افغان حکومت امن چاہتی ہے تو طالبان کو اقتدار میں شریک اور افغانستان میں بھارتی اثرورسوخ کو روکے،پرویز مشرف،پاکستان نے بھارت کا مقابلہ کرنے کیلئے افغان سرزمین پر طالبان جیسے گروپوں کی حمایت کی، امریکہ اور اتحادی ہمارے خدشات کو نہ سمجھ سکے تو مجبوراً ان گروپوں پر انحصار کرنا پڑا،آرمی چیف سمیت فوج نے درپردہ میرا ساتھ دیا ہے، امریکی جریدے کوانٹرویو

جمعرات 26 فروری 2015 09:34

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 26فروری۔2015ء) سابق صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ افغان حکومت اگر امن چاہتی ہے تو وہ طالبان کو اقتدار میں شریک اور افغانستان میں بھارتی اثرورسوخ کو روکے،پاکستان نے بھارت کا مقابلہ کرنے کیلئے افغان سرزمین پر طالبان جیسے گروپوں کی حمایت کی،کیونکہ امریکہ اور اتحادی ہمارے خدشات کو نہیں سمجھ سکے،آرمی چیف سمیت فوج نے درپردہ میرا ساتھ دیا ہے۔

امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ افغان صدر اشرف غنی کی آمد سے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مفاہمتی کا ایک نیا موقع ملا ہے اشرف غنی متوازن شخص ہیں اور میرے خیال میں وہ ایک بڑی امید ہیں پاکستان اور بھارت دونوں کو چاہیے کہ وہ افغانستان میں ایک دوسرے کیخلاف پراکسی وار بند کردیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے دشمنوں کا افغان سرزمین پر مقابلہ کرنا ہوتا ہے اگر کوئی ہمارا دشمن ہے تو ہم یقیناً اس کا مقابلہ کرینگے اس مقصد کیلئے طالبان اور دیگر عسکری گروپوں کی افزائش میں پاکستان کا کردار موجود تھا ۔

اس ضمن میں جب دفتر خارجہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کسی تبصرے سے گریز کیا جبکہ بھارتی وزارت امور خارجہ کے ترجمان سید اکبر الدین نے کہا کہ یہ صحرا کی آوازیں ہیں جن کا جواب دینے کی ضرورت نہیں یہ آوازیں صرف میڈیا میں جگہ بنانے کیلئے دی جاتی ہیں ۔ پرویز مشرف نے کہا کہ دنیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم ملا عمر کا چہرہ پسند نہیں کرتے لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ ان کے دور میں افغان عوام کی زندگی کیسی تھی ۔

ہمیں پشتونوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا اگر طالبان امن چاہتے ہیں تو پھر انہیں صدر اشرف غنی کو اقتدار میں شریک کرنا ہوگا اور اس مقصد کیلئے طریقہ کار مرتب کیاجاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ افغان سرزمین پر بھارت جیسے دشمن کا مقابلہ کرنا ہماری مجبوری تھی پاکستان کا مفاد ہمیں سب سے پہلے عزیز ہے لیکن یہ ایساف کے مفاد میں تھا یا نہیں اس کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتا مشرف نے کہا کہ بھارت نے افغانستان کے اندر بلوچ علیحدگی پسندوں کو ہتھیار ، اسلحہ اور تربیت فراہم کی بلوچستان کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے اور یہ لوگ بلوچستان میں آکر طویل عرصہ سے مسلح تحریک چلا رہے ہیں امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان کی مجبوریوں کو نہیں سمجھ سکے جس سے پاکستان افغانستان میں دیگر عسکری گروپوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہوا تاکہ اپنے مفادات کا تحفظ کرسکے ۔

حقانی گروپ کے بارے میں پرویز مشرف نے کہا کہ وہ 1980ء کی دہائی کے بہترین جنگجو تھے اور وہ سوویت یونین کیخلاف جہاد کے دوران ہمارے چیمپئن بنے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں پرویز مشرف نے اعتراف کیا کہ موجودہ آرمی چیف سمیت فوج نے درپردہ رہ کر ان کی حمایت کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ مجھے جانتے ہیں اور تنہا نہیں چھوڑ سکتے میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ فوج میرے ساتھ نہیں ہوگی ۔