آئین و قانون کی ترامیم کی اشاعت ، سرکاری ویب سائٹس پر ڈالنے اور اردو تراجم کرکے عوام الناس کو مفت فراہم کرنے بارے وفاق اور صوبائی حکومتوں سے حتمی تاریخ طلب،دنیا اکیسویں صدی میں داخل ہوچکی اور ہم آج تک اپنے 1973 کے آئین کو ہی ویب سائٹ کی زینت نہیں بنا سکے،یہ پرانی ریت ہے ،جسٹس جواد ایس خواجہ، انگریز چلا گیا مگر انگریزی نے آج تک ہماری جان نہیں چھوڑی ، بیسویں آئینی ترمیم تک ویب سائٹ پر موجود نہیں حکومت عام لوگوں کو یہ بتائے کہ قانون ہے کہاں ؟ریمارکس، جب ترمیم ہوتی ہے تو اسی دن گزٹ میں شائع اور بعد ازاں قانونی کتابوں کا حصہ بن جانا چاہیے، جسٹس اعجاز افضل،معاملہ کب تک زیر التواء رہے گا حکومت اپنی ذمہ داریوں کو کب پورا کرے گی، جسٹس قاضی فائز

منگل 20 جنوری 2015 09:13

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔20جنوری۔2015ء ) سپریم کورٹ نے آئے روز کی جانے والی آئین و قانون کی ترامیم کی اشاعت ، سرکاری ویب سائٹس پر ڈالنے اور اردو تراجم کرکے عوام الناس کو مفت فراہم کرنے بارے وفاق اور صوبائی حکومتوں سے حتمی تاریخ مانگ لی جس کی روشنی میں وفاقی اور صوبائی سکرٹریز قانون سے عدالتی حکم پر عمل بارے بیانات حلفی اور یقین دہانی طلب کی جائے گی ۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا ہے کہ دنیا اکیسویں صدی میں داخل ہوچکی اور ہم آج تک اپنے 1973 کے آئین کو ہی ویب سائٹ کی زینت نہیں بنا سکے یہ پرانی ریت ہے کہ کلیسائی عدالتوں نے عدالتوں میں لاطینی زبان اپنا کر پروہت اور برہمنوں نے سنسکرت ، رنجیت سنگھ نے فارسی اور انگریزوں نے انگریزی زبان عدالتوں میں اختیار کرکے لوگوں کو ان کے حقوق تک پہنچنے اور آگاہی سے روکے رکھا ۔

(جاری ہے)

انگریز چلا گیا مگر انگریزی نے آج تک ہماری جان نہیں چھوڑی ، بیسویں آئینی ترمیم تک ویب سائٹ پر موجود نہیں ہے قانون سے لابلد ہونے کا الزام تو سب کو دیا جاتا ہے مگر حکومت عام لوگوں کو یہ بتائے کہ قانون ہے کہاں ؟ کہ جس کو پڑھ کر وہ اپنے حقوق حاصل کرسکیں افسر شاہی نے ملک کا بیڑہ غرق کررکھا ہے جس قانون کے تحت ملزمان کو سزا دی جارہی ہے اس قانون سے جج اور وکلاء سمیت ملزمان کے ورثاء تک آگاہ نہیں ہیں ایسا کب تک ہوتا رہے گا یہ ایک سنجیدہ اور حساس معاملہ ہے جس کو بغیر فیصلہ کئے نہیں چھوڑ سکتے ۔

جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیئے کہ جب ایک ترمیم ہوتی ہے تو اس دن گزٹ میں شائع اور بعد ازاں قانونی کتابوں کا حصہ بن جانا چاہیے ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس ملک میں اچھا یا برا جو بھی نظام چلا آرہا ہے اس کو بہتر کرنے کی کسی نے ضرورت محسوس نہیں کی یہ معاملہ کب تک زیر التواء رہے گا حکومت اپنی ذمہ داریوں کو کب پورا کرے گی لوگوں کو قانون ڈھونڈنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے اسی وجہ سے بھی مقدمات زیر التواء رہتے ہیں ۔

انہوں نے یہ ریمارکس پیر کے روز دیئے ہیں ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت شروع کی تو اسی دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل شیخ سرفراز سمیت چاروں صوبوں کے لا افسران پیش ہوئے عدالت نے ان سے کہا کہ سندھ میں تو ان کے قوانین کے حوالے سے کتابیں تک موجود نہیں ہیں کے پی کے میں بھی حالات درست نہیں ہیں حکومت پنجاب نے کچھ کام شروع کیا ہے مگر ان کے پاس موجود اردو کا ایک اکلوتا مترجم چلے جانے سے ترجمے کا کام رک گیا ہے عدالت نے اس دوران لا افسران سے کہا کہ آئین و قانون میں ہونے والی ترامیم باقاعدگی سے شائع ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کو نئے آنے والے قوانین اور ترمیم شدہ قوانین کا پتہ چلتے رہنا چاہیے جب لوگوں کو ملکی قوانین سے آگاہی نہیں ہوگی تو وہ اپنے مقدمات کیسے حل کراسکیں گے حکومت کو چاہیے کہ وہ اس طرح کی ترامیم کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ویب سائٹس پرڈالا جائے تاکہ جو بھی چاہے ان قوانین کو مفت ڈاؤن لوڈ کرسکے پاکستان کے بعض علاقوں کے وکلاء اتنے پیسے والے نہیں کہ وہ کتابیں خرید سکیں عدالت نے وفاق اور صوبوں کو ہدایت کی ہے کہ عدالت کو ایک حتمی ڈیڈ لائن بتائی جائے کہ کب تک یہ ترامیم شائع ہو جائینگی عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج منگل تک ملتوی کردی ۔

متعلقہ عنوان :