سینیٹ کی ذیلی کمیٹی کی فاٹا کو سیاسی، انتخابی وکاروباری حقوق دینے کی سفارش، فاٹا میں بند دکانیں کھولنے کے لئے اقدامات اور ٹیکس چھوٹ دینے کا مطالبہ، بیوروکریسی حاکمانہ رویے کو ترک کرے،حاجی غلام علی

منگل 3 فروری 2015 08:34

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔3فروری۔2015ء)ریاستوں اور سرحدوں کے بارے میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی قائم کردہ ذیلی کمیٹی نے فاٹا کو سیاسی، انتخابی وکاروباری حقوق دینے کی سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ فاٹا میں بند دکانیں کھولنے کے لئے اقدامات کئے جائیں،اور کمیٹی کے چیئرمین حاجی غلام علی نے کہا کہ بیوروکریسی حاکمانہ رویے کو ترک کرے۔

ذیلی کمیٹی کا اجلاس پیر کے روز کنوینر سینیٹر حاجی غلام علی کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاوس اسلام آباد میں منعقد ہوا، ذیلی کمیٹی کے کنونئر سینیٹر حاجی غلام علی نے ہدایت دی کہ قدرتی معدنیات سے مالا مال فاٹا میں زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع فراہم کرنے کیلئے بلا تعطل بجلی کی فراہمی یقینی بنانے کے علاوہ قومی بنکوں سے مقامی افراد کو آسان شرائط پر قرضے بھی دیے جائیں ۔

(جاری ہے)

سینیٹر احمد حسن نے کہا کہ فاٹا سونے کی الماری ہے وسائل کو تعلیمی سہولیات میں اضافے اور فنی اداروں کے قیام پر خرچ کیا جائے ۔ سزا اور جزاء کا نظام بھی نافذ کیا جائے اور کہا کہ پولیٹیکل ایجنٹ سیاہ و سفید کے مالک ہیں، میں ایک ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ کو پندرہ دن مل نہ سکا ۔کمیٹی نے سفارش کی کہ فاٹا کو ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ دے کر صنعتیں قائم کرنے کے اقدامات کئے جائیں ۔

سیکریٹری سیفران پیر بخش جمالی نے کہا کہ ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ کیلئے ایف بی آر سے مذاکرات اور وزارت خزانہ کو خط لکھیں گے ۔پارلیمنٹ کے ممبران کی عزت و احترام سرکاری ملازمین پر فرض ہے فاٹا میں بند کانوں کو کھولنے کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں گے۔ جوائنٹ سیکریٹری سیفران طارق حیات نے کہا کہ سونے اور کاپر کے ذخائر سینڈک سے بھی زیادہ ہیں لیکن فاٹا سیکریٹریٹ ،فاٹا ڈویلپمنٹ اتھارٹی ، گورنر کے اختیارات اور وفاقی حکومت کی پالیسیوں میں یکسانیت پید ا کرنے کی ضرورت ہے ۔

فاٹا میں سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری اور تعلیم ہے ۔ سیکریٹری پیر بخش جمالی نے کہا کہ سیاسی و معاشی اصلاحات کیلئے فاٹا کوکے پی کے کا حصہ بنا دیا جائے ۔ فاٹا کو گلگت بلتستان طرز کی حکومت دے دی جائے ۔ پولیٹیکل سسٹم کو قائم رکھا جائے یا بلدیاتی انتخابات کرا دیے جائیں ۔ان تجاویز میں سے کسی ایک پر مکمل عمل درآمد سے ہی مسائل کا خاتمہ ہو سکتا ہے ۔

جوائنٹ سیکریٹری طارق خان نے کہا کہ فاٹا کا سالانہ بجٹ 90بلین ہے لیکن ممبران پارلیمنٹ کو ترقیاتی سکیموں کا پتہ نہیں ہوتا۔کنوینر کمیٹی حاجی غلام علی نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزیر سیفران نے تسلیم کیا تھا کہ طاقتور صنعتی لابیاں فاٹا میں انڈسٹری کی مخالفت کرتی ہیں ۔حاجی غلام علی نے کہا کہ بیوروکریسی حاکمانہ رویے کو ترک کرے اور کہا کہ چار سو اسی ماربل فیکٹریوں میں سے صرف 70رہ گئی ہیں فاٹا چیمبر آف کامرس کے صدر شاہدر رحمان اور ایڈوائزر انویسٹمنٹ دل روز خان نے کہا کہ فاٹا میں کسی بھی بڑے بنک کی بااختیار برانچ موجود نہیں ۔

ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے 3سو ماربل فیکٹریاں بند کر دی گئی ہیں ویلفئیر ٹیسٹ کے نام پر 13سو روپے اور سینیٹرل رائلٹی کے نام پر 15سو روپے فی ٹرک وصول کیا جا رہا ہے ۔ چونگیوں کا نظام پورے ملک میں ختم اور فاٹا میں قائم ہے ۔کمیٹی نے سفارش کی کہ فاٹا سیکریٹری اور وزارت کے افسران تمام کانوں کا خود دورہ کر سفارشات پیش کریں، وزارت خزانہ فاٹا میں ٹیکس چھوٹ کو بحال کرائے اور تمام بڑے قومی بنکوں کی با اختیار برانچیں قائم کر کے مقامی افراد کو قرضے دیے جائیں ۔

متعلقہ عنوان :