اپوزیشن کاپٹرولیم بحران پر اسمبلی میں سخت احتجاج،ذمہ داروں کو سامنے لانے کا مطالبہ،چار بیوروکریٹس کو ہٹاکر حکومت بری الذمہ نہیں ہوسکتی،حکومت آخر دھکے دے کر اسمبلی اراکین کو باہر سڑکوں پر کیوں پھینک رہی ہے 27 فیصد جی ایس ٹی عوام پر بہت بڑا ظلم ہے، پیپلزپارٹی 15 فیصد ٹیکس پر پہنچی تھی تو جگا ٹیکس کہا جاتا تھا، آج بجلی 4 روپے فی یونٹ پڑ رہی ہے لیکن 13 روپے میں فروخت کی جارہی ہے، خورشید شاہ،جنوری کے پہلے دس دن میں 18 ہزار ٹن یومیہ سیل ہوئی جوکہ دسمبر کی نسبت 50 فیصد زیادہ تھی ،بحران پر حکومت نے چھ دن میں قابو پالیا، ادائیگیاں نہ ہونے کی بات درست نہیں،وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی کی رپورٹ

بدھ 4 فروری 2015 09:17

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 5فروری۔2015ء) اپوزیشن کاپٹرولیم بحران پر قومی اسمبلی میں سخت احتجاج،تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سامنے لانے کا مطالبہ، اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ چار بیوروکریٹس کو ہٹاکر حکومت بری الذمہ نہیں ہوسکتی، پٹرول کی قیمت 70 روپے نہیں بلکہ اس سے بھی کم ہونی چاہئے۔ بجلی کا بحران بالکل نہیں ہونا چاہئے۔

حکومت آخر دھکے دے کر اسمبلی اراکین کو باہر سڑکوں پر کیوں پھینک رہی ہے جی ایس ٹی میں دو مرتبہ 5 فیصد اضافہ کیا گیا۔ ہم پارلیمنٹ کی اہمیت کو محسوس کرتے ہیں لیکن حکومت محسوس نہیں کرتی۔ پیپلزپارٹی نے مہنگی ایل این جی درآمد کرنے کی بجائے ایران سے سستی گیس کا معاہدہ کیا ، چیف جسٹس نے سوموٹو ایکشن لے کر اپنی اناء کی خاطر معاہدے کو روک دیا تھا۔

(جاری ہے)

27 فیصد جی ایس ٹی عوام پر بہت بڑا ظلم ہے، پیپلزپارٹی 15 فیصد ٹیکس پر پہنچی تھی تو جگا ٹیکس کہا جاتا تھا اور آج 120 ارب روپے ٹیکس کے طور پر غریب عوام کی جیبوں سے نکالے جارہے ہیں آج بجلی 4 روپے فی یونٹ پڑ رہی ہے لیکن 13 روپے میں فروخت کی جارہی ہے جبکہ وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے ایوان میں بحران کے حوالہ سے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخواہ اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں پٹرول کی قلت ہوئی جس پر جلد قابو پالیا گیا اور یہ قلت صرف پٹرول کی تھی ۔

اس وقت ملک کا 54 فیصد تیل نجی کمپنیوں کے پاس ہے اور پٹرول کی درآمد 46 فیصد ہے۔ جنوری کی پہلے دس دن میں 18 ہزار ٹن یومیہ سیل ہوئی جوکہ دسمبر کی نسبت 50 فیصد زیادہ تھی جس کی وجہ سے قلت پیدا ہوئی لیکن اس بحران پر حکومت نے چھ دن میں قابو پالیا جبکہ میڈیا میں بتایا گیا کہ ادائیگیاں نہ ہونے کی وجہ سے قلت پیدا ہوئی جو درست نہیں۔پٹرولیم بحران پر بحث کے دوران ان کا کہنا تھا پٹرول بحران کے فوری بعد حکومت نے سی این جی سٹیشن فوری طور پر کھول دئیے اور اضافی سپلائی کا بندوبست کرکے فوری طور پر بحران پر قابو پالیا اور اب مستقبل کیلئے بھی اضافی ذخائر جمع کرلئے گئے ہیں۔

پیپلزپارٹی کے نوید قمر نے سپیکر سے درخواست کی کہ توانائی پر بھی بحث کی جائے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ایوان میں توانائی پر بھی بات کی جائے۔ خورشید شاہ نے کہاکہ حالات و واقعات کے بعد سسٹم میں تبدیلی آگئی ہے کہ پچھلے کئی دنوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ وزارتیں ایک دوسرے پر الزام لگا رہی ہیں اور معلوم ہے کہ حکومت جان بوجھ کر ایسی بدنامی کو اپنے سر نہیں لے گی لیکن یہ حکومت کی ناکامی ہے کہ ایک مسئلے سے نکل کر دوسرے مسئلے میں پھنس جاتی ہے۔

حکومت بتائے کہ آخر بحران کیوں پیدا ہوئے۔ آئل میں پی ایس او 60 فیصد اور باقی کمپنیاں 40 فیصد شیئر کرتی ہیں۔ پٹرول بحران سے توانائی پر بھی فرق پڑا اور حکومت کی ناکامی ہے پی ایس او کے پاس 13 ہزار لیٹر پڑے تھے جبکہ روزانہ کی ڈیمانڈ 15 ہزار ہے۔ آج ہمارے پاس 21 دن کے ذخائر کا ڈھانچہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اپوزیشن کو بہت اہمیت دی اسی لئے اس پر بحث کی تاکہ عوام کی آواز کو سنا جاسکے۔

ہم نے شاہد خاقان عباسی‘ خواجہ آصف اور اسحق ڈار کو استعفے کا نہیں کہا کیونکہ تمام وزارتیں خزانہ سے فنڈز لیتی ہیں اور وہاں پر فنڈز کی کمی تھی۔ چار بیوروکریٹس کو ہٹاکر حکومت بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔ کراچی میں لوڈشیڈنگ دس سے بارہ گھنٹے ہے اور ملک بھر میں لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ پٹرول کی قیمت 70 روپے نہیں بلکہ اس سے بھی کم ہونی چاہئے۔ بجلی کا بحران بالکل نہیں ہونا چاہئے۔

چار ماہ کی ایوریج 70 ہزار سے زائد نہیں اور ملک کے نالائق پلانٹوں کو بھی چلایا جائے۔ آج تیل سستا ہونے کے باوجود بجلی 13 روپے پر ہے حالانکہ بجلی مزید سستی ہونی چاہئے تھی۔ حکومت آخر دھکے دے کر اسمبلی اراکین کو باہر سڑکوں پر کیوں پھینک رہی ہے کیونکہ لوگ ہمیں پارلیمنٹرین ہونے کے طعنے دیتے ہیں لیکن ہم پارلیمنٹ کو مسئلے کے حل کی امید سمجھتے ہیں کہ لوگوں کے مسائل پورے ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ ہم پارلیمنٹ ہاؤس میں تقریریں کرکے تھک گئے ہیں لیکن مجال ہے کہ حکومت کے کانوں پر مسائل کے حل کیلئے جوں تک بھی رینگی ہو۔ آج ہم وزیراعظم ہاؤس جائیں یا پھر کسی اور جگہ؟ جی ایس ٹی میں دو مرتبہ 5 فیصد اضافہ کیا گیا۔ ہم پارلیمنٹ کی اہمیت کو محسوس کرتے ہیں لیکن حکومت محسوس نہیں کرتی۔ 20 ارب روپے صوبوں کے حقوق کیلئے ہیں جو حکومت لے کر بیٹھ گئی ہے۔

پیپلزپارٹی نے مہنگی ایل این جی درآمد کرنے کی بجائے ایران سے سستی گیس کا معاہدہ کیا لیکن صرف تقریروں میں اناء ہورہی ہے۔ اس وقت چیف جسٹس نے سوموٹو ایکشن لے کر اپنی اناء کی خاطر معاہدے کو روک دیا تھا۔ 27 فیصد جی ایس ٹی عوام پر بہت بڑا ظلم ہے۔ پیپلزپارٹی 15 فیصد ٹیکس پر پہنچی تھی تو جگا ٹیکس کہا جاتا تھا اور آج 120 ارب روپے ٹیکس کے طور پر غریب عوام کی جیبوں سے نکالے جارہے ہیں اور عوام سے بیدردی کیساتھ پیسہ لوٹا جارہا ہے۔

2012ء میں بجلی کی پیداوار فی یونٹ 4 روپے تھی اور 10 روپے میں فروخت کررہے تھے آج بجلی 4 روپے فی یونٹ پڑ رہی ہے لیکن 13 روپے میں فروخت کی جارہی ہے۔ عوام نے حکمرانوں کو دو تہائی اکثریت دی ہے اب حکمرانوں کا بھی فرض ہے کہ وہ غریب عوام کے چولہوں کو بجھنے سے بچالے۔ اگر مظلوم کے پیٹ کو کاٹ کر ٹیکس لگایا جائے گا تو خزانہ کبھی نہیں بھرے گا۔ ایم کیو ایم کے مزمل شاہ نے کہا کہ عالمی اور مقامی مارکیٹ میں کہا گیا کہ ثمرات کو عوام تک منتقل نہیں کیا جارہا اور ٹرانسپورٹرز سمیت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی نہیں کی گئی۔

پٹرول بحران حکمرانوں کی غفلت کی وجہ سے پیدا ہوا حکومت کراچی میں کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل کے حوالے سے سنجیدگی نہیں دکھا رہی۔ الطاف حسین اور رابطہ کمیٹی نے بار بار کہا تھا کہ سندھ سے بھرتیاں کی جائیں لیکن پتہ نہیں بھرتیاں کہاں چلی جاتی ہیں۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں اور غریبوں کو سادہ لباس اٹھا رہے ہیں حالانکہ سادہ لباس پر پابندی ہے تو پھر اسے اغواء ہی کہیں گے۔

جماعت اسلامی کی عائشہ صدیقی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ملک میں بدامنی اور پٹرول کی قلت کا عروج رہا۔ ابھی سانحہ پشاور کے زخم ہرے تھے کہ شکارپور کا واقعہ پیش آگیا۔ عوام نے حکمرانوں کو جو مینڈیٹ دیا اب ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام مسائل کو دیکھ کر کنٹرول کریں۔ اس وقت عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 48 روپے فی لیٹر ہے۔ ہمارے ملک میں بہت بڑا المیہ ہے کہ یہاں پر انسانی وسائل کا ضیاع کیا گیا۔

لوگوں کا قیمتی وقت لائنوں میں ضائع کیا گیا اور ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا گیا۔ اوگرا نے غفلت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اضافی تیل کیوں نہیں رکھا۔ پٹرول بحران پر اپوزیشن اراکین تنقیدی تقاریر کررہے تھے کہ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ وفاقی وزیر پٹرولیم ایوان میں موجود نہیں اسلئے اس ایجنڈے کو (آج) بدھ تک کیلئے موخر کردیا جائے۔ بعدازاں ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے ایوان کی کارروائی (آج) بدھ صبح 11 بجے تک ملتوی کردی۔