طالبان کیخلاف کارروائی میں تاخیر کے ذمہ دار جنرل کیانی ہیں‘ پرویز مشرف،جنرل کیانی کی ہچکچاہٹ کے باعث ملکی سکیورٹی کو درپیش چیلنجز ناقابل تسخیر بن چکے ہیں‘ موجودہ حکومت ناکام ہے‘ میرے خلاف عدالتی ٹرائل انتقامی کارروائی کا نتیجہ ہے‘ سابق صدر کا انٹرویو

جمعرات 29 جنوری 2015 09:09

کراچی‘ اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔29جنوری۔2015ء) سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے سابق جانشین جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی طالبان کیخلاف آپریشن میں تاخیر کے ذمہ دار ہیں جس کی وجہ سے آج ملک میں سکیورٹی چیلنجز ناقابل تسخیر بن چکے ہیں‘ آرمی چیف جب یہ دیکھے کہ حکومت غیر فعال ہوچکی ہے تو اسے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

اپنے ایک انٹرویو میں سابق آرمی چیف نے اس یقین کا اظہار کیا کہ ملک میں اس وقت سکیورٹی کے چیلنجز جو ناقابل تسخیر بن چکے ہیں اس کی وجہ ان کے جانشین جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کا جنگجوؤں کیخلاف ایکشن نہ لینا تھا۔ مشرف نے کہا کہ جنرل کیانی کی اپنی ہچکچاہٹ تھی‘ فیصلے کمزور نہیں تھے جس کی وجہ سے طالبان کیخلاف آپریشن شروع نہ کیا جاسکا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ جب آپ دیکھتے ہیں کہ حکومت غیر فعال ہے تو آرمی چیف کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ متحرک کردار ادا کرے جس طرح جنرل راحیل شریف نے ادا کیا تاہم جنرل (ر) کیانی اس سلسلے میں اپنی ریٹائرمنٹ تک محتاط رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس سلسلے میں مزید کسی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ سابق پیپلزپارٹی کی حکومت کے بارے میں اس وقت یہ خیال تھا کہ یہ جانے والی ہے تو اسی دوران اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی کو توسیع دی گئی تو اس کی کیا وجہ تھی تو اس پر پرویز مشرف نے کہا کہ یہ ان کا اپنا بندہ تھا اس سلسلے میں فوج کا نقطہ نظر بالکل واضح ہے۔

فوج ان دنوں طالبان کیخلاف کارروائی چاہتی تھی اور کیانی سے پوچھا بھی گیا کہ وہ جنگجوؤں کیخلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے۔ ان کے مدت تعیناتی کے دوران جنگجوؤں کیخلاف آپریشن میں تاخیر سے ہی کام لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کیخلاف 2007ء میں کارروائی کی اور اسے شکست دی۔

2008ء میں پرامن انتخابات کا انعقاد کیا جس کی بدولت عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخواہ میں برسراقتدار آئی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جنرل کیانی کی اس تاخیر سے کافی مایوس ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے محسوس کیا کہ وہ ایوان صدر میں مزید نہیں رہ سکتے تو وہ پی پی دور حکومت میں اپنے اس عہدے سے الگ ہوگئے۔ سابق جنرل کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت ناکام ہوچکی ہے جس کی وجہ سے آج ملک میں عدم استحکام اور سکیورٹی کے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے خلاف عدالتی کارروائی انتقامی کارروائی کا شاخسانہ ہے۔ نواز شریف حکومت نے میرا نام ای سی ایل میں ڈالا اور یہ چیزیں آرمی اور ملک کے مفاد میں نہیں۔ اسلئے میں یہ برملاء کہوں گا کہ میرا مقدمہ انتقام پر مبنی ہے اور میں ریاست پاکستان کا واحد سابق سربراہ ہوں جس کیخلاف ماتحت عدالتوں میں مقدمات چلائے جارہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :