پنجاب حکومت کا آخر کارنومبر2015 میں بلدیاتی انتخابات کرانے کافیصلہ ،ختیار ات بیورو کریسی کو ہی دینے اور اور حلقہ بندیوں میں ردو بدل پراپوزیشن جماعتوں کا تحفظات کا اظہار ، حکومتی فیصلے کو آمرانہ سوچ قرار دیدیا ،مزاحمت کا اعلان

اتوار 8 فروری 2015 09:47

فیصل آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 8فروری۔2015ء)پنجاب حکومت نے آخر کارنومبر2015 میں بلدیاتی انتخابات کرانے کافیصلہ کر لیاتاہم اس حوالہ سے صوبائی حکومت کی طرف سے اختیار ات اور حلقہ بندیوں میں ردو بدل کے اقدامات پر تحریک انصاف ،جماعت اسلامی ،مسلم لیگ ق ،عوامی تحریک سمیت دیگر جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ان اقدامات کو آمرانہ سوچ قرار دیدیا۔

معتبر ذرائع کے مطابق نومبر میں منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے فیصلہ کے باوجود بلدیاتی اداروں کے اختیار ات عوامی نمائندوں کی بجائے بیوروکریسی کے پاس رکھنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے جبکہ 2002ء کے بلدیاتی آرڈیننس اور منظور کئے گئے قانون کے تحت ہر سٹی ڈسٹرکٹ گورنمٹ کا ناظم ضلع کا سربراہ ہوتا تھا اور ڈی سی او کا کام صرف ضلعی ناظم کے احکامات پر مختلف محکموں کے افسران سے عملدرآمد کرانا اور اس کی رپورٹ ضلعی ناظم کو دینا ہوتی تھی۔

(جاری ہے)

اس طرح سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا ناظم جوکہ منتخب ہوکر آتا تھا‘ شہریوں‘ یونین کونسلوں‘ ناظمین‘ نائب ناظمین اور ٹاؤن ناظمین کو جوابدہ بھی تھا مگر جب سے موجودہ حکومت پنجاب اور مرکز میں برسراقتدار آئی ہے انہوں نے ضلعی نظام کو معطل کرکے اس کے تمام اختیارات ڈی سی او کو سونپ دئیے اور وہ اپنے احکامات جن میں بعض غیرقانونی بھی ہوتے ہیں‘ مختلف محکموں کے افسران کو جاری کرتا ہے۔

اگر صوبائی محکمے کا ضلعی افسر غیر آئینی احکامات کو ماننے سے انکار کرے تو اس افسر کیخلاف ڈی سی او نہ صرف کارروائی کرنے کا مجاز ہوتا ہے بلکہ صوبائی محکموں کے سیکرٹریوں کے علاوہ چیف سیکرٹری پنجاب کو بھی فون کال کے ذریعے یا تحریری طور پر اس افسر کی تبدیلی یا معطلی کے بارے میں شکایت کرسکتا ہے جس پر عملدرآمد ہونا ضروری ہوتا ہے۔ خبر رساں ادارے کو مزید معلوم ہوا ہے کہ حال ہی میں دھرنوں اور احتجاج کی سیاست کے بعد حکومت پنجاب نے صوبہ بھر میں بلدیاتی انتخابات کرانے ک فیصلہ کرتے ہوئے اختیارات کو نچلی سطح پر منتخب ہونے والے عوامی نمائندوں کو سونپنے کا فیصلہ کیا تھا مگر بیوروکریسی نے وزیراعلی کو سبز باغ دکھاکر ایسا کرنے سے منع کرتے ہوئے ایک کمیٹی کی روشنی میں پنجاب بھر کے بلدیاتی اداروں جن میں سابقہ دور کی میونسپل کمیٹیاں‘ ضلع کونسلیں‘ کارپوریشنز کیساتھ ساتھ میٹرو پولیٹن کارپوریشنز کو صوبائی سیکرٹری بلدیات نے ایک تحریری حکم ایس آر او (لوکل گورنمنٹ) 37\46 کو بنیاد بناکر پنجاب بھر کی تمام ضلع کونسلوں‘ میونسپل کمیٹیوں‘ میونسپل کارپوریشنوں کو نہ صرف بحال کردیا گیا ہے بلکہ چھوٹے چھوٹے قصبہ جات جہاں پہلے یونین کونسلیں اور ٹاؤن کمیٹیاں قائم تھیں ان قصبوں کو بھی میونسپل کمیٹی کا درجہ دے دیا گیا ہے اس طرح فیصل آباد میں بھی چار میونسپل کمیٹیوں کی بجائے میونسپل کمیٹیاں بنادی گئیں جن میں ضلع کونسل‘ میونسپل کارپوریشن جن کا وجود پہلے 2002ء کے آرڈیننس کے تحت ختم کردیا گیا تھا اب اسے دوبارہ بحال کردیا گیا ہے اس کیساتھ ہی چک جھمرہ‘ جڑانوالہ‘ کھڑ ریانوالہ‘ ماموں کانجن‘ سمندری اور قصبہ ڈجکوٹ کو بھی میونسپل کمیٹی کا درجہ دے دیا گیا ہے۔

اس طرح نوٹیفکیشن کے مطابق ضلع کونسل میں آنے والی یونین کونسلوں کی تعداد 189 اور میونسپل کارپوریشن میں یونین کونسلوں کی تعداد 157 کردی گئی ہے جبکہ ان تمام معاملات میں ڈپٹی کمشنر ضلع کونسل اور کمشنر میونسپل کارپوریشن کے معاملات میں ہر قسم کی مداخلت کرنے کا مجاز ہوگا اسی طرح میونسپل کمیٹیوں کے تحصیل کے اسسٹنٹ کمشنر اور علاقہ مجسٹریٹ مداخلت کرسکیں گے اور میٹرو پولیٹن کارپوریشن کا لارڈ میئر براہ راست صوبہ کے وزیراعلی کے ماتحت کام کرے گا اس طرح سابق صدر پرویز مشرف نے منتخب عوامی نمائندوں کو نچلی سطح پر عوامی مسائل حل کرنے کیلئے جو اختیارات ممبر یونین کونسل‘ ٹاؤن کونسل اور سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو تفویض کئے تھے وہ عملی طور پر ختم ہوجائیں گے جس سے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کیساتھ ساتھ منتخب ہونے والے بلدیاتی اداروں کے کونسلروں کی بیوروکریسی کیساتھ ایک نیا جھگڑا جنم لے گا جس سے ملکی حالات خربا ہوں گے جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا اپنے منشور کے مطابق وعدہ ہے کہ وہ بلدیاتی نظام میں تمام اختیارات گاؤں کی سطح سے لے کر شہر اور ضلع سے منتخب ہونے والی عوامی نمائندوں کو تفویض ہونے چاہئیں جس میں بیوروکریسی اور حکومت کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔

اگر کوئی ناظم‘ میئر کرپشن کرے تو وہاں کے ووٹر اس کا خود احتساب کرسکیں، ،پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما ویوتھ ونگ کے صدر میاں فرخ حبیب اور ضلعی صدر رانا احمد راحیل منہاس سمیت جماعت اسلامی ،مسلم لیگ ق ،عوامی تحریک سمیت دیگر جماعتوں کی مرکزی اور مقامی قیاد ت نے آن لائن کو بتایا ہے کہ حکومت کا حالیہ فیصلہ آمرانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے جیسے تحر یک انصاف کسی بھی صورت میں قبول نہیں کریگی ہم چاہتے ہیں کہ بلدیاتی نظام کے تحت اختیارات عوام کے منتخب نمائندوں کے سپردہونے چاہئیں جس میں حکومت کا اور بیوروکریسی کاکوئی عمل دخل نہ ہو اگرحکومت نے نئے نظام کو جبراًمسلط کرنے کی کوشش کی توتحریک انصاف بھرپورمزحمت کریں گی۔