سپریم کورٹ میں اٹھارہویں ترمیم کیخلاف دائر مقدمہ ازسرنو سماعت کیلئے مقرر،فریقین کو نوٹس جاری ، جوابات کیلئے 10 روز کی مہلت ،اٹھارویں اور اکیسویں ترمیم کا معاملہ ایک ساتھ نمٹانا چاہتے ہیں، اکیسویں ترمیم کیخلاف دائر درخواستوں پر وفاق اور صوبوں کے جوابات آ نے تک یہ معاملہ فل کورٹ کو نہیں بھیجا جاسکتا، چیف جسٹس جسٹس ناصرالملک کے ریما رکس

جمعہ 13 فروری 2015 09:21

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 13فروری۔2015ء) سپریم کورٹ نے اٹھارہویں ترمیم کیخلاف دائر ندیم احمد بنام فیڈریشن کا مقدمہ ازسرنو سماعت کیلئے مقرر کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کردئیے‘ اٹھارہویں ترمیم کا معاملہ 21 اکتوبر 2010ء سے تاحال زیر التواء ہے عدالت نے جوابات کیلئے 10 روز کی مہلت دیدی ‘ عدالت نے کہا کہ اکیسویں ترمیم میں ایک جیسے آئینی و قانونی سوالات اٹھائے گئے ہیں‘ چاہتے ہیں کہ دونوں ترامیم کا فیصلہ کیا جائے‘ جب تک اکیسویں ترمیم کیخلاف دائر درخواستوں پر وفاق اور صوبوں کے جوابات نہیں آجاتے اس وقت تک یہ معاملہ فل کورٹ کو نہیں بھیجا جاسکتا‘ جوابات آنے کے بعد یہ معاملات فل کورٹ کو ارسال کردئیے جائیں گے جو پہلے ہی اٹھارہویں ترمیم کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت کررہا تھا‘ چیف جسٹس ناصرالملک نے کہا ہے کہ اٹھارہویں اور اکیسویں ترمیم میں آئین کے بنیادی ڈھانچے کا ذکر ہے تو کیا پارلیمنٹ میں ترمیم کرسکتی ہے‘ تمام فریقین اپنے جوابات داخل کرادیں پھر نوٹس جاری کردیں گے‘ خیبر پختونخواہ کے علاوہ کسی نے بھی جواب داخل نہیں کرایا‘ وفاق سمیت صوبوں نے جوابات کیلئے وقت مانگا ہے‘ تمام درخواستوں کے حقائق اور قانونی نکات ایک جیسے ہیں‘ اٹھارہویں ترمیم کا معاملہ بھی چار سال سے زیر التواء ہے اس پر حامد خان نے کہا کہ انیسویں ترمیم کے ذریعے عدالت کے عبوری حکم پر عمل ہوچکا ہے‘ مزید سماعت 24 فروری کو کی جائے گی۔

(جاری ہے)

فوجی عدالتوں اور اکیسویں ترمیم کے حوالے سے پاکستان بار کونسل‘ سپریم کورٹ بار‘ لاہور ہائیکورٹ بار‘ سندھ ہائیکورٹ بار اکرام چوہدری ایڈووکیٹ اور مولوی اقبال حیدر سمیت دیگر 9 درخواستوں کی چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے جمعرات کے روز سماعت کی۔ لاہور ہائیکورٹ بار کی جانب سے حامد ایڈووکیٹ پیش ہوئے اس دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان اور چاروں ایڈووکیٹ جنرل بھی پیش ہوئے۔

عدالت نے کہا کہ صرف کے پی کے نے جواب داخل کرایا ہے۔ اٹارنی جنرل ودیگر نے وقت مانگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سب کو دو ہفتے کا وقت دیا گیا تھا اس کیس میں قانونی نکتہ زیر بحث ہے اس پر جواب مانگا تھا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ جامع جواب داخل کرادیں گے اصل میں اتنی ہی درخواستیں آچکی ہیں ان سب کا ایک ساتھ جواب دینا چاہتے ہیں مزید وقت دے دیں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سب درخواستوں میں اٹھائے گئے سوالات ایک جیسے ہیں۔

انہوں نے پنجاب‘ بلوچستان اور سندھ سے بھی پوچھا اور کہا کہ مانا کہ اس میں اہم سوالات اٹھائے گئے ہیں مگر آپ کو بھی مناسب وقت دیا گیا تھا۔ پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان نے وقت مانگا کہ حقائق کے مطابق جواب دینا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے حامد خان سے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کو بھی چیلنج کیا گیا تھا اس میں بھی اسی طرح کے سوالات اٹھائے گئے تھے اب اکیسویں ترمیم آگئی ہے‘ رولز کے تحت اس کی سماعت ہونی چاہئے تھی۔

جوڈیشل کمیشن کے رولز میں ترمیم کا معاملہ بھی زیر التواء ہے۔ فل کورٹ بناکر اس کا فیصلہ ہوسکتا ہے اس پر نظرثانی ہوئی تو تھی اس میں ترمیم ہوسکتی ہے۔ حامد خان نے کہاکہ 21 اکتوبر 2010ء میں جاری کردہ حکم پر عمل کردیا گیا تھا اور انیسویں ترمیم آگئی تھی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ معاملہ تو کیس کی سماعت پر ہی اٹھایا جاسکتا ہے اور ابھی یہ کیس نہیں سن رہے۔

ان درخواستوں میں آئینی معاملات اور آئینی ڈھانچے بارے بات کی گئی ہے‘ چاہتے ہیں کہ پہلے اٹھارہویں ترمیم کیس کی سماعت کی جائے۔ اکیسویں ترمیم کے حوالے سے بھی آپ نے آئین کے بنیادی خدوخال کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں‘ دیکھنا ہوگا کہ اس میں کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا کوئی بنیادی آئینی ڈھانچہ ہے یا نہیں‘ اگر ہے تو اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں۔

چار سال سے یہ درخواست زیر التواء ہے اور اب اس معاملے کی سماعت فل کورٹ ہی سن سکتی ہے اور فول کورٹ ہی اس پر نظرثانی کرسکتی ہے۔ ہم تمام مقدمات میں نوٹس جاری کردیتے ہیں اور سب کو یکجاء کرکے سماعت کیلئے مقرر کردیتے ہیں۔ فل کورٹ ہی اس کا فیصلہ کردے۔ حامد خان نے کہا کہ ان درخواستوں میں تازہ ترین معاملات اٹھائے گئے ہیں۔ ابتدائی طور پر آپ ان درخواستوں کے ابتدائی دلائل سماعت کرچکے ہیں جب دلائل مکمل ہوجائیں گے تو پھر فل کورٹ بیٹھ کر اس کو سن کر فیصلہ کردیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم دونوں مقدمات میں کافی وقت دینا چاہتے ہیں تاکہ فریقین اس کا جواب داخل کراسکیں۔ سوائے مولوی اقبال حیدر کی درخواست کے باقی سب درخواستیں اکٹھی سنی جائیں گی ان کی درخواست کی سماعت کی سمجھ نہیں آئی وہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے گائیڈ لائن چاہتے ہیں۔ پہل اس نے درخواست دی تھی کہ ترمیم نہ آنے دی جائے۔ لیاقت علی کیس پر نظرثانی کی جائے اب اس نے موقف بدل لیا ہے وہ چاہتے ہیں کی فوجی عدالتوں کے قیام کے پروسیجر بارے گائیڈ لائن چاہتے ہیں۔

اسے آنے دیں ان کو سن کر ہی کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ وطن پارٹی نے دو درخواستیں دائر کی تھیں ایک جب ترمیمی بل پیش کیا جانا تھا اور دوسری جب ترمیم کرلی گئی۔ عدالت نے آرڈر لکھواتے ہوئے کہا کہ کے پی کے کے علاوہ وفاق سمیت کسی نے جواب داخل نہیں کرائے سب نے وقت مانگا ہے۔ ندیم احمد کیس میں وہی سوالات اٹھائے گئے ہیں جو موجودہ درخواستوں میں اٹھائے گئے ہیں جس کی آخری سماعت یکم اکتوبر 2010ء کو کی گئی تھی‘ تمامتر درخواستیں ایک ساتھ سنی جائیں گے۔

فریقین کو نوٹس جاری کئے جاتے ہیں جوابات داخل کرائے جائیں۔ 24 فروری کو سماعت کیلئے درخواستوں کو مقرر کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ اٹھارہویں ترمیم کی سماعت سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں قائم 17 رکنی بنچ نے کی تھی اور موجودہ مقدمے کی سماعت کیلئے بھی اتنے ہی ججز کی ضرورت پڑے گی۔