، کے علاوہ چیئرمین ایف بی آر طارق باجوہ ، چیئرمین اوگرا سعید احمد ، ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ شجاعت علی کے علاوہ اعلیٰ حکام موجود تھے ۔