سپریم کورٹ نے پنجاب‘ سندھ اور کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد بارے حتمی شیڈول کے تحریری نوٹیفکیشن کی کاپیاں اور پانچ سال تک بلدیاتی انتخابات نہ کرانے بارے الیکشن کمیشن سے 24 گھنٹوں میں تحریری وضاحت طلب کرلی، ملکی حالات دیکھ کر سوچتا ہوں کہ مجھے اپنے گھر چلے جانا چاہئے‘ بلدیاتی نمائندے نہ ہونے سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے،جسٹس جواد ایس خواجہ ،بتایا جائے کہ وفاق اور صوبے کس کے آگے جوابدہ ہیں‘ لوگوں کا جینا اجیرن ہوچکا ‘ قانون میں سقم بھی ہو‘ وفاق اور صوبے نیا قانون نہ بھی بنائیں تب بھی الیکشن کمیشن پر یہ قرض ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات کرائے ‘ قانون پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے آج کے شہری تھرڈ کلاس شہری بن چکے ہیں‘ حکومت نے شہریوں کومال مویشی سے بھی کم درجہ دے رکھا ہے‘ حکومت اگر کہے کہ تمام یونین کونسلوں میں گدھوں اور مویشیوں کی گنتی کرنی ہے تب بھی انتخابات ہوں گے۔ ریمارکس ،مقدمے کی سماعت (آج) تک ملتوی، تمام تر نوٹیفکیشن طلب

بدھ 4 مارچ 2015 09:20

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔4 مارچ۔2015ء) سپریم کورٹ نے پنجاب‘ سندھ اور کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد بارے حتمی شیڈول کے تحریری نوٹیفکیشن کی کاپیاں اور پانچ سال تک بلدیاتی انتخابات نہ کرانے بارے الیکشن کمیشن سے 24 گھنٹوں میں تحریری وضاحت طلب کی ہے‘ تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے کہ ملکی حالات دیکھ کر سوچتا ہوں کہ مجھے اپنے گھر چلے جانا چاہئے‘ بلدیاتی نمائندے نہ ہونے سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے‘ بتایا جائے کہ وفاق اور صوبے کس کے آگے جوابدہ ہیں‘ لوگوں کا جینا اجیرن ہوچکا ہے‘ اس شہری کیلئے مرنے کا مقام ہے جو اپنی بچی کے داخلے کیلئے ب فارم بغیر پیسوں اور رشوت کے نہیں بنواسکتا‘ قانون میں سقم بھی ہو‘ وفاق اور صوبے نیا قانون نہ بھی بنائیں تب بھی الیکشن کمیشن پر یہ قرض ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات کرائے‘ الیکشن کمیشن واضح طور پر بتادے کہ کچھ بھی ہوجائے وہ بے بس ہے اور انتخابات نہیں کراسکتا‘ قانون پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے آج کے شہری تھرڈ کلاس شہری بن چکے ہیں‘ حکومت نے شہریوں کومال مویشی سے بھی کم درجہ دے رکھا ہے‘ حکومت اگر کہے کہ تمام یونین کونسلوں میں گدھوں اور مویشیوں کی گنتی کرنی ہے تب بھی انتخابات ہوں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز دئیے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ لوگ جائیں بھاڑ میں الیکشن نہیں کرانے‘ آئین کہتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات ہوں گے ان لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ آج ہم توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔ ایک ہی طریقہ بادل نخواستہ رہ گیا ہے۔ ہم تاریخیں دے دے کر تھک گئے‘ مزید احکامات نہیں اب کچھ اور ہی ہوگا۔ بتادیں کہ آئین کو بالائے طاق رکھا جاسکتا ہے یا نہیں‘ تو چل میں گیا‘ یہ ہوگیا وہ ہوگیا‘ اگر اب انتخابات نہیں ہوں گے تو اگلے دس سال بعد بھی الیکشن نہیں ہوں گے۔

الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکیشن کرائے۔ ساری کی ساری سیفٹی کمیشن اور کمیٹیاں غیر فعال ہیں کیونکہ بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جائیں۔ سکول ٹیچر نے خط لکھا ہے اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہائیکورٹ کے فیصلے کی وجہ سے انتخابات میں بھی تاخیر ہوئی ہے۔ جسٹس جواد نے اکرم شیخ سے پوچھا کہ انہوں نے ایک خط پڑھا ہے۔ یہ خط بلند آواز میں پڑھیں‘ آپ سمیت ہم سب اللہ کے حضور معافی کے خواستگار ہیں کہ ملک میں کیا ہورہا ہے۔

اکرم شیخ نے خط پڑھ کر سنایا کہ سکول ٹیچرز (ب) فارم منگواتے ہیں یونین کونسلوں کے دفاتر کا یہ حال ہے کہ افسران پانچ ہزار روپے رشوت مانگتے ہیں اور جو لوگ رشوت نہیں دے سکتے وہ سارا دن خواری کرکے گھر چلے جاتے ہیں۔ بلدیاتی نمائندے نہ ہونے کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے۔ گریڈ 17 کے افسر تلاش کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم تو کوشش کررہے ہیں ہم تو نامراد رہے ہیں آج بتادیں تاکہ ہم آرڈر جاری کرسکیں۔

اکرم شیخ نے کہا کہ آپ معاونت کریں کہ ہم کیا حکم جاری کریں۔ وفاق اور چاروں صوبے کس کے آگے جوابدہ ہیں۔ اس طرح کے ناجانے کتنے خطوط مجھے آتے ہیں۔ لوگوں کا جینا اجیرن ہوگیا ہے۔ بظاہر چھوٹی چیز ہے مگر اس ٹیچر کیلئے مرنے کا مقام ہے۔ وہ کہاں سے فارم تصدیق کروائے اور کس کے پاس جائے۔ اپنے کونسلر کی مدد سے ہی وہ کام کراسکے گا مگر اب وہ تو ہیں نہیں کس سے مدد حاصل کرے‘ پانچ سال ہوگئے کوئی احساس کرنے کو تیار نہیں۔

خواجہ حارث کہتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے پولیس کیخلاف شکایات پڑی ہیں‘ سیفٹی کمیشن غیر فعال اور ناکارہ ہیں۔ کراچی میں اربوں روپے کی پراپرٹی بیثی جارہی ہے۔ سانگھڑ کا کیس بھی موجود ہے۔ بلدیاتی ادارے نہیں ہیں کہ 750 ارب روپے وصول کرکے اپنے حلقوں میں خرچ کئے جاسکیں۔ جس ضلع میں گیس اور تیل برآمد ہوا ہے اس ضلع کے لوگ بھوکے بھی مر رہے ہیں اور پانی کے ذخائر بھی آلودہ ہیں۔

بعض اوقات میں سوچتا ہوں کہ مجھے ان حالات میں گھر چلے جانا چاہئے۔ اکرم شیخ نے کہاکہ 2014ء میں سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے فیصلہ دیا تھا ہم تو چاہتے ہیں کہ الیکشن ہوں۔ الیکشن کمیشن کو جو مشکلات درپیش ہیں وہ اس میں درج کی گئی ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل پر فیصلہ دیا گیا تھا۔ حلقہ بندیاں نہیں کرائی گئیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ دیکھ لیں ہمارا آئین یہ نہیں کہتا۔

اکرم شیخ نے کہا کہ آپ کو اپنے فیصلے پر نظرثانی یا ری وزٹ کرنا ہوگا۔ آئینی پروویژنز قابل عمل نہیں ہیں اس کیلئے نیا قانون بنانا پڑے گا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ آئین تو بظاہر کچھ اور ہی کہتا ہے اس حوالے سے سابق چیف جسٹس اور دیگر ججز سے معذرت کیساتھ کہوں گا۔ اکرم شیخ نے کہا کہ اگر آپ نے اس معاملے کو ری وزٹ کرنا ہے تو اس کیلئے چار ججوں سے زائد ججز پر مشتمل لارجر بنچ قائم کرنا ہوگا۔

جب آپ الیکشن کمیشن کو نئی ہدایات جاری کریں گے آپ کی ہدایات پر مکمل عمل کردیا جائے گا۔ اس فیصلے میں صوبائی حکومتوں کو حلقہ بندیاں کرانے کا اختیار دیا گیا تھا اور الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کرنا تھا آپ اس فیصلے کو ری وزٹ کرسکتے ہیں۔ یہ عدالت کا کنونشن ہے اور ایسا کیا جانا غیرقانونی نہیں ہوگا۔ الیکشن کمیشن عدالت کے تمامتر احکامات پر عمل کرنے کا پابند ہے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ آئین پر عمل نہیں کرنا چاہتے۔ ہم نے جو آئینی آرٹیکلز 140 اے‘ 216‘ 217‘ 218 اور 219 کو پرکھا تھا اس فیصلے میں بتائیں اسکا کہاں ذکر ہے۔ اکرم شیخ نے کہا کہ پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے سیکشن 8 سے 10 آئین سے متصادم ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آرٹیکلز کا جائزہ نہیں لیا گیا اسلئے الیکشن کمیشن انتخابات کرانے کا پابند ہے۔

اگر کوئی سرکار قانون سازی نہیں کرتی یا قانون بناتی ہے جو آپ کیخلاف بھی ہو یا قانونی سقم بھی موجود ہو تب بھی الیکشن کرانے سے آپ کو کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر قانون ساز ادارے کہتے ہیں کہ یونین کونسلوں میں گدھوں اور مال مویشی کو گنا جائے اور سب کی تفصیل آئے تو تب الیکشن ہوں گے۔ یکے بعد دیگرے قانون سازی ہورہی ہے مگر اس حوالے سے چھان بین نہیں ہورہی۔

ایک قانون بناتے ہیں دوسرا اس سے بڑھ کر اور قانون بنادیتے ہیں۔ یہ لامتناہی سلسلہ ہے۔ عدالت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور عدالت کچھ نہیں کرسکتی۔ اس پر اکرم شیخ نے کہا کہ قیامت کا دن آگیا‘ ملاقات کا دن آتے آتے‘ اتنا بھی سلسلہ لامتناہی نہیں ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ ان آرٹیکلز کی موجودگی میں کیسے انتخابات کرانے سے انکار کرسکتے ہیں۔

ہمیں سمجھائیں کہ آپ الیکشن کرانے کے پابند نہیں ہیں۔ الیکیشن کمیشن کا یہ فرض ہے کہ وہ انتخابات کا انعقاد کرے۔ ضروری اقدامات کرکے انتخابات آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف طریقے سے کرائے جائیں گے۔ اکرم شیخ نے 218‘ 219 آرٹیکل پڑھ کر سنائے۔ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا فرض ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آپ قوم کا قرض 9 سال سے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں مگر فرض ادا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

بلدیاتی اور عام انتخابات اور ایوان بالا کے انتخابات کرانا الیکشن کمیشن پر فرض ہے۔ قوم کے 9 سال سے الیکشن کمیشن مقروض ہیں یہ قرض اتاریں۔ میرے ناتواں کندھے ہیں میں تو یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور ہمیں مامور کیا ہے۔ اللہ نے آپ کے ذریعے یہ کام کرانا ہے۔ اختیارات کا سرچشمہ عوام اب چشمے میں ڈوب رہے ہیں۔ ب فارم کیلئے بچی کی باپ کو پانچ ہزار روپے کی رشوت دینا پڑرہی ہے۔

ہم بے حسی کی انتہاء پر پہنچ چکے ہیں۔ اکرم شیخ نے کہاکہ بے بسی بے سبب نہیں غالب‘ کچھ ہے کہ جس کی پردہ داری ہے۔ اس پر جسٹس جواد نے کہاکہ پردہ داری نہ کریں واضح بات کریں۔ یہاں ذاتی باتیں نہیں چلیں گی۔ سینئر ممبر بار کے طور پر آپ کو اپنا فرض ادا کرنا ہے۔ مختصر طور پر بتادیں۔ جسٹس سرمد جلال نے کہا کہ 15 نومبر 2014ء کی تاریخ آپ کو مل چکی ہے اب آپ مزید کتنا وقت چاہتے ہیں۔

جسٹس جواد نے کہا کہ معاملہ دو صوبوں کا رہ گیا ہے۔ ایک نے مئی کی تاریخ دے دی ہے۔ سندھ اور پنجاب کا معاملہ ہے۔ بلوچستان اور کے پی کے میں تو نئی حکومتی آئی تھیں وہ اعتراض کرسکتے تھے اور وقت مانگ سکتے تھے‘ وقت وہ حکومت مانگ رہی ہیں جو پچھلے دس سالوں سے سندھ اور پنجاب میں حکومتیں کررہی ہیں۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہاکہ کون ہے جو یہ بلدیاتی انتخابات نہیں چاہتا اگر آپ نہیں بتاتے تو آپ اپنا فرض ادا نہیں کررہے۔

اکرم شیخ نے کہا کہ بات واضح کروں گا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اٹھارہ کروڑ عوام تو موجود نہیں ہیں مگر ان کی آنکھیں یہاں موجود ہیں۔ یہ قرض کی ادائیگی کیسے ہوگی۔ اکرم شیخ نے کہا کہ الیکشن کمیشن جانتا ہے کہ اس کے پاس اختیارات موجود ہیں مگر کچھ قوانین آڑے آرہے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اگر پچھلے 9 سال بھول بھی جائیں تو آگے پھر بھی 5 سال اور لگ گئے ہیں۔

اکرم شیخ نے کہا کہ 222 کے تحت حلقہ بندیاں ہونا ضروری ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ جتنی مرضی لفاظی کرلیں عمل خلاف ہوگا تو کیسے تسلیم کریں۔ آرٹیکل 2قطعی طور پر نہیں کہتا کہ آپ الیکشن نہیں کراسکتے۔ اکرم شیخ نے کہا کہ حلقہ بندیوں کا قانون اب مکمل ہوا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ آپ کا قرض ہے کہ بلدیاتی انتخابات کرانے ہیں‘ سمجھادیں کہ آپ کہتے ہیں کہ ذمہ داری تو اپ کی ہے جب تک وفاق اور صوبائی حکومتیں کچھ کر نہیں دیتیں وہ کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

اکرم شیخ نے کہا کہ کس صحراء‘ بیابان میں جاکر الیکشن کراؤں۔ حلقہ بندیاں کرانا ضروری ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ الیکشن کمیشن چین کی بانسری بجاکر آئینی آرٹیکلز سے روگردانی نہیں کرسکتا۔ پہلے بھی حلقہ بندیاں کی جاچکی ہیں۔ اگر حلقہ بندیاں نہیں ہوں گی تو آپ دس سال تک اس کا انتظار نہیں کرسکتے کہ اس کے بعد شہریوں کو حق دیں گے۔ شہریوں کیساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے پھر بھی وہ خود کو شہری سمجھتا ہے۔

یہ بیچارہ ٹیچر اسماعیل فرسٹ کلاس تو کیا تھرش کلاس شہری بھی نہیں ہے اور اگر اس کا پتہ موجود ہوتا تو رجسٹرار کے ذریعے خط کا جواب بھجواتا کہ وہ اب شہری نہیں ہے۔ اکرم شیخ نے کہا کہ پیشہ وارانہ طور پر آپ کی بات کو تسلیم کرتا ہوں۔ میں شیڈول جاری نہیں کرسکتا افسران نے جاری کرنا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ کی وضاحت قانون کے مطابق نہیں ہے۔

سندھ حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ لوکل باڈیز کا قانون بن چکا ہے۔ جسٹس جواد نے رزاق اے مرزا سے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کرانا ضروری ہیں۔ 24 فروری 2010ء سے بلدیاتی ادارے نہیں ہیں۔ سندھ میں 17 فروری 2010ء سے بلدیاتی ادارے نہیں ہیں۔ سندھ میں 17 فروری 2010ء میں بلدیاتی اداروں نے عرصہ مکمل کیا پانچ سال دس دن گزر چکے ہیں اور شیخ صاحب ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سندھ اور پنجاب نے قانون سازی نہیں کی اسلئے ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔

آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ لوگ جائیں بھاڑ میں اور کوئی شخص اس ملک کا شہری نہیں ہے۔ یہ شہری تو مال مویشی سے بھی نیچے ہیں۔ بیٹی کو تعلیم دلانی ہے مگر ب فارم نہیں مل رہا۔ اب اس کے پاس ب فارم کیلئے پانچ ہزار روپے ہوں تو تصدیق ہوگی۔ ہمیں بتایا جارہا ہے کہ صوبوں اور الیکشن کمیشن نے کچھ نہیں کرنا اور پانچ سال دس دن کا عرصہ ناکافی ہے۔ آپ آئینی کمانڈ سے باہر جارہے ہیں۔

آپ جائیں جاکر الیکشن شیڈول جاری کریں۔ حکومتون کا کام اب یہ رہ گیا ہے کہ وہ شہریوں کو بتلادیں کہ آپ غلط فہمی سے نکل آئیں اور شہری کہلانا چھوڑ دیں۔ اکرم شیخ نے بتایا کہ کے پی کے میں 6 اپریل 2015ء کو شیڈول جاری ہوگا۔ 8 جون 2015ء کو حلف برداری ہوگی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اور کتنا عرصہ چاہئے۔ 2010ء سے معاملہ زیر التواء پڑا ہے۔ شکر ہے کہ کے پی کے نے 2016ء نہیں کہا۔

ڈاکٹر شیرافگن نے بتایا کہ کے پی کے میں انتخابی معاملات شروع ہوچکے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہاکہ یہ کہاں سے شروع ہوچکا ہے اگر ایسا ہے تو نوٹیفکیشن دیں۔ شیرافگن نے کہا کہ 12 لاکھ ووٹرز کو ووٹر لسٹوں میں شامل کیا جارہا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم آپ کی عزت عوام تک ان کا حق پہنچانے تک ہی کریں گے۔ اگر وہ ہمیں نظر آتا تو ہمیں دیکھنا پڑے گا۔ بطور ادارہ دیکھیں گے کہ الیکشن کمیشن کا یہ مذاق کب تک چلے گا۔

ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں نوٹیفکیشن دکھائیں۔ الیکشن نہ کرانے کی وجہ بھی بتادیں۔ پنجاب میں نومبر کے شیڈول اور سندھ 2016ء بارے میں بھی بتادیں۔ یہ تمامتر نوٹیفکیشن ہمیں دیں۔ عدالت نے لوکل گورنمنٹ انتخابات کے مقدمے کی سماعت (آج) بدھ تک ملتوی کرتے ہوئے تمامتر نوٹیفکیشن طلب کرلئے۔