کراچی 2060ء میں سمندر میں ڈوب جائیگا،سینٹ کی کمیٹی میں انکشاف،ملیر کا کچھ حصہ سمندر بردہو چکا ہے اور 2050ء تک بدین اور ٹھٹھہ کے علاقے سمندربرد ہو جائیں گے،حکام کی بریفنگ،کمیٹی کے ارکان کا مشترکہ مفادات کونسل میں جامع منصوبہ تیار کرنے کا مطالبہ

منگل 10 فروری 2015 09:22

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔10فروری۔2015ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ کراچی کے علاقہ ملیر کا کچھ حصہ سمندر بردہو چکا ہے اور 2050ء تک بدین اور ٹھٹھہ کے علاقے سمندربرد ہو جائیں گے جبکہ کراچی 2060ء میں سمندر میں ڈوب جائیگا۔پچھلے 35سالوں کے دوران سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقے کے دو کلو میٹر تک حصہ سمندر برد ہو چکا ہے جبکہ کمیٹی کے ارکان نے اس سلسلہ کو روکنے کے لئے مشترکہ مفادات کونسل میں جامع منصوبہ تیار کرنے کا مطالبہ کیاہے۔

قائمہ کمیٹی کا اجلاس پیر کوچیئر مین کمیٹی سینیٹر پروفیسر ساجد میر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوٴس میں منعقد ہوا جس میں سمندری پانی کے دریائے سندھ کے زیریں علاقوں اور بلوچستان کے زیریں و ساحلی علاقوں میں دخول اور اس کے اثرات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

ڈائیریکٹر جنرل، این آئی او ڈاکٹر آصف انعام نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے اور اس کے علاقائی سمندروں کے پروگرام نے 1989میں پاکستان کو ان ممالک میں شامل کیا ہے جن پر سمندر کی سطح بلند ہونے کے اثرات مرتب ہونگے ۔

سندھ کے ساحلی علاقوں اور خاص طور پر ٹھٹھہ اور بدین کی ساحلی پٹی ماحولیاتی تغیرات سے شدید متاثر ہوئی ہیں مون سون کی شدت ، چھوٹے چھوٹے سمندری طوفانوں اور شدید سیلاب کی وجہ سے سطح سمندر بلند ہوئی ہے جسکی وجہ سے ساحلی علاقوں میں مٹی کا کٹاوٴ شدت اختیار کر گیا ہے ۔این آئی او کی رپورٹ کی مطابق سطح سمندر ایک سال میں 1.3ملی میٹر کے حساب سے پاکستان میں بلند ہوتا جا رہا ہے جسکی وجہ سے سمندری پانی خاص طور پر ڈیلٹائی علاقے ، نباتاتی ، حیا تیاتی زندگی متاثر ہو رہی ہے اور سندھ کے اطراف کی زمین سمندر میں دھنس رہی ہے اس بارے میں اعدادو شمار ہمارے پاس نہیں۔

انہوں نے کہاکہ ٹھٹھہ بدین ، حیدر آباد کے دریائی ساحلوں پر80کلومیٹر سمندری پانی اوپر آ چکا ہے جو زمیں کیلئے ایک خطر ناک صورتحال ہے ۔انہوں نے کہا کہ دریائے سندھ کا پانی مختلف ڈیموں ، بیراج اور آبپاشی میں استعمال ہونے کی وجہ سے سمندر میں مطلوبہ مقدار میں نہیں گر رہا جسکی وجہ سے یہ مسائل سامنے آ رہے ہیں ۔سیکرٹری سائنس و ٹیکنالوجی کامران علی قریشی نے کہا کہ یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے ہر سال ایکڑوں کے حساب سے زمین سمندر میں شامل ہو رہی ہے اور اب تک کئی دیہات سمندر میں آ چکے ہیں ۔

حکومت ایسا لائحہ عمل اختیار کرے کہ ان مسائل کا تدارک کیا جا سکے ۔قائمہ کمیٹی کو مکران کے ساحل کے قریب سمندر میں جزائر کے بارے میں بھی تفصیل سے بتایا گیاانہوں نے کہا کہ کچھ جزائر قدرتی طور پر وقوع پذیر ہوتے ہیں اور کچھ حادثاتی طور پر جنکی بنیادی وجہ موسمی تغیرات اور زلزلے ہیں ۔2013میں بلوچستان میں زلزلہ کی وجہ سے گوادر کے مغربی ساحل پر مٹی کے جزیرے رونماہوئے جو اب تک قائم ہیں ۔

سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سرفراز حسین سولنگی نے کہا کہ درجہ حرار ت بڑھنے کیساتھ ساتھ موسمی تغیرات اور اس کے اثرات بڑھ رہے ہیں ہمیں اس کے مطابق تیاری کرنا ہو گی، کراچی کا درجہ حرارت 3ڈگری اور شمالی علاقہ جات کا 5ڈگری درجہ حرارت بڑھ جائیگااور مستقبل میں موسمی تغیرات میں مزید اضافہ ہو گا۔ ہمارے زیر زمین میٹھے پانی کے ذخائر کھارے پانی میں تبدیل ہو رہے ہیں اسکے بچاو کیلئے ایک جامع سٹڈی و تحقیق کی ضرورت ہے ۔

بلوچستان کو سٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حکام نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ بلوچستان کے ساحلی علاقے بھی ان مسائل کا شکار ہو رہے ہیں بلوچستان 770کلو میٹر ساحلی علاقے پر مشتمل ہے اور ہمارا زیر زمین پانی بھی کھارا ہو تا جا رہا ہے ۔ڈبلیو ڈبلیو ایف کی رپورٹ کے مطابق پچھلے تیس سالوں کے دوران بلوچستان کی زمین کا ایک کلو میٹر حصہ سمندر کا حصہ بن چکا ہے انہوں نے ایک جامع پلان و تحقیق کے لئے قائمہ کمیٹی سے سفارش کی اور کہا کہ مینگروز کے درختوں کی کٹائی پر پابندی لگائی جائے۔

رکن کمیٹی تاج حیدر نے کہا کہ سندھ کو ان مسائل سے بچانے کیلئے صوبائی حکومت سمندر میں 220کلو میٹر ایک سٹرک بنا رہی ہے جو چار لائنوں پر مشتمل ہو گی جسکا بنیادی کام زمینی کٹاو کو کم سے کم کرنا اور زیر زمین سمندری پانی کے دخول کو روکے گی ۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت صوبائی حکومت کی فنڈز میں 50فیصد مدد کرے ۔سینیٹر ڈاکٹر کریم احمد خواجہ نے کہا کہ یہ انتہائی اہم نو عیت کے مسائل ہیں انہیں سی سی آئی میں اٹھا یا جائے اور تمام متعلقہ اداروں کیساتھ ایک جامع منصوبہ مرتب کیا جائے اور اس سلسلے میں وزیر اعظم پاکستان کو خط بھی لکھا جائے تاکہ سندھ اور بلوچستان کو ان مسائل سے بچایا جا سکے ۔

کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر ڈاکٹر کریم احمد خواجہ ، مسز نسیمہ احسان ، فرخ عاقل ، مفتی عبدالستار ، تاج حیدر اور سید تنویر الحق تھانوی کے علاوہ سیکریٹری سائنس و ٹیکنالوجی کامران علی قریشی ، ڈجی این آئی او ڈاکٹر آصف انعام ، سیکرٹری بورڈ آف ریونیو بلوچستان جاوید اقبال ، سیکریٹری بورڈ آف ریونیو سندھ سید غضنفر علی شاہ کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

متعلقہ عنوان :