ترکی کی شام میں فوجی کارروائی، قدیم مقبرے کی حفاظت پر مامور اپنے فوجیوں کو بحفاظت نکالنے اور مدفن سے باقیات کو کسی دوسری جگہ منتقل کردیا،ترک فوج کی کارروائی جارحیت ،نتائج کی ذمہ دار ترک حکومت ہو گی، شام

پیر 23 فروری 2015 09:26

انقرہ (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 23فروری۔2015ء)ترکی نے پڑوسی ملک شام میں ایک قدیم مقبرے کی حفاظت پر مامور اپنے فوجیوں کو بحفاظت نکالنے اور مدفن سے باقیات کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے فوجی کارروائی کی ہے۔اتوار کو وزیراعظم احمد داوٴد اغلو نے بتایا کہ رات کو کی گئی اس کارروائی میں لگ بھگ چھ سو فوجیوں، ایک سو ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں نے حصہ لیا۔

فوجیوں کی ایک ٹکڑی سرحد پار علاقے کوبانی کے قریب اس مقبرے کی طرف گئی جب کہ دوسرا گروپ سرحد پر اس مقام پر موجود رہا جہاں یہ باقیات منتقل کی گئیں۔ ان کے بقول اس دوران پیش آنے والے حادثے میں ایک فوجی بھی ہوا۔ انھوں نے کہا کہ فوجیوں نے مقبرے کے نئے مقام پر ترک پرچم بھی لہرا دیا ہے۔ہم نے ترک مسلح افواج کو ہدایت کی کہ وہ ہماری روحانی قدروں کی حفاظت کریں اور ہمارے اہلکاروں کا تحفظ کریں۔

(جاری ہے)

یہ مقبرہ سلیمان شاہ کا ہے جو سلطنت عثمانیہ کے پہلے بادشاہ عثمان اول کے دادا تھے۔ یہ ترکی کی سرحد سے 35 کلومیٹر دور دریائے فرات کے کنارے شام کے صوبہ حلب میں تھا لیکن اسے ترکی کی ملکیت تصور کیا جاتا تھا۔ اس مقبرے کو 1921 میں فرانس اور ترکی کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کے تحت ترکی کے حوالے کیا گیا۔ اس وقت شام پر فرانس کی حکمرانی تھی۔

ترک وزیراعظم نے بتایا کہ فوجیوں نے مقبرے سے باقیات نکالنے کے بعد عمارت کو منہدم کر دیا تاکہ اس جگہ کو بظاہر داعش یا کسی اور گروپ کے شدت پسند استعمال نہ کر سکیں۔شام میں شدت پسند گروپ داعش کی کارروائیوں سے اس مزار کو محفوظ رکھنے کے لیے ترکی کے تقریباً چالیس فوجی تعینات تھے۔ترک فورسز کی کارروائی ہفتہ کو مقامی وقت کے مطابق رات نو بجے شروع کی گئی جو اتوار کی صبح مکمل ہوئی۔

شام کی طرف سے اس تازہ کارروائی پر تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال "یونیسف" کا کہنا ہے کہ جنوبی سوڈان میں مسلح افراد نے کم ازکم 89 لڑکوں کو اغوا کر لیا گیا ہے۔ان بچوں کو وا+ شیلک نامی علاقے سے اس وقت اغوا کیا گیا جب یہ امتحانی پرچے دے رہے تھے اور ان میں 13 سالہ کم سن بچے بھی شامل ہیں۔یونیسف نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا کہ مبینہ طور پر "مسلح سپاہی" گھر گھر جا کر بھی 12 سال سے زائد عمر کے لڑکوں کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔

گزشتہ مہینے ایک رپورٹ میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا تھا کہ دسمبر 2013ء سے جنوبی سوڈان میں شروع ہونے والے پرتشدد تنازع کے بعد سے حکومت اور باغی گروپوں نے ہزاروں بچوں کو لڑائی میں شامل ہونے پر مجبور کیا۔تاحال یہ واضح نہیں ہو چکا کہ اغوا کے اس تازہ واقعے میں کون ملوث ہے لیکن جنوبی سوڈان میں یونیسف کے نمائندے جوناتھن ویچ نے ان بچوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

بچوں کو مسلح فورسز کی طرف سے لڑائی کے لیے بھرتی کیے جانے سے خاندان اور سماج تباہ ہو جاتا ہے۔ بچوں کو ناقابل بیان حد تک تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہ اپنا خاندان کھو دیتے ہیں اور اسکول جانے کا اپنا حق بھی۔جنوبی سوڈان کئی دہائیوں کی لڑائی کے بعد 2011ء میں سوڈان سے علیحدہ ہوا تھا۔ اس نئے ملک میں دسمبر 2013ء میں اس وقت تنازع شروع ہوا جب صدر سلواکیر نے اپنے سابق نائب ریک ماچار پر اپنا تختہ الٹنے کے لیے بغاوت کا الزام عائد کیا۔

اس تنازع میں بڑی تعداد میں قتل و غارت گری اور لوگوں پر تشدد بشمول انھیں زبردستی بھوکا رکھنے جیسے واقعات رونما ہوئے۔ تقریباً 15 لاکھ سے زائد افراد بے گھر بھی ہو چکے ہیں۔ادھر شا می حکومت نے ملک کے شمالی حصے میں سلیمان شاہ کے مزار پر ترک فوجی کارروائی کو جارحیت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اِس کے ممکنہ نتائج کی ذمہ دار ترک حکومت ہو گی۔ شام کے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والے حکومتی بیان میں کہا گیا ہے کہ ترک حکومت نے استنبول میں شامی قونصل خانے کو اِس کارروائی کے بارے میں مطلع ضرور کیا تھا لیکن حکومت کی رضامندی کا انتظار نہیں کیا گیا۔

متعلقہ عنوان :