افغان صدر کی امریکا میں سرکردہ فوجی حکام سے ملاقاتیں ، افغانستان میں امریکی فوجیوں کی خدمات پر اظہار تشکر ،افغانستان مستقبل میں امریکا پر قطعاً بوجھ نہیں بنے گا، اب افغان عوام اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں شرکت و عالمی سطح پر بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں،اشرف غنی ،طالبان سے براہِ راست مذاکرات کرنا ہوں گے، افغان صدر ،امن مذاکرات کے لیے افغانستان میں سازگار ماحول تشکیل دینا بطور میر ی ذمہ داری ،اس کیلئے قومی اتحاد اور یکجتہی ضروری ہے،اشرف غنی کا امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو

منگل 24 مارچ 2015 10:24

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔24 مارچ۔2015ء) افغان صدر اشرف غنی نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران پیر کے روز امریکی فوج اور پینٹاگون کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ایک تقریب میں شرکت کی۔ اِس موقع پر غنی نے افغانستان میں امریکی فوجیوں کی خدمات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے واضح کیا کہ اْن کا ملک مستقبل میں امریکا پر قطعاً بوجھ نہیں بنے گا۔ افغان صدر کے مطابق اب افغان عوام اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔

پینٹاگون کے احاطے میں منعقدہ تقریب میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری، خفیہ ادارے سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برینن، وزیر دفاع ایشٹن کارٹر اور دوسرے اعلٰی حکومتی عہدے دار بھی شریک تھے۔ اشرف غنی اور افغان حکومت کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ آج کل امریکا کے ایک چار روزہ دورے پر ہیں۔

(جاری ہے)

ادھرافغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے ان کی حکومت کو متحارب دھڑوں کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرنا ہوں گے۔

اپنے دورہ امریکہ کے آغاز پر ایک انٹرویو میں افغان صدر نے کہا ہے کہ بلواسطہ امن مذاکرات افغان معاشرے میں شکوک و شبہات کو جنم دیں گے جس کے نتیجے میں قومی یکجتہی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ امن مذاکرات کے لیے افغانستان میں سازگار ماحول تشکیل دینا بطور صدر ان کی ذمہ داری ہے جس کے لیے قومی اتحاد اور یکجتہی ضروری ہے۔پیر کو واشنگٹن میں 'وائس آف امریکہ' کی 'پشتو سروس' کے ساتھ گفتگو میں افغان صدر کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں کوئی بھی غلط قدم یا سوچ مجوزہ امن مذاکرات کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اور اسی لیے وہ مذاکرات کے آغاز کی جانب بہت محتاط انداز میں پیش رفت کر رہے ہیں۔

صدر غنی نے کہا کہ ان کے پیش رو حامد کرزئی نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے بہت کوششیں کی تھیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے پاکستان کے 26 دورے کیے تھے۔ لیکن، صدر غنی کے بقول، باوجود کوشش کے وہ مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا نہیں کرسکے۔انہوں نے کہا کہ ان کے دورِ حکومت میں حالات تبدیل ہوئے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ امن مذاکرات کے لیے ان کی حکومت کی حکمتِ عملی کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

ایک سوال کے جواب میں افغان صدر نے واضح کیا کہ ان کی حکومت نے پاکستان کے ساتھ 'ڈیورنڈ لائن' کا مسئلہ نہیں اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ 'ڈیورنڈلائن' کا معاملہ ان کے نہیں بلکہ افغان پارلیمان (لویہ جرگہ) کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد 'ڈیورنڈ لائن' کہلاتی ہے جس کا تعین بیسویں صدی کے اواخر میں برِ صغیر کے انگریز حکمرانوں نے کیا تھا۔

افغان حکومت اس سرحد کو تسلیم نہیں کرتی اور پاکستان کے قیام کے بعد سے ہی یہ سرحدی تنازع دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ رہا ہے۔صدر اشرف غنی نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ روابط کا مقصد خطے کے امن، استحکام اور ترقی کے لیے باہمی تعاون اور رابطے بڑھانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملک مشترکہ خطرات کے مقابلے اور دستیاب مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی ترتیب دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

افغان صدر کا کہنا تھا کہ امریکہ اور افغانستان کے مفادات اور انہیں لاحق خطرات مشترک ہیں اور دونوں ملکوں کو اس طرح کاتعاون اور رابطے بڑھانے ہوں گے جس کے نتیجے میں نہ صرف افغانستان کے قومی مفادات پورے ہوں بلکہ خطے میں امریکی مفادات کا بھی تحفظ ہوسکے۔انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت امریکہ کے علاوہ چین، عرب اور مسلم دنیا کے ساتھ بھی تعلقات کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے۔صدر اشرف غنی کے ہمراہ افغانستان کی اتحادی حکومت کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ بھی امریکہ کے ایک ہفتہ طویل دورے پر ہیں۔ دونوں رہنماؤ ں کی آج منگل کو امریکی صدر براک اوباما سے ملاقات طے ہے جب کہ بدھ کو افغان صدر امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔