نریندر مودی ملک وقوم کی کیا خدمت کررہے ہیں ، بی جے پی کی پالیسیاں ملک کی لٹیا ڈبو دے گی ، بھارتی میگزین ، اقتدار اور دولت کے لالچی وزارتوں پر قبضہ جما کر مذہبی تنگ نظری پھیلانے میں دن رات مصروف ہیں ، عقلمندوں کو سوچنا چاہیے تبدیلی مذہب کو ئی اچھا نمونہ نہیں بن سکتی ، حقیقت کا علم ہونے سے پہلے ساری دنیا ہندوستان کا ساتھ چھوڑ دے گی ، آٹھ سو سال بعد ہندوستان پر ہندوؤں کی مکمل حکومت قائم ہونے کے غرور کا دعویٰ کرنے والے عقل و شعور سے عاری معلوم ہوتے ہیں ، پانچ دس برس کے لئے اکثریت پا لینا ایک بات ہے ، جغرافیائی او نسلی اتحاد برقرار رکھنے کے تاریخی تسلسل کی مثال دوسری بات ہے ،بھلے ہندو محب وطن عوام بی جے پی کے کشمیرسے بنگال تک پر پھیلانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دینگے ، مودی ناپسندیدہ باتوں کو فوری رو ک دیں

بدھ 11 فروری 2015 09:10

کلکتہ(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 11فروری۔2015ء/رپورٹ: بشیر سلطان کشفی) بھارتی شہر کلکتہ سے شائع ہونے والے عالمی اردو ادب کے ممتاز ادبی جریدہ انشاء نے اپنے تازہ شمارے میں بی جے پی کی مرکزی حکومت کی پالیسیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر بی جے پی کے نظریات پر عملدرآمد کیاجائے تو ہندوستان کی مختلف قومیتوں کا صدیوں کا اتحاد پارہ پارہ ہو جائے گا ۔

” روک کیوں نہیں لگاتے “ کے عنوان سے اپنے ادارے میں جریدہ نے لکھا ہے کہ ایک بردبار حکومت کے پاس اپنے بڑے قومی مقاصد اور ہمہ جیت ترقیاتی ، معاشی اور سیاسی پروگرام ہونے چاہیں اقتدار اور دولت کے لالچی افراد وزارتوں پر قبضہ جما کر مذہبی تنگ نظری پھیلانے میں رات دن مصروف ہیں موہن بھگوت ، اشوک سنگھل ، پروین توگڑیا ، سادھوری اتھمبرا ، سادھوری نرنجن اور درجنو بھگوا لیڈر گلا پھاڑ پھاڑ کر روزانہ اقلیتوں کو اشتعال دلانے والے نفرت انگیز بیان دینے پر مامور ہیں ۔

(جاری ہے)

جریدہ نے سوال کیا ہے کیا آر ایس ایس کا خفیہ ایجنڈا لاگو کرنے کے لیے ہی بی جے پی کو ملک کا اقتدار سونپا گیا تھا جریدہ لکھتا ہے کہ چھ مہینوں میں ہندو توا کا گراف اونچا ہونے کے سوائے ملک میں اور کون سی ترقی پسندانہ سیاسی ، معاشی تبدیلی کی آہٹ محسوس کی جاسکتی ہے ۔ جب سے مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی نریندر مودی کی لیڈر شپ میں جیت کر مکمل اکثریت سے آئی ہے طاقت کے نشے میں سرشار ہے اس کے لیڈر فرقہ ورانہ منافرت کو ہوا دینے میں کوئی کمی نہیں چھوڑ رہے ہیں پچھلی بار بی جے پی کی حکومت محاذی تھی اس لئے اپنی مرضی پورا کرنے میں پوری طرح آزاد نہ تھی اس بار مکمل اقتدار کا گھمنڈ دیدنی ہے۔

انتہا پسند ہندو راشٹریہ سیوک سنگھ ، شیو سینا ، بجرنگ دل تنظیموں کے چنگل میں بی جے پی اس طرح بری طرح پھنسی ہوئی ہے کہ ان کا ایجنڈا پورا کرنے پر مجبور ہے ۔ جریدہ نے لکھا ہے کہ وزیراعظم اپنی خارجہ پالیسی کی دو سمتیں ضرور متعین کرتے ہیں جو اسرائیل اور امریکہ سے قربتیں بڑھا سکیں یہ ممالک نئے عالمی تناظر میں مسلم دشمن ہوں یا نہ ہوں اسلام مخالف ضرور ہیں ۔

جریدہ نے سوال کیا ہے کہ اب ہندوستان کی سیاسی منزل کیا ہے ؟ ایک مندر ، اس نظریہ کے جھنڈے کا علامتی رنگ بدعنوانی ، قومی کتاب تھوپ گپتا ، راشٹریہ دھرم صرف ہندو مت ، قومی دشمن کون ؟ مسلمان ، عیسائی یا دیگر مذہبی اقلیتیں، کیا سرکاری مشن ؟ بھارت کو ہندو راشٹریہ بنانا مسلمانوں کو ہندو قرا دے کے جبراً یا پیسے کا لالچ دے کر غریبی کی سطح سے نیچے رہ کر جینے والوں کو گاؤں گاؤں میں ادھارنا اور روشن کارڈ کی پیشکش کے ذریعے ہندو بنانا اور اس عمل کو گھر واپسی قرار دینا تو جہاد کی سند لگا کر ہندو مسلم شادیوں کو ہندوؤں کی فتح مندی سے تعبیر کرنا ہے اداریہ میں کہا گیا ہے کہ چھ مہینوں میں ہندو توا کا گراف اونچا ہونے کے سوائے ملک میں اور کون سی ترقی ہوئی ہے گورکھ پور کے رکن پارلیمنٹ یوگی آدیتہ ناتھ نے چاروں ماحصل ہندو پوا داہنی کی بنیاد ڈالی اور چند روز قبل آگرہ کے قریب غریبی کی نچلی سطح پر زندگی گزر بسر کرنے والے چالیس مسلم خاندانوں کو یہ احساس دلا کر اور مالی امداد پہنچا کر مسلم خاندانوں کو یہ احساس دلا کر اور مالی امداد پہنچا کر دھرم قبول کرنے پر آمادہ کرلیا کہ وہ لوگ ماشیر پر زندگی گزار رہے ہیں ۔

جریدہ نے گجرات کے ایک گاؤں واسلا میں پانچ سو قبائلی عیسائیوں کو بھی ہندو بنانے کی اطلاع کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ دھرم جاگرن سمیتی نے دھرم بدلاؤ کیلئے ایک تخمینہ تیار کرلیا ہے ایک مسلمان کے دھرم بدلاؤ کیلئے پانچ لاکھ روپے اور عیسائی کے لیے دو لاکھ روپے مختص کئے جائینگے جبکہ سالانہ ایک لاکھ مسلمانوں کو ہندو بنانے کا نشانہ مقرر کیا ہے سمیتی کے راجیشور سنگھ نے اعلان کیا ہے کہ وہ 2021ء تک ملک کو ہندو راشٹریا بنا ڈالینگے کیونکہ مسلمان اور عسائی کو یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔

جریدہ لکھتا ہے عقلمندوں کو سوچنا چاہیے کہ یہ تبدیلی مذہب کوئی اچھا نمونہ نہیں بن سکتی ہندوستان کے ایک دو کروڑ مسلمان جس روز یہ کہہ دیں کہ آؤ ہم ہندو بننے کو تیار ہیں ہمیں ہندو بنا لو تو اس روز ان فرقہ پرستوں کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک جائے گی اور دھرم بدل کر مسلمان برہمنوں کے گھر واپس لوٹیں گے یا برہمن انہیں اپنے یہاں لے جائینگے یہ معلوم ہونے سے پہلے ساری دنیا ہندوستان چھوڑ دے گی یہ پارلیمنٹ کہاں ر ہے گی ملک کا دستور کدھر جائے گا ؟ کس نے سوچا ؟ آٹھ سو سال بعد ہندوستان پر ہندوؤں کی مکمل حکومت قائم ہونے کے حقوق کا دعویٰ کرنے والے اشوک سنگھل عقل سے پیدل معلوم ہوتے ہیں تاریخ کا انہیں شعور نہیں ایک مسلم عورت کو وزیر اور دو مسلمان مردوں کو منسٹر آف سٹیٹ بنا کر اور ٹیلی ویژن چینلوں میں داڑھی ، ٹوپی اور برقعوں کے شیوم میں مسلمان مردوں اور عورتوں کو اشتہارات کے ماڈل کے روپ میں دکھا کر کتنے برسوں تک ڈھکوسلے آزمائے جاسکتے ہیں اس ملک کے لوگ اپنے اعتقادات میں پکے ہیں یہاں ا ذان ناقوس سورج ڈوبنے کے وقت ایک ساتھ بجتے رہیں گے پانچ دس برس کیلئے اکثریت پالینا ایک بات ہے جغرافیائی اور نسلی اتحاد کو برقرار رکھتے ہوئے صدیوں کا تاریخی تسلسل قوم کو دینے کی مثال قائم کرنا دوسری بات ہے جریدہ لکھتا ہے کہ بادشاہت کے زمانے گزر گئے اور جمہوریت اس سوچ کی رودار نہیں کہ سی ڈی این اے ٹیسٹ کو اب شرمندہ کرنے کی کی کیا ضرورت ہے ہندوستان نے پاکستان پاکستان سے بنگلہ دیش بننے کے اسباب پر غور کرنا چاہیے کہ یہ ملک کن ناآسود گیوں سے بنے اور کن تحریکات نے بنائے بی جے پی کشمیر سے بنگال تک اپنے پر پھیلانے کی کوشش میں ہے لیکن بھلے محب وطن ہندو عوام سے ڈرنا چاہیے جو کبھی اس خواب کو شرمندہ تعبیر نہ ہونے دینگے ۔

جریدہ نے لکھا ہے کہ اگر وزیراعظم اس ذہنیت کیخلاف ہیں تو اپنے حلیفوں کے بیانات اور اقدامات پر روک کیوں نہیں لگاتے ؟ ظاہر ہے ہیں تو یہ بھی وہی یورپی کے افشاد فرقے سے تعلق رکھنے والی معمولی تعلیم یافتہ رکن پارلیمنٹ سادھوی نرنجن وزیر فوڈ پراسیسنگ نے یکم دسمبر 2014ء کو اپنی تقریر میں کہا اس دیش میں حرام زادے رہیں گے یا رام زادے اپوزیشن نے متحد ہوکر اس کیخلاف احتجاج کیا لیکن مودی نے اسے برطرف نہیں کیا ۔

صرف اپرلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاسوں میں یہ کہا کہ گاؤں کے ماحول سے تعلق رکھنے والی اس عورت کی زبانی لغزش کو نظر انداز کردینا چاہیے ۔ جریدہ نے سوال کیا کہ جو لوگ ہندوستان سماج کی تکثریت کی قدر نہیں کرتے ہندوستان کے آئین کی حفاظت کیسے کر پائینگے جو کثرت میں وحدت قائم کرنے کا عہد کرتا ہے الیکشن سے پہلے خود مودی کا نعرہ تھا سب کا ساتھ سب کا وکاس اپنی ہی بات پر خود کو جانچ کر دیکھیں کیا یہ عمل سب کو ساتھ لے کر سب کا ویکاس کا نمونہ ہے ان باتوں کا ردعمل بھی ضرور ہوگا اقلیتیں سیم کر نہیں بیٹھ جائینگی خدا کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی لیکن جمہوریت کے چابک میں آسمانی بجلی کی دہلا دینے والی کڑک ضرور ہوتی ہے فطری انصاف پر ہندو اور مسلمان دونوں کا یکساں بھروسہ ہے مودی کو اپنے ہی مفاد میں ان ناپسندیدہ باتوں پر فوری روک لگانا چاہیے ، روک کیوں نہیں لگاتے ’؟۔

متعلقہ عنوان :