مسیحی برادری پر دہشت گردانہ حملے انتہائی افسوس ناک ہیں،چوہدری نثار علی خان،چند لوگوں نے قانون کو ہاتھ میں لیکر دہشت گردوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا ہے ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی ،فوج کو گلیوں اور محلوں میں نہیں بھیج سکتے،مجرم کا تعلق (ن) لیگ سے ہو یا ایم کیو ایم سے کارروائی ضرور ہو گی،نائن زیرو پر چھاپہ کے حوالے سے ایم کیو ایم کے خدشات د ور کریں گے ،صدر ،وزیر اعظم اور چیف جسٹس آف پاکستان کے علاوہ کسی سیاسی شخصیت کو سکیورٹی فراہم نہیں کی،اپنی حفاظت کیلئے 22 رینجرز اہلکاروں کو واپس بھیج دیا،برطانیہ سے معاہدے کے تحت 3 ملزموں کو لایا گیا جنہیں جیل سے فرار کرالیا گیا،وزارت داخلہ کے افسروں پرغیر ملکیوں کے ساتھ ملاقاتوں پر پابندی لگا دی گئی ہے،وزارت داخلہ کی حساس ترین فائلیں غائب کر دی گئیں ، ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کررہے ہیں ،ڈیڑھ سال میں کسی سیاسی شخصیت کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا اور نہ ہی سیاسی ،بیورو کریٹ ،ججز یا صحافیوں کی خفیہ نگرانی کی گئی،اسلام آباد پولیس نے وزرائے اعلیٰ ، وفاقی وزراء ،ججز اور ارکان اسمبلی ،صحافیوں اور وکلاء کے چالان کئے ، میری گاڑی کے 2 مرتبہ چالان کیا گیا، ،نادرا کے محکمہ کو منافع بخش ادارہ بنا دیا ہے ، ملک میں تمام پاسپورٹ آفس کو میرٹ پر کھولے جائیں گے،وزیر داخلہ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ

منگل 17 مارچ 2015 09:07

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔17 مارچ۔2015ء)وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ لاہور میں گرجا گھروں پر دہشت گردانہ حملے انتہائی افسوس ناک ہیں،دہشت گردوں نے قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے ،جن لوگوں نے قانون کو ہاتھ میں لیا ہے انہوں نے دہشت گردوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا ہے ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی ،برطانیہ کے ساتھ مجرموں کی حوالگی کا طے پایا تھا جو تاحال معطل ہے ، معاہدے کے تحت برطانیہ سے 3 ملزموں کو پاکستان لایا گیا اور ہماری وزارت کے سیکشن افسر نے جیل سے فرار کرایا ،وزارت کے افسروں پرغیر ملکیوں کے ساتھ ملاقاتوں پر پابندی لگا دی ہے،وزارت داخلہ کی حساس ترین فائلیں غائب کر دی گئیں جس کے بعد محکمہ داخلہ کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کررہے ہیں ،وزارت کے غیر ملکی دووں پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی ہے ،صدر ،وزیر اعظم اور چیف جسٹس آف پاکستان کے علاوہ کسی سیاسی شخصیت کو سکیورٹی فراہم نہیں کی ،اپنی حفاظت کیلئے 22 رینجرز اہلکاروں کو واپس بھیج دیا،ڈیڑھ سال میں کسی سیاسی شخصیت کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا اور نہ ہی سیاسی ،بیورو کریٹ ،ججز یا صحافیوں کی خفیہ نگرانی نہیں کی گئی ،،اسلام آباد پولیس نے وزرائے اعلیٰ ، وفاقی وزراء ،ججز اور ارکان اسمبلی ،صحافیوں اور وکلاء کے چالان کئے اور میری گاڑی کے 2 مرتبہ چالان کیا گیا،پاسپورٹ کی معیاد 5 سال سے بڑھا کر10 سال کر دی گئی ہے ،2 ہزار سرکاری بلیو پاسپورٹ کو منسوخ کیا،ان بلیو پاسپورٹس کو انسانی سمگلنگ میں استعمال کیا جارہا تھا ،نادرا کے محکمہ کو منافع بخش ادارہ بنا دیا ہے ، ملک میں تمام پاسپورٹ آفس کو میرٹ پر کھولے جائیں گے ۔

(جاری ہے)

پیر کے روز رانا شمیم کی زیر صدارت قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس ہوا ۔اجلاس میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو اپنی وزارت کی کارکردگی پر بریفنگ دی ۔وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ لاہور میں مسیحی برادری پر حملہ انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے، دہشت گردوں کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے، دہشت گردوں کی زمین تنگ کر دی گئی ہے،دہشت گردوں نے قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے ، جن لوگوں نے قانون ہاتھ میں لیا انہوں نے دہشت گردوں کا ایجنڈا آگے بڑھایا ہے،ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی ، سرکاری املاک کو توڑ پھوڑ دہشت گردوں کا ایجنڈا ہے،کوئی بھی واقعہ ہو ہمیں قومی اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے ،انہوں نے کہا کہ دہشت گرد آسان اہداف کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جب ہم نے حکومت سنبھالی ہے اس ٹائم دن میں کئی دھماکے ہوتے تھے ،دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی نہیں لیکن اب حالات میں بہت بہتری آئی ہے، ڈیڑھ سال میں متعدد اہم اہداف حاصل کئے ہیں ، انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ لڑنا آسان کام نہیں ہے ، گزشتہ 13 سالوں سے دہشت گردی کی جنگ لڑ رہے ہیں، قومی مفادات پر سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھ دیئے ہیں، دہشت گردوں کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے ۔

چوہدری نثار نے کہا کہ برطانیہ کے ساتھ مجرموں کی حوالگی کا معاہدہ طے پایا تھا،معاہدے کے تحت 2 ملزموں کو پاکستان لایا گیا تھا جن میں دونو ں ملزموں کو جیل کے اندر ہی فرار کرا لیا گیا تھا اور ان قیدیوں کو فرار کرانے میں ہماری وزارت کے سیشن آفیسر ملوث تھا جس کے بعد وزارت کے افسران پر غیر ملکیوں سے ملاقاتوں پر پابند لگا دی ،برطانیہ کے ساتھ مجرموں کی حوالگی کا معاملہ معطل ہے،ایک ملزم دبئی اور دسورا ایکواڈور سے پکڑا گیا ہے ،چند دنوں میں مجرموں کو واپس پاکستان لے آئیں گے ۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ جب وزارت سنبھالی تو حساس ترین واقعات کی فائلیں غائب تھیں ،محکمہ داخلہ کا ریکارڈ انتہائی محفوظ ہونا چاہیے ،وزارت کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کئے بغیر قبلہ درست نہیں کیا جا سکتا ،وارت داخلہ کا ریکارڈ کمپیوٹرائز کررہے ہیں اور اس سلسلے میں گزشتہ8 ماہ سے کام جاری ہے ،اہم ترین فائلیں وزیر کے کہنے پر ادھر ادھر نہیں ہونی چاہئیں،جو لوگ بیرونی دورے پر جاتے تھے ان کی رپورٹ نہیں ہوتی تھی ،ہم نے سب سے پہلے اپنی وزارت کے غیر ملکی دوروں پر پابندی لگائی ۔

چوہدری نثار نے کہا کہ ہزاروں اہلکار لوگوں کی سکیورٹی پر معمور تھے ،جو ہٹا دیئے گئے ہیں ،رینجرز اور فوج کا کام قوم کی حفاظت ہے اس لئے رینجرز کو شخصیات کی حفاظت سے ہٹایا ،ای سی ایل میں نام ڈالنے کے لئے ادارتی نظام واضع کیا کسی سیاسی مخالف کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا ،صدر ،وزیر اعظم اور چیف جسٹس کے علاوہ سول آرمڈ فورس کسی کو سکیورٹی نہیں دی بلکہ اپنی حفاظت پر معمور 22 رینجرز اہلکاروں کو بھی واپس بھیج دیا ،ڈیڑھ سال میں آئی بی ،آئی ایس آئی کو کسی شخص کی نگرانی کا نہیں کہا اور نہ ہی میڈیا پرسن ،سیاسی ،بیورو کریٹ یا ججز کے فون ریکارڈنگ نہیں کی گئی ،سکیورٹی اور بلٹ پروف گاڑیوں کیلئے پالیسی وضع کررہے ہیں،سیکرٹری انفارمیشن اور ٹیکنالوجی اور نادراسے مل کر کام کررہے ہیں،اسلام آباد پولیس نے وزرائے اعلیٰ ، وفاقی وزراء ،ججز اور ارکان اسمبلی ،صحافیوں اور وکلاء کے چالان کئے اور میری گاڑی کے 2 مرتبہ چالان کیا گیا۔

چوہدری نثار نے کہا کہ وزارت سنبھالی تو اس وقت 6 ماہ میں پاسپورٹ ملتا تھا،کئی ماہ سے زیر التواء 5 ہزار پاسپورٹ 2 ماہ میں جاری کئے جبکہ 2 ہزار سے سرکاری پاسپورٹ کو منسوخ کیا،پاسپورٹ کی معیاد 5 سال سے بڑھا کر 10 کردی ہے ،حکومت سنبھالتے ہی اسلحہ لائسنس کے اجراء پر مکمل طور پر پابندی لگادی ہے، ماضی میں 70 ہزار ممنوعہ اسلحہ لائسنس جاری ہوئے تھے اور ماضی میں بلیو سرکاری پاسپورٹ انسانی سمگلنگ میں استعمال ہوتے رہے،ہماری حکومت سے قبل نادرا کا محکمہ خسارے میں تھا اور اب نادرا محکمہ کو منافع بخش ادارہ بنا دیا ہے ،ملک میں تمام پاسپورٹ آفس میرٹ پر کھولے جائیں گے ،پاسپورٹ پروڈکشن 40 ہزار تک پہنچ چکی ہے ،انہوں نے کہا کہ ملک میں13 کروڑ سے زائد موبائل سمیں غیر قانونی طور پر استعمال ہو رہی تھیں جنہیں تصدیق شدہ کرنے کا طریقہ کار وضع کیا ،افغانستان سے بھی رومنگ کے ذریعے سمیں پاکستان کی حدود میں استعمال ہو رہی تھیں اب سرحدی علاقوں میں افغانستان کی سمیں پاکستان میں استعمال نہیں ہو سکتیں ۔

بریفنگ کے بعد ایم کیو ایم کے رہنما آصف حسنین نے وزیر داخلہ سے سوالات کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں آج بھی سیاست دانوں کے فون ریکارڈ ہو رہے ہیں ،کراچی میں جاری آپریشن کی مانیٹرنگ کا کوئی انتظام نہیں ہے، کوئی غلط کام کرتا ہے چاہیے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو کارروائی ہونی چاہیے ،انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی پر تحقیقات ہونی چاہیے، کراچی کی صورت حال انتہائی تشویشناک ہے، کرپشن کے کئی کیس ایسے ہیں جس میں کوئی پیش رفت نہیں کی جارہی ہے ،انہوں نے وزیر داخلہ سے مطالبہ کیا کہ نائن زیرو پر چھاپے کی تحقیقات ہونی چاہیے ،انہونے کہا کہ نائن زیرو پر چھاپے کے دوران خواتین کو گالیاں دی گئیں،ہمارے ساتھ سکیورٹی اہلکاروں کا توہین آمیز رویہ تھا ہم نے ہمیشہ فوج اور رینجرز کی حمایت کی ہے اور اب بھی کرتے ہیں لیکن ہمارے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے جس کی تحقیقات ضروری ہیں ۔

جس پر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے تحفظات کو دور کیا جائے گا اور خواتین کو گولیاں دینے کے حوالے سے تحقیقا ت کی جائیں گی ،انہوں نے کہا کہ مجرم کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو بلاتفریق کارروائی ہوگی ، مجرم کا تعلق ن لیگ سے ہو یا ایم کیو ایم سے وہ مجرم ہی ہے،آصف حسنین جو بھی خدشات ظاہر کئے ہیں ان کی تحقیقات کرائیں گے، انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے فوج کو کراچی کے حوالے کرنے کا کہا تھا ،ہم فوج اور رینجرز کو شہر اورگلیوں میں نہیں بھیج سکتے، وزیر داخلہ نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتو ں کی مشاورت سے کراچی میں آپریشن شروع کیا گیا اور اس حوالے سے فاروق ستار نے پریس کانفرنس کی تھی جس کے بعد کراچی میں آپریشن شروع کیا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے بعض اوقات خدشات درست ہوتے ہیں اس حوالے سے سندھ حکومت سے رابطہ کریں گے اور ایم کیو ایم کے خدشات دور کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ رینجرز میں زیادہ تر فوجی افسران شامل ہیں