جسٹس جواد ایس خواجہ کا عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کے حوالے سے وزیر ا عظم کے بیان پر اظہار برہمی،عدالتوں میں مقدمات کے زیرالتواء رہنے کی ذمہ دار عدالتیں نہیں خود سرکار ہے‘ حکومت خود کو نااہل قرار دے کر بھی تمام تر الزامات عدالتوں پر تھوپ دیتی ہے، جب ملزمان کیخلاف شہادتیں اکٹھی نہیں ہوں گی‘ چالان مکمل نہیں ہوں گے تو ملزمان عدالتوں سے بری ہوتے رہیں گے ،عوام الناس کو انصاف فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے عدالتیں اپنا کام کریں یا حکومت کا اگر حکومت نے اپنا کام نہیں کرنا تو عدالت کو ہی حکومت کرنے کا اختیاردید ے ،جسٹس جواد ایس خواجہ کے چکوال کے رہائشی حیدر علی کے مقدمے کی سما عت کے دورا ن ریما رکس ،فوجی عدالتیں بنانے کی کوئی ضرورت نہیں‘ کیا فوجی عدالتوں میں بیٹھنے والے جج موجودہ عدلیہ میں بیٹھے ججز سے زیادہ ذہین اور قابل ہیں کہ وہ سارے مسائل کا خاتمہ کردیں گے‘ جسٹس سرمد جلال عثمانی

جمعہ 16 جنوری 2015 09:03

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔17جنوری۔2015ء) سپریم کورٹ میں چکوال کے رہائشی حیدر علی کو پولیس حکام کی جانب سے مقدمہ بازی میں الجھانے کے مقدمے میں دو رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے جمعرات کے روز عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کے حوالے سے شائع ہونے والے بیان پر سخت ردعمل اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ عدالتوں میں مقدمات کے زیرالتواء رہنے کی ذمہ دار عدالتیں نہیں خود سرکار ہے‘ حکومت خود کو نااہل قرار دے کر بھی تمام تر الزامات عدالتوں پر تھوپ دیتی ہے‘ ایک طرف سرکار کہتی ہے کہ ان کی اپنی نااہلی ہے کہ وہ موثر قانون سازی نہیں کرسکتی دوسری طرف کہہ رہی ہے کہ عدالتیں اپنا کام نہیں کرتیں‘ جب ملزمان کیخلاف شہادتیں اکٹھی نہیں ہوں گی‘ چالان مکمل نہیں ہوں گے ملزمان عدالتوں سے بری ہوتے رہیں گے جبکہ دوران سماعت جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتیں بنانے کی کوئی ضرورت نہیں‘ کیا فوجی عدالتوں میں بیٹھے جج موجودہ اعلی عدلیہ میں بیٹھے ججوں سے زیادہ ذہین‘ فرض شناس اور قابل ہیں کہ وہ سارے مسائل کا خاتمہ کردیں گے‘ عدالتوں میں عملہ کم ہے انہی عدالتوں میں مسائل ختم کرنے کی ضرورت ہے‘ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ عوام الناس کو انصاف فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

(جاری ہے)

عدالتیں اپنا کام کریں یا حکومت کا بھی کام کریں۔ اگر حکومت نے اپنا کام نہیں کرنا تو عدالت کو ہی حکومت کرنے کا اختیار بھی دے دے۔ اگر گریڈ 17 سے اوپر کے تمام پولیس افسران نیک پاک ہیں اور باقی سب نااہل اور نکمے ہیں۔ آج تک پولیس کی زیادتیوں پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اعلی پولیس افسران کو عوام پر ظلم رواء رکھنے کیلئے کلین چٹ دے دی گئی ہے۔

عدالت بارہاء کہہ چکی ہے کہ فوجداری قوانین میں خامیاں اور سقم ہیں۔ حکومت قانون سازی کیوں نہیں کرتی۔ حکومت اپنا کام کرتی تو آج مقدمات زیر التواء نہ ہوتے۔ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب خود کہہ رہے ہیں کہ 573 پولیس افسران اور ملازمین نااہل ہیں جس میں لاہور سے تعلق رکھنے والے 34 افسران بھی شامل ہیں۔ حکومت اپنی ذمہ داریوں پر پردہ ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی۔

70 سالوں میں معاشرے میں ناسور کی صورت اختیار کرنے والے افسران کیخلاف اج تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ پولیس کو نظم و ضبط ہم نے نہیں خود حکومت نے سکھانا ہے۔ ایک مقدمہ کھولیں گے تو 50 ہزار اور مقدمات کھل جائیں گے‘ عدالتیں کسی کیساتھ فریق نہیں ہیں۔ حکومت عوام کیساتھ مذاق بند کرے یہ ایک سنجیدہ اور حساس معاملہ ہے۔ انہوں نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور پراسیکیوٹر جنرل پنجاب احتشام قادر سے کہا کہ آپ سرکار کے نمائندے ہیں انہیں جاکر بتائیں کہ وہ اپنا کام کرے‘ ہم اپنا کام کررہے ہیں۔

اگر تفتیش شفاف‘ منصفانہ اور ایماندارانہ طریقے سے کی جائے تو معاملات بہتر ہوسکتے ہیں۔ آرٹیکل 154‘ 155 میں اگر قانون سازی کی ضرورت ہے تو وہ کی جائے ہم کسی پر اثرانداز نہیں ہونا چاہتے۔ شیخوپورہ میں کیا ہوا اور دوسرے علاقوں میں کیا ہورہا ہے۔ کیا حکومت کو وہ نظر نہیں آتا۔ گونگی بہری بچی کیساتھ زیادتی کے ملزمان کو بری کردیا گیا۔ اب تو وزیراعظم پاکستان گریڈ 18 سے اوپر کے ملازمین کیخلاف انضباطی کارروائی کے احکامات جاری کرسکتے ہیں۔

عوام پریشان ہیں عوام کو بھی تو پتہ چلنا چاہئے کہ ان کے عدالتوں میں مقدمات کیوں زیر التواء ہیں اور اس کے ذمہ دار کون لوگ ہیں۔ عدالتوں کا کام حقائق کی روشنی میں اور جمع کروائی گئی شہادتوں کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔ عدالتیں کسی کو بے گناہ لٹکا نہیں سکتیں۔ حکومت قانون بنادے کہ غلطی بھی حکومت کی ہے مگر عدالتیں ملزمان کو بری نہ کریں۔ ایک پی ایس پی افسر سے پوچھا کہ 70 سالوں میں کسی بڑے افسر کیخلاف کوئی کارروائی کی گئی ہے تو اس نے کہاکہ نہیں آج تک کوئی کاررروائی نہیں کی گئی۔

آٹھ ماہ میں پولیس نے غریب شخص کو وہ چکر دے رکھا ہے کہ کیا کہیں۔ اس کی بہن اور خود اس کو پولیس صبح سویرے بلالیتی ہے اور رات گئے تک بٹھا کر ذلیل و رسواء کرتی ہے۔ چالان نہیں بنتا شہادتیں اکٹھی نہیں کی جاتیں۔ سارے الزامات عدالتوں پر لگانا کسی طور پر درست نہیں ہے۔ ہم حکومت کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ اپنی نااہلی ہمارے سر تھوپے۔

عدالت نے حکومت پنجاب سے نااہل افسران کیخلاف کارروائی بارے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔ وقفے کے بعد عدالت نے دوبارہ سماعت شروع کی تو جسٹس جواد نے کہا کہ اس کیس کو کسی اور دن کیلئے رکھ رہے ہیں ہم نے اعدادو شمار اکٹھے کئے ہیں۔ حکومت پنجاب کی رپورٹ بھی دیکھ لیں گے اہم بات یہ ہے کہ 2012ء‘ 2013ء اور نومبر 2014ء تک 66 فیصد جو پولیس تیار کرتی ہے اور پراسیکیوشن کا چالان پیش کرتی ہے جس کا نتیجہ رہائی کی شکل میں نکلتا ہے‘ 30 سے 33 فیژصد سزا ملنے کی شرح اس سے بھی کم ہے صرف 10 فیصد ہے۔

جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہاکہ سندھ میں 10 فیصد ہے۔ نظام کی خامی ہی ذمہ دار ہے۔ تفتیشی اداروں کی ناکامی ہے۔ حیدر علی کیخلاف غلط چالان پیش کیا گیا چالان پیش ہوگیا تو شہادت نہیں دی گئی۔ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے کہا کہ کیس مکمل نہیں ہوگا۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ جب شہادت نہ ہو تو کہہ دیا جائے کہ یہ کیس نہیں بنتا‘ مجسٹریٹ چالان کو مسترد کرسکتا ہے‘ ادارے تو اپنا کام پورا کریں اور اس کا ذمہ دار کسی اور کو نہ ٹھہرائیں‘ یہ پراپیگنڈہ ختم کریں‘ فوجی عدالتوں کے قیام کی کیا ضرورت ہے کیا وہ پہلی عدالتوں سے زیادہ متحرک ہوں گی‘ کیا ان کا قاضی ذہین ہوگا۔

ہمارے پاس عدالتیں کم ہیں‘ افرادی قوت بھی کم ہے۔ باقی جگہوں پر دس ہزار افراد کیلئے ایک عدالت ہے۔ ہمارے لئے ایک لاکھ کیلئے ایک عدالت ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ امریکہ نے بھی عدالتیں قائم کررکھی ہیں۔ سب کا سب عدالتوں پر الزام لگانا درست نہیں ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے کہا کہ تھانہ کلچر و دیگر حوالوں سے بھی تجاویز دی ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ تھانہ کلچر ختم کرانا حکومت کا کام ہے۔

عدالتیں تو اپنا کام کررہی ہیں۔ پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ ایک سپروائزری افسر وزیراعظم نے لگادیا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ صرف ماتحت افسران فارغ کئے گئے ہیں۔ کے پی کے کے حوالے سے ان کے وکیل نے بتایا کہ وہاں بھی کرپشن کی وجہ سے عام افسران کو فارغ کیا گیا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ پنجاب نے تعداد دی ہے۔ عدالت نے آرڈر لکھواتے ہوئے کہا کہ ریاستی افعال نظر آرہے ہیں۔

بادی النظر میں کہ ان میں ریاست ذمہ داریوں کے حوالے سے عدم تفتیش اور پراسیکیوشن کی وجہ سے ناکام نظر آتی ہے یہ بہتت ہی خطرناک صورتحال ہے۔ ہم نے چکوال کے رہائشی کے مقدمے کا جائزہ لیا ہے جس میں قانون سازی کے حوالے سے کافی خلاء نظر آتے ہیں۔ پولیس افسران نااہلی اور بددیانت ہیں جس کی وجہ سے وہ تفتیش پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ عدالتیں باربار دہراچکی ہیں۔

قانون میں سقم ہے جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیس انتظامیہ اور پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ حکومت کے ماتحت ہے کیونکہ ایک ٹرائل حکومت اور استغاثہ پر ہے کہ وہ ناقابل تردید اور واضح شہادت دے تاکہ ملزمان کو سزائیں دی جاسکیں۔ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے بتایا کہ انہں نے قانون کی بہتری کیلئے تجاویز دی ہیں۔ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب اور حکومت اس بات سے آگاہ ہے کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ سے جاری ہونے والے احکامات شفاف اور منصفانہ ہونے چاہئیں جس سے عوام الناس کو سہولت مل سکے۔

پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے تین مختلف محکموں کی جانب سے رپورٹ پیش کی ہے جس میں پولیس‘ داخلہ اور پراسیکیوشن بارے ذکر ہی۔ ہم رپورٹ کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ ان کا دفتر پولیس اور استغاثہ کے حوالے سے کام کررہا ہے اور اس میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال لارہے ہیں یہ سب قانون سازی سے ہی ہوسکتا ہے تبھی موجودہ قوانین سے سقم دور ہوسکے گا۔ عدالت نے بھی پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کیساتھ تحقیقات میں جمع کردہ اعدادو شمار شیئر کیا ہے۔

65 فیصد سے زائد فوجداری مقدمات میں ناکافی شہادتوں کی وجہ سے ملزمان کو سزائیں نہیں ملتیں‘ چالان جمع نہیں کروائے جاتے اور چالان میں قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے نظام کی ناکامی کو ظاہر کرتے ہوئے ملزموں کی رہائی کا سبب بنتا ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے یہ بھی بتایا کہ کچھ لوگوں کی رہائی سیکشن 265‘ 263 کی وجہ سے ہوتی ہے۔

جسٹس سرمد نے کہا کہ جب کوئی مقدمہ ہی نہیں ہے تو اس میں سزا ملنے کا کوئی امکان تک نہیں ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ممکن ہے باقی ملزمان کی رہائی بھی شک کا فائدہ دے کر کی جاتی ہو۔ پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کو اختیارارت دئیے جائیں تاکہ وہ غلط مقدمات کے خاتمے کیلئے کہہ سکیں۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ پولیس خود ملزمان کی رہائی کا سبب بنتی ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ عدالت کے پاس ملزمان کیخلاف مقدمہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اسلئے ملزمان رہا ہوجاتے ہیں۔ 30 فیصد مقدمات جن میں ملزمان کو ٹرائل کورٹ سے سزا ملتی ہے وہ بھی اعلی عدلیہ سے عدم شہادتوں کی وجہ سے بری ہوجاتے ہیں۔ مقدمات کی تفتیش اور استغاثہ میں فاصلے ہونے کی وجہ سے سیکشن 154 سی آر پی سی میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ پنجاب پراسیکیوشن ایکٹ میں سقم دور کرنی چاہئیں۔

عدالت کا کنسرن یہ ہے کہ حکومت کچھ اقدامات کرتی ہی ہم بار بر قانون میں سقم کی نشاندہی کرتے آئے ہیں‘ موجودہ مقدمے میں بھی پولیس ملوث ہے۔ اگست 2014ء کو حیدر علی کو بہت زیادہ مشکلات پیش آئیں جب ان کیخلاف مقدمہ خارج ہوگیا تب بھی مسئلہ بنا رہا۔ عدالتوں کے بار بار کہنے کے باوجود کووئی قانون سازی اور موثر اقدامات نہیں کئے گئے۔ پولیس کو بہتر نہیں کیا گیا۔

پراسیکیوٹر جنرل آفس کو بھی اختیارات دینے کی ضرورت ہے۔ کیس کی سماعت 26 جنوری کو شروع ہونے والے ہفتے تک ملتوی کی جاتی ہے۔ خدارا! حکومت اپنا کام خود کرے۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ 60 ہزار مقدمات ایسے ہیں کہ جن کو درج ہی نہیں ہونا چاہئے یہ مقدمات آخرکار اعلی عدلیہ میں آکر ختم ہوگئے۔ 2013ء میں 60 ہزار مقدمات عدالتوں نے ناکافی شہادتوں کی وجہ سے خارج کئے ہیں۔

جسٹس جواد نے کہا کہ حکومت کی یہ کارکردگی ہوگی تو مقدمارت زیر التواء رہیں گے۔ جسٹس سرمد نے کہا کہ ایک لاکھ مقدمات میں سے پچاس ہزار مقدمات میں ہے ہی کچھ نہیں۔ ہمیں اعلی حکام کیخلاف کارروائی کرنی چاہئے۔ رقم اور عدالتوں کے قیمتی وقت کا بھی ضیاع ہوتا ہے۔ پولیس کیخلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے‘ کوئی قانون سے بالاتر نہیں سب کیخلاف قانون کی خلاف ورزی پر کارروائی ہونی چاہئے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ اس طرح کی کارکردگی ہے کہ حکومت وقت کہے کہ سارا قصور عدالتوں کا ہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔ یہ تاثر کہ مقدمات زیر التواء ہیں‘ جسٹس سرمد نے کہا کہ جعلی مقدمات کیخلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ بھی قانون بنائیں کہ ایک لاکھ 40 ہزار مقدمات میں جن لوگوں نے رگڑا کھایا‘ جیلیں کاٹیں‘ جنہوں نے مہنگے وکیل کئے‘ چھ سال بعد عدم شہادتوں کی وجہ سے بری ہوجاتے ہیں ان کے چھ سالوں کا حساب کون دے گا۔ پی ٹی سی ایل ملازم کو کون آٹھ ماہ واپس دلائے گا۔ ایک سپروائزری افسر نہیں بنایا گیا۔ میرٹ پر کارروائی ہو تو معاملہ ٹھیک ہوسکتا ہے۔