حکومت یمن کی صورتحال پر پالیسی کے تعین کیلئے اے پی سی اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائے،ا پوزیشن جماعتوں کا مطالبہ ،خلیج کے تمام ممالک کا تحفظ انتہائی اہم ہے،مشرق وسطی کی صورتحال پر فیصلہ تمام جماعتیں کریں گی حکومت تمام معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرے،مشترکہ اجلاس کاا علامیہ جاری

جمعرات 2 اپریل 2015 03:27

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔2 اپریل۔2015ء)مختلف اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ اجلاس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ خلیج کے تمام ممالک کا تحفظ انتہائی اہم ہے ۔حکومت یمن کی صورتحال پر پالیسی کے تعین کے لئے آل پارٹیز کانفرنس اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائے ۔مشرق وسطی کی صورتحال پر فیصلہ تمام جماعتیں کریں گی حکومت تمام معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرے ۔

یہ اعلامیہ بدھ کو پیپلزپارٹی میڈیا سیل میں پاکستان پیپلزپارٹی کی نائب صد ر شیر ی رحمان نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں پڑھ کر سنایا ۔ پریس کانفرنس میں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری،عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفند یارولی خان،متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار،جمعیت علمائے اسلام ف کے راشد محمود سومرو اور دیگر رہنما بھی موجود تھے ۔

(جاری ہے)

شیر ی رحمان کا کہنا تھا کہ آصف علی زردراری کی صدارت میں مختلف اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہوا جس میں یمن کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیاہے ۔حکومت یمن کے معاملے پر سیاسی قوتوں اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کرے ۔ اس موقع پرصحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا کہ تحریک انصاف کو ساتھ رکھنا چاہتے ہیں اورہر فیصلے پر ان سے مشاورت کرنا چاہتے ہیں اب ان کی مرضی ہے کہ وہ آئیں یا نہیں۔

پیپلزپارٹی نے ہمیشہ ڈائیلاگ کی بات کی ہے ہم حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ہوں ہر مسئلے کا حل بات چیت کے ذریعے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔یمن کے مسئلے پر باعث خطے کا استحکام خطرے میں ہے ۔عالم اسلام میں آگ لگی ہوئی ہے اس معاملے کو حل کرنے کیلئے سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ، انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں 15 لاکھ اور گلف میں 3 لاکھ پاکستانی ہیں ۔

ان پاکستانیوں کے علاوہ خطے کی سالمیت کے لئے سب کو مذاکرات کی میز پر بٹھانا ہوگا۔سابق صدر نے کہا کہ پاکستان کو اس معاملے کے پائیداراور پرامن حل کے لئے کسی بھی حد تک جانا پڑے وہ جائے تاکہ یہ معاملہ حل ہوسکے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میاں نوازشریف کبھی خودانہیں فون نہیں کرتے اورہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہمیں اہمیت دی جائے تمام جماعتوں کی اپنی اہمیت ہوتی ہیں اگر کسی بھی معاملے پر ہم ضرورت سمجھتے ہیں تو خود قدم بڑھاتے ہیں تاکہ مسائل کو پرامن طریقے سے حل کیا جاسکے ۔

انہوں نے کہا کہ یمن کے معاملے پر ابھی تک ہم سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ یمن کی صورتحال پر لوگوں کی بات سنی جائے ۔ایک اور پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب میں صدر تھا تو اس وقت سعودی عرب اور ایران کے مابین مسائل کے حل کے لئے ان کی حکومتوں سے بات ہوئی تھی تاہم صدارت کے عہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد پھر میری اس معاملے پر بات نہیں ہوئی۔

ایک صحافی نے سابق صدر سے پوچھا کہ کیا میاں صاحب آپ کو ہر معاملے پر فون کرکے مشورہ طلب کرتے ہیں جس پر انہوں نے کہا کہ آپ کو کون بتاتا ہے کہ وہ مجھے فون کرتے ہیں ، وہ مجھے فون نہیں کرتے ۔انہوں نے کہا کہ مشرق وسطی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے طویل المدت پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے ا ور حکومت کو اس حوالے سے مشاورت کرنی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان مشرق وسطیٰ میں مصالحتی کردار ادا کرے، یمن کے لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی بات سنی جائے جب کہ خطے کا استحکام خطرے میں ہے دیکھنا ہوگا کہ حالات کس طرف جاتے ہیں۔

اس موقع پر اسفند یارولی نے کہا کہ اگر ہماری جگہ کوئی بھی جنرل ہوتا تو وہ پہلے فیصلے کرلیتا لیکن اپنے پتے بعد میں شو کرتا ۔ہم نے اس معاملے پر مشاورت کی ہے صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں آئندہ کی پالیسی بھی مشاورت سے طے کریں گے۔اس موقع پر فاروق ستار نے کہا کہ یہ خطے کا نہیں بلکہ پوری عالم اسلام اور دنیا کا مسئلہ ہے پوری قوم کو یمن کی صورتحال پر تشویش ہے ۔

یمن کے مسئلے پر قومی پالیسی واضح ہونی چاہئے ۔خطے میں پائیدار امن کے لئے بامقصد اور پرامن کوششیں کرنا ہوگی۔پیپلزپارٹی نے تمام جماعتوں کو اکٹھا کرکے یمن کے معاملے پر مشاورت کی ہے یہ اچھا اقدام ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اس حوالے سے کیا کردار ادا کرتی ہے ۔حکومت کو چاہئے کہ وہ اس معاملے پر مشاورت سے پالیسی کا تعین کرے

متعلقہ عنوان :