سپریم کورٹ میں اکیسویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کیخلاف درخواستیں سماعت کیلئے منظور،اٹارنی جنرل آف پاکستان‘ چاروں ایڈووکیٹ جنرلز اور اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری، 12 فروری تک جواب طلب، سویلین افراد کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئینی عدالتوں پر خودکش حملہ ہے، ایسی ترمیم جو آئینی ڈھانچہ تباہ کردے‘ برقرار نہیں رکھی جاسکتی، وکیل حامد خان کے دلا ئل ، آئینی ترمیم پر وفاق اور صوبوں کو سن کر فیصلہ کر یں گے ،سپریم کورٹ ،مسلم لیگ (ن) آئین کا دفاع کرنے میں ناکام رہی ہے‘فوجی عدالتوں میں کوئی وکیل پیش نہیں ہوگا، صدر لاہور ہائیکورٹ بار ،آئین کا ہر صورت میں دفاع کریں گے‘ آئین کا دفاع کرنا سیاسی جماعتوں کا کام تھا جو ہم کررہے ہیں،شفقت چوہان کی میڈیا سے گفتگو، تحر یک انصا ف کا جو موقف ہو فوجی عدالتوں کا حا می نہیں ، حامد خان

جمعرات 29 جنوری 2015 08:59

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔29جنوری۔2015ء) سپریم کورٹ نے اکیسویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کیخلاف لاہور ہائیکورٹ بار و دیگر درخواستوں کو سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان‘ چاروں ایڈووکیٹ جنرلز اور اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کردئیے اور ان سے مذکورہ درخواست پر 12 فروری تک جواب طلب کرلیا۔

یہ حکم بدھ کے روز چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے جاری کیا۔ لاہور ہائیکورٹ بار کے وکیل حامد خان ایڈووکیٹ پیش ہوئے اور انہوں نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ فوجی ایکٹ میں ترمیم اور اکیسویں آئینی ترمیم 39 سال بعد اپنی طرز کی پہلی ترمیم ہے جس سے بنیادی حقوق چھینے گئے اور آزاد عدلیہ پر قدغن لگائی گئی۔

(جاری ہے)

آئین کے آرٹیکل 175 میں ترمیم کرکے آرٹیکل 8 بھی متاثر کیا گیا۔

ایسی ترمیم جو آئینی ڈھانچہ تباہ کردے‘ برقرار نہیں رکھی جاسکتی۔ سویلین افراد کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئینی عدالتوں پر خودکش حملہ ہے۔ انہوں نے اکیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے تفصیلات پیش کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ سانحہ پشاور کے بعد بیس نکاتی ایکشن پلان سامنے آیا۔ دو سال کیلئے فوجی عدالتیں بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ آل پارٹیز کانفرنس میں فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے آئین میں ترمیم کی منظوری دی گئی۔

4 جنوری 2015ء کو بل پیش کیا گیا۔ 6 جنوری کو قومی اسمبلی اور سینٹ نے منظور کرلیا۔ پارلیمنٹ نے اکیسویں ترمیم اور فوجی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری انتہائی عجلت میں دی۔ بامعنی بحث کے بغیر ہی پارلیمنٹ نے بل منظور کرلیا۔ اس آئینی ترمیم سے جہاں آئین کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا وہاں پر عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کرنے کا معاملہ بھی متاثر ہوا۔

ایسی ترمیم ملک کیلئے نقصان دہ ہے جس کی ہم شدید مخالفت کرتے ہیں۔ عدالت اس ترمیم کا جائزہ لے اور اس کیخلاف فیصلہ جاری کرے۔ حامد خان نے دلائل میں مزید کہا کہ اکیسویں ترمیم آرٹیکل 2-A‘ آرٹیکل 4‘ 8‘ 9‘ 14‘ 19سمیت کئی آئینی آرٹیکلز کی خلاف ورزی ہے۔ اس پر جسٹس مشیر عالم نے سوال کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس آئینی ترمیم سے آرٹیکل 8 بھی متاثر ہوا ہے جس پر حامد خان نے کہا کہ جی ہاں! آرٹیکل 8 بھی متاثر ہوا ہے اسی لئے تو ہم چاہتے ہیں کہ اس آئینی ترمیم کو آئین اور قانون کے خلاف قرار دیتے ہوئے ختم کیا جائے۔

اس پر عدالت نے کہا کہ اس کیلئے ہمیں وفاق اور صوبوں کو سننا ہوگا تبھی ہم کوئی فیصلہ کرسکیں گے۔ بعدازاں عدالت نے لاہور ہائیکورٹ بار کی درخواست پر اٹارنی جنرل پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت 12 فروری تک ملتوی کردی۔ادھرلاہور ہائیکورٹ بار کے صدر شفقت چوہان نے کہا ہے کہ آئین کا ہر صورت میں دفاع کریں گے‘ آئین کا دفاع کرنا سیاسی جماعتوں کا کام تھا جو ہم کررہے ہیں‘ مسلم لیگ (ن) آئین کا دفاع کرنے میں ناکام رہی ہے‘فوجی عدالتوں میں کوئی وکیل پیش نہیں ہوگا‘ بدھ کے روز سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہو ں نے کہا کہ بار ایسوسی ایشن کا جمعرات کو لاہور میں کنونشن ہورہا ہے جس میں آئندہ کا لائحہ عمل تیار کیا جائے گا جبکہ حامد خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی پارٹی تحریک انصاف کا کوئی بھی موقف ہو وہ آج بطور وکیل اور قانون دان کے عدالت میں پیش ہوئے ہیں اور وہ بطور قانون دان فوجی عدالتوں کی مخالفت کرتے ہیں۔

عدالت نے اٹارنی جنرل اور دیگر کو نوٹسز جاری کئے ہیں۔ نوٹس کے جواب تک فوجی عدالتوں کا کام کرنا نامناسب ہوگا۔ اس کیلئے انہیں سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے۔ حکومتوں کے کاموں کا وزن بار ایسوسی ایشنز اٹھا رہی ہیں۔ اس طرح کے معاملات زیادہ دیر تک برداشت نہیں ہوسکتے۔ اس سے ملکی وحدت کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ حکومت کے اس طرح کے اقدامات کرکے معاملات کو خراب نہ کرے۔ حامد خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تمام وکلاء اکٹھے ہیں اور سب کا اس حوالے سے ایک ہی موقف ہے۔ پاکستان بار کونسل پہلے ہی اس حوالے سے اپنی قرارداد منظور کرچکی ہے۔ اس طرح کے معاملات سے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے۔ کوئی خوش نہ ہو فوجی عدالتوں کے مقدمات میں سیاسی لوگوں کے مقدمات بھی جاسکتے ہیں۔