پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کرپٹ افراد کو سزا اور قومی خزانے کی لوٹ مار مچانے والوں کو عبرت کا نشان بنانے پر اختلافات کا شکار ،قوم کا پیسہ لوٹنے والے سرکاری افسران کسی رعایت کے مستحق نہیں ان سے لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لی جائے،شیخ رشید ،چیئرمین سید خورشید شاہ کرپٹ افراد کو معاف کرنے کے حق میں بیان دیتے رہے

بدھ 4 مارچ 2015 08:26

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔4 مارچ۔2015ء) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی(پی اے سی ) کرپٹ افراد کو سزا دینے اور قومی خزانے کی لوٹ مار مچانے والوں کو عبرت کا نشان بنانے پر اختلافات کا شکار ہوگئی ہے‘ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ممبر شیخ رشید نے کہا ہے کہ قوم کا پیسہ لوٹنے والے سرکاری افسران کسی رعایت کے مستحق نہیں ان سے لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لی جائے جبکہ پی اے سی کے چیئرمین سید خورشید شاہ کرپٹ افراد کو معاف کرنے کے حق میں بیان دیتے رہے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس گزشتہ روز پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا پارلیمنٹ ہاؤس میں خورشید ساہ کی صدارت میں ہوا جس میں شیخ رشید ‘ افضال رانا ‘ عبدالمنان‘ کاظم علی شاہ‘ کشور نعیمہ اور سردار جعفر لغاری اور جنید اقبال نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اجلاس میں وزارت صنعت و پیداوار کے مالی سال 2009-10 ء کے آڈٹ رپورٹ کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا نے بھی شرکت کی اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا کہ ایک سال میں وزارت صنعت و پیداوار میں چودہ ارب روپے کی مالی بدعنوانیوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔

آڈٹ رپورٹ کے مطابقوزارت صنعت وپیداوار کے اعلیٰ افسران کی طرف سے چھٹیوں کی مد میں 51 لاکھ روپے کی کرپشن کی گئی۔ آڈیٹر جنرل نے کہا کہ ان افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے اور لوٹی ہوئی رقم بھی واپس لی جائے۔ اس پر سید خورشید شاہ نے کہا کہ یہ پانچ سال پرانی بات ہے سرکاری افسران ریٹائر ہوگئے ہوں گے اب ان سے یہ لوٹی ہوئی رقم کیسے واپس ہوگی۔

اس پر عوامی لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور کشور نعیمہ نے سخت احتجاج کیا اور کہا کہ قومی دولت لوٹنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ آڈیٹر جنرل نے کہاکہ وزارت خزانہ نے بھی ان کو چھٹیوں کی مد میں سرکاری رقوم کو ہضم کرنے سے منع کر رکھا ہے لیکن اس کے باوجود وزارت صنعت و پیداوار کے ذیلی ادارہ انجینئر ڈویلپمنٹ بورڈ کے افسران نے 51 لاکھ روپے کی کرپشن کی ہے۔

ان کو سزا ملنی چاہیے۔ لیکن چیئرمین سید خورشید شاہ ملازمین کو معاف کرنے پر زور دیتے رہے اور سرکاری ملازمین پر درگزر کرنے کا درس دیتے رہے تاہم دوسرے ممبران کی طرف سے شدید تنقید کے بعد خورشید شاہ کرپٹ افراد کو تحفظ دینے میں ناکام ہوگئے اور یہ اہم پیرہ موخر کردیا گیا۔ شیخ رشید نے اس موقع پر کہا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کرپٹ افراد کو معاف کرنے کی غلط روایت اور نہ مثال قائم کرے۔

ہم پر پوری قوم انگلیاں اٹھائے گی۔ ہم کرپشن کو ٹھپہ لگانے کیلئے یہاں نہیں بیٹھے بلکہ کرپشن کو روکنے کیلئے یہاں بیٹے ہیں اور قومی خزانے کے ایک ایک روپے کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں ۔ سیکرٹری صنعت وپیدوار نے پی اے سی کو بتایا کہ انجینئرنگ بورڈ کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے اور اب تک انہوں نے کوئی نئی ایجادات نہیں کی۔شیخ رشید نے کہاکہ انجینئرنگ بورڈ قومی خزانے پر بوجھ ہے اس ادارے نے آج تک کوئی نیا پرزہ نہیں بنایا۔

لیکن سالانہ کروڑوں روپے قومی خزانے سے وصول کررہے ہیں۔ سیکرٹری پیداوار نے کہا کہ ملک کے اندر بہت جلد نئے پروزے بنانے شروع ہوجائیں گے انہوں نے کہا کہ گاڑیوں کے انجن اسی ملک میں بنتے ہیں یا پھر گاڑیوں کی باڈیز وہ بھی اسی ملک میں بن رہی ہیں۔ ایم این اے عبدالمنان نے کہا کہ پرانی گاڑیوں کی درآمد کی اجازت نہ دی گئی تو ملک کی چار بڑی آٹو کمپنیاں لوگوں کا خون چوس جائیں گی۔

اور اگر ہم نے اپنی پالیسیوں کو بہتر نہ کیا تو ملک خانہ جنگی میں چلا جائے گا۔ آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا نے کہا کہ وزارت خزانہ مقدس گائے نہیں ہے پی اے سی اس کو بھی اپنے اجلاس میں بلائے۔ اور ایک ہدایت جاری کرے کہ وہ قانون کے مطابق کام کرے اور وزارت کو غلط ہدایات نہ دے۔ پی اے سی نے انجینئرنگ بورڈ کے بجٹ میں رہ جانے والے فنڈز واپس قومی خزانے میں جمع کرانے کی ہدایت کی گئی اور بجٹ فنڈز پر بینکوں سے حاصل کیا گیا منافع بھی قومی خزانے میں جمع کرایا جائے۔

انجینئرنگ بورڈ کی بیورو کریسی نے چار کروڑ روپے کے فنڈز اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں جس پر آڈٹ نے اعتراض کیا تھا پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ہدایت کی کہ سیمینار کے نام پر آٹھ کروڑ روپے کے زائد فنڈز کی خورد بر د کی گئی رقم کی ریکوری کی جائے۔ ایکسپورٹ پراسیس زون نے پی اے سی کو بتایا کہ ہم سالانہ ساٹھ کروڑ روپے کما رہے ہیں۔ سندھ ریونیو سے ہم نے مزید دو سو ایکڑ زمین خریدی ہے ہم برآمدات کرنے والے اداروں سے ٹیکس وصول کرکے اپنی آمدنی میں اضافہ کرتے ہیں شیخ رشید نے کہا کہ ایکسپورٹ پراسیس زون کے پاس کل کتنے خالی پلاٹ بچے ہیں۔

چیئرمین نے بتایا کہ سیالکوٹ میں بجلی لوڈ شیڈنگ سے کئی صنتیں بند ہوچکی ہیں اور ایکسپورٹ زون میں صرف دو فیکٹریاں چل رہی ہیں۔ فیصل آباد اور سکھر میں ایکسپورٹ زون بنائے جارہے ہیں۔ کراچی کے ایکسپورٹ زون میں اب کوئی خالی پلاٹ باقی نہیں ہے۔ سیکرٹری پیدوار نے کہا کہ متعدد صنعتیں بند ہیں کراچی ایکسپورٹ زون میں صنعتی یونٹس کی تعداد 223 ہیں جن میں سے 25 یونٹ بند ہوئے ہیں۔

آڈٹ حکام نے وزارت پیداوار کے حوالے سے یہ ایک شکایت کی کہ وہ ہمیں دستاویزات فراہم نہیں کرتے۔ اور یہ کرپشن چھپانے کی وجہ سے ہے جس پر سیکرٹری پیداوار نے کہا کہ ہم آئندہ کیلئے کوئی دستاویزات آڈٹ حکام سے چھپانے کی کوشش نہی کریں گے۔ آڈٹ حکام نے بیرونی سرمایہ کاری کیلئے تعمیراتی کام میں بیس کروڑ روپے کی کرپشن کی نشاندہی کی ہے جس پر پی اے سی نے اس کی فوراً ریکوری کی ہدایت کی ہے۔

وزارت صنعت و پیداوار کے کرپٹ بیورو کریسی کے حوالے سے آڈٹ حکام نے کہا کہ برآمدات کے پانچ سالہ پروگرام میں انہوں نے چودہ ارب روپے کی ایکسپورٹ پراسس زون میں چودہ کروڑ روپے کی مالی بدعنوانیوں کی نشاندہی کی۔ جس پر پی اے سی نے کہا کہ اس رقم کی خورد برد واپس قومی خزانے میں جمع کرائی جائے اور اس حوالے سے آڈٹ حکام سے تصدیق کی سند بھی حاصل کی جائے۔

متعلقہ عنوان :