سپریم کورٹ، فوجی عدالتوں کے قیام اور 18 ویں ترامیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت ،18 ویں ترمیم بنیادی آئینی ڈھانچے کو کیسے متاثر کرتی ہے،عدالت اسے کیسے کالعدم قرار دے سکتی ہے ، چیف جسٹس ناصر الملک کا سوال ،بنیادی آئینی ڈھانچے سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں کی جا سکتی ، جسٹس ثاقب نثار،عدالت میں امریکی نظام کا حوالہ دیا جا رہا ہے وہاں تو فوج سمیت سرکاری افسران کا تقرر پارلیمنٹ کرتی ہے ، جسٹس شیخ عظمت سعید کے ریمارکس ،اکرم شیخ اور سپریم کورٹ بار نے 18 ویں ترمیم کے خلاف درخواستیں واپس لے لیں ،سماعت آج دوبارہ ہو گی

منگل 28 اپریل 2015 08:28

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔28 اپریل۔2015ء) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں اور 18 ویں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران 17 رکنی فل کورٹ بینچ کے سربراہ چیف جسٹس پاکستان ناصر الملک نے سوال اٹھائے ہیں کہ 18 ویں ترمیم بنیادی آئینی ڈھانچے اور عدلیہ کی آزادی کو کس طرح سے متاثر کرتی ہے اور سپریم کورٹ اس کو کس طرح کالعدم قرار دے سکتی ہے ۔

جبکہ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے آئینی ترامیم کو مسترد نہیں کیا مگر عدلیہ کی آزادی پر بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ۔ 18 ویں ترمیم میں پہلی بار بنیادی آئینی ڈھانچے کو تسلیم کیا گیا ۔ آئینی شقوں کی وجہ سے پارلیمنٹ نے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ نہ صرف آئینی ڈھانچے کو بدل سکتی ہے بلکہ نیا ڈھانچہ بھی ترتیب دے سکتی ہے ۔

(جاری ہے)

پارلیمانی کمیٹی کا کوئی دائرہ کار ہونا چاہئے ۔ آئینی ترامیم پر بات کرنا اور بات ہے اور اس کے بارے اختیار سماعت رکھنا اور بات ہے ۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاکہ بنیادی آئینی ڈھانچے سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں کی جا سکتی جبکہ اعجاز افضل خان اور جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت میں امریکی نظام کا حوالہ دیا جا رہا ہے وہاں تو فوج سمیت تمام دفاتر میں افسران کا تقرر پارلیمنٹ کرتی ہے ہمارے ہاں صرف ججز کے تقرر میں امریکی نظام کو اختیار کرنا کہاں سے مناسب ہے جبکہ حامد خان نے دلائل میں موقف اختیار کیا ہے کہ 18 ویں ترمیم عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی تقسیم کے خلاف ہے جو بنیادی آئینی ڈھانچے کے لازمی جزو ہیں جن کا ذکر آرٹیکل 2 اے اور پارلیمانی کمیٹی کی 18 ویں ترمیم بارے مرتب کی گئی ۔

سفارشات میں بھی ذکر موجود ہے ۔ پہلے بنیادی آئینی ڈھانچے کے متصادم قانون کالعدم قرار دیا جا سکتا تھا اب یہ روایت بھی آ چکی ہے کہ آئینی ترمیم کو بھی کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے یہ دلائل پیر کے روز دیئے ہیں جبکہ اکرم شیخ اور سپریم کورٹ بار نے 18ویں ترمیم کے خلاف درخواستیں واپس لے لیں ۔ سپریم کورٹ نے ندیم احمد کے وکیل اکرم شیخ کی جانب سے 18 ویں ترمیم کے خلاف دائر درخواست واپس لے لی۔

عدالت نے درخواست واپس لینے کی بنا پر نمٹا دیا ۔ بعدازاں بیرسٹر ظفر اللہ نے دلائل کا آغاز کیا جن کو عدالت نے کہا کہ آپ کا کیس ساڑھے گیارہ بجے سنا جائے گا ۔ سپریم کورٹ بار کے وکیل حامد خان پیش ہوئے اور کہا کہ بعض معاملات پر تازہ ترین ہدایات حاصل کی جانی ہیں ۔ عاصمہ جہانگیر اس بارے بتائیں گی ۔ عاصمہ جہانگیر نے بتایا کہ ججز کے تقرر بارے آرٹیکلز سے مطمئن نہیں ہیں تمام تر تقرریاں چیف جسٹس پاکستان کرتے ہیں تاہم سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جاتی ہے اسی وجہ سے درخواست واپس لے لی ہے جو عدالت نے درخواست واپس لینے کی بنا پر نمٹا دی ۔

حامد خان نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے حوالے سے ابھی انہوں نے ہدایات حاصل کرنا ہیں جوڈیشل کمیشن میں دوبارہ سے تبدیلی لائی گئی ہے چیف جسٹس نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے حوالے سے کب ہدایات حاصل کریں گے ۔ حامد خان نے کہا کہ منگل کو ہدایات مل جائیں گی ۔ پاکستان لائرز فورم کی درخواست کی بھی سماعت کی گئی مگر درخواست گزار اے کے ڈوگر موجود نہ تھے ۔

سردار خان نیازی بنام فیڈڑیشن کیس میں درخواست گزار ذاتی طور پر پیش ہوئے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے کافی ساری ترامیم کو چیلنج کیا ہو اہے ۔ درخوات گزار نے بتایا کہ وہ 226 ، 63 اے اور 175 پر بات کریں گے ۔ وزیر اعظم اور وزراء اعلی کے انتخاب کے لئے سیکرٹ بیلٹ کا عوامی حق ختم کر دیا گیا ہے ۔ 63 کے تحت وزیر اعظم کسی بھی ایم این اے کو نکال سکتا ہے اس طرح سے میڈیا کو بھی خطرات لاحق ہیں یہ ڈکٹیٹر شپ کو متعارف کرانے کی کوشش ہے جو بھی ووٹ نہیں دے ۔

اس کو نکال دیا جاتا ہے ۔ اس پر پارلیمنٹ میں بحث نہیں کی گئی ممبر اسمبلی نہیں بول سکتا تو عام آدی کیسے بولے گا جسٹس جواد نے کہا کہ یہ تو ممبر اسمبلی کی بہادری کی بات ہے وہ بولے ، وہ جرات کر کے بولا کریں اگر وہ نہیں بولتا اس میں آئین کا کیا قصور ہے ؟ (4 ) 17 کے تحت سیاسی جماعتوں کے انتخابات نہ ہونا بھی غلط ہے ۔ پارٹی انتخابات کرانا چاہئے ۔

267 اے کی بھی بات کی ۔ عدالت نے کہا کہ کیا آپ کے پاس آئین کی کتاب ہے اس پر انہوں نے کہا کہ نہیں اس پر عدالت نے کہا کہ پھر آپ بحث کس بات کی کر رہے ہیں درخواست گزار نے کہا کہ دوتہائی کی بجائے سادہ اکثریت سے ترمیم کرین کی اجازت دی گئی ہے جسٹس جواد نے کہا کہ اس میں آئین ترمیم کی بات نہیں کی گئی ہے آپ کے تحفظات اپنی جگہ مگر آپ دلائل ایسے دیں کہ جس پر آپ کی بات ثابت ہو سکے ہو سکیں ۔

الجہاد ٹرسٹ کے سربراہ حبیب وہاب الخیری نے بھی دلائل دیئے اور کہا کہ 18 ویں ترمیم کی جملہ خامیوں بارے بتانا چاہتا ہوں ۔ سپریم کورٹ یہ طے کر چکی ہے اور سیلین فیچر کی بجائے بنیادی ڈھانچہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ 91 ، 175 سمیت تمام آرٹیکلز کو چیلنج کیا ہے آرٹیکل 218 ، 219 ، 224 میں انتخابات ، الیکشن ٹریبونل بارے میں ہیں ۔ 224 آرٹیکل کے تحت موجودہ حکومت کو ہی انتخابات کرانے کا کہا گیاہے آرٹیکل 267 آرٹیکل کے تحت موجودہ حکومت کو ہی انتخابات کرانے کا کہا گیا ہے آرٹیکل 267 کے تحت سادہ اکثریت سے قانون سازی کرنا آئین کی روح کے خلاف ہے ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ یہ ایک سال کے لئے تھا اس پر خیری نے کہا کہ اس کو 40 سال کے لئے کر دیا گیا ہے ۔ آرٹیکل 91 کے تحت تیسری بار وزیر اعظم بننے کی اجازت دی گئی ایک شخص کے لئے آئین میں ترمیم نہیں ہو سکتی اس کا مقصد نواز شریف کو فائدہ پہنچانا ہے ۔ پارٹی میں انتخابات ختم کرانے سے آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کو فائدہ دیا گیا ہے یہ ذاتی مفادات کے لئے ترمیم کی گئی ہے ایک ایک خاندان کو پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی ہے جس کی آئین اجازت نہیں دیتا ۔

آرٹیکل 62 میں ترمیم سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کو فائدہ پہنچایا گیا چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نام نہ لیں ۔ حبیب وہاب الخیری نے کہا کہ بی اے کی شرط ختم کر دی گئی اب کیا قانون سازی ان پڑھ لوگ کریں گے ۔ اس طرح کے معاملات میں تو قابل لوگ ہونے چاہئیں ۔ آئی ایس آئی میں سیاسی سیل موجود ہے اس پر عدالت نے کہا کہ آپ اپنی درخواست گزار کے مطابق دلائل دیں ۔

ڈسٹرکٹ بار سانگھڑ بنام فیڈریشن آف پاکستان کیس میں حامد خان پیش ہوئے کہ وہ پہلے ہی اس بارے با ت کر چکے ہیں ان کی درخواست پارلیمانی کمیٹی بارے ہے جس کا تعارف غلط ہے ۔ 21 نومبر 2010 کو جوڈیشل کمیشن میں تبدیلی لائی گئی ہے اور اس میں ججز کو شامل کیا گیا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 19 ویں ترمیم میں ججوں کی مستقلی بارے پارلیمانی کمیٹی کو کردار دیا گیا ہے اس سے آپ کی تسلی ہو گئی ہو گی ۔

جسٹس آصف سعیدف کھوسہ نے کہا کہ ہم نے عبوری حکم میں معاملہ وزیر اعظم کی طرف جان سے روک دیا تھا اور کہا تھا کہ ان کا اس میں کوئی کردار نہیں بنتا ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ تبدیلیاں انہیں بھی یاد ہیں ۔ حامد خان نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کو مسترد کرنے کے لئے پارلیمانی کمیٹی کو اس بارے وجوہات بھی بتانا تھیں حامد خان نے آرٹیکل 175 اے پر دلائل دیئے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آب آپ کے کیا تحفظات ہیں حامد خان نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن نے کیا سفارشات دیں اس بارے 19 ویں ترمیم میں سب کور ہو گیا ہے جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آپ پارلیمانی کمیٹی کے کردار پر تحفظات ہیں کیا آپ اس سے متاثرہ ہیں آپ نے ایک کتاب لکھی تھی ججز کے تقرر میں کیا پارلیمانی کمیٹی کو کردار ادا کرنا چاہئے ۔ حامد خان نے کہا کہ ہم نے کتاب میں جوڈیشل کمیشن کی بات کی تھی ۔

19 ممبر کمیٹی بنانے کی بات کی تھی ۔ 7 ججز 6 وکلاء اور 6 ارکان پارلیمنٹ کو شامل کیا جاتا اور یہ صرف ایک کمیٹی ہوئی مگر ادھر تو دو کمیٹیاں بنا دی گئی اور پارلیمانی کمیٹی کو جوڈیشل کمیشن کے فیصلے پر پہرے پر بٹھا دیا گیا ۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہم منے ایک مقدمے میں کہا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی کا دائرہ کار ہونا چاہئے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ کا کہنا یہ ہے کہ یہ ترمیم میں درست نہیں ہے ۔

پارلیمانی کمیٹی کو جوڈیشل کمیشن کے اوپر کردار نہیں دیا جانا چاہئے تھا ۔ اب پوزیشن تبدیل ہوچکی ہے چیف جسٹس نے کہا کہ جب پہلی بار یہ کیس سنا گیا تھا تو اس کو سننے والے بینچ میں سے صرف 6 ججز یہاں بیٹھے ہوئے تھے آپ کو سب کچھ شروع سے ہی بتانا پڑے گا اور تمام دلائل دوبارہ سے دینا ہوں گے ۔ حامد خان نے ازسرنو دلائل کا آغاز کیا اور آرٹیکل 175 اے پڑھ کر سنایا ۔

پارلیمانی کمیٹی کو 14 روز کے اندر جوڈیشل کمیشن کی سفارشات پر اکثریتی ووٹوں سے فیصلے کرنا ہوتا ہے اگر کمیٹی سفارشات سے مطمئن نہیں ہوئی تو وہ وجوہات لکھ کر وزیر اعظم کو ارسال کر دیتی ہے ۔ کمیٹی کا کردار اختیارات کی منصفانہ تقسیم اور عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے ۔ اور آئینی ڈھانچے کی بھی خلاف ورزی ہے جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اختیارات کی تقسیم اورعدلیہ کی آزادی آئین کے بنیادی خدوخال ہیں جن کی خلاف ورزی کی گئی ہے ۔

چیف جسٹس نے کہ اکہ اس ترمیم سے پارلیمنٹ کمیٹی کے اختیار سے عدلیہ کی آزادی کو کیا خطرہ ہے ؟ اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہ کیا جانا بہت اہم بات ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بھارت میں پہلی بار فیصلہ دیا گیا اور یہ ایک تاریخی بات ہے ۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ سپریم کورٹ آف انڈیا کو کسی بھی ترمیم کو ختم کرنے کا اختیار دیا گیا ۔

حامد خان نے کہا کہ آرٹیکل (5 )239 کے تحت پارلیمنٹ میں کی گئی کسی ترمیم کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا یہ 8 ویں ترمیم میں یہ سب کیا گیا تھا یہ اصل آرٹیکل نہیں ہے ۔ 1985 میں ترمیم کر دی گئی۔ کیسا ولندا کیس بھی بھارتی سپریم کورٹ نے پہلی بار پارلیمنٹ میں کی گئی ایک ترمیم کو مسترد کرتے ہوئے عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھا ۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ مقدمہ ہم جب بھی سنیں گے ڑساڑے 12 بجے ہی تک سمات ہوگی باقی مقدمات کی بھی سماعت کرنا ہے ۔

حامد خان نے آرٹیکل 239 پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا تھا کہ قومی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے جبکہ سینٹ نے اکثریت سے منظور کرنا ہونا تھا ۔ انہوں نے 368 آرٹیکل بھارتی آئین کا بھی پڑھ کر سنایا ۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے بتایا کہ عارف خلجی کے بیٹے نے کتاب لکھی جس میں انہوں نے بھارت ، پاکستان کے آئین کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ وہ بھی آپ کے لئے معاون ثابت ہو سکتی ہے ۔

حامد خان نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے دو اہم فیصلے دیئے ہیں جس میں کیسا ولندا اور اندرگاندھی کیس شامل ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ قانون بنانے والے اعلی عدلیہ کے رویوں سے شاکی تھے نارمل طور پر سپریم کورٹ بھارت آئین ترامیم میں مداخلت نہیں کرتا مگر عدلیہ کی آزادی کے معاملے پر انہوں نے سٹینڈ لیا ۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ بنیادی آئینی ڈھانچے سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی ۔

آئین نے قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کو دیا ہے کیا ہم ان کے خلاف جا سکتے ہیں ۔ حامد خان نے کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ یہ قانون سازی بنیادی آئینی خدوخال کے خلاف تو نہیں ہے جسٹس آصف سعید خان نے کہا کہ رضا ربانی نے 18 ویں ترمیم سے قبل بنیادی آئینی ڈھانچے کو تسلیم کیا تھا حامد خان نے پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ پڑھ کر سنائی ۔ آئینی ریفارمز کی کمیٹی نے جو رپورٹ تیار کی تھی یہ وہی رپورٹ آپ کو سنا رہا ہوں ۔

جس میں کمیٹی نے کہا ہے کہ عدلیہ کی آزادی بنیادی آئینی خدوخال میں سے ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ ان پر وویزنز کی وجہ سے پارلیمنٹ نے یہ تاثر پیدا کیا ہے کہ وہ بنیادی آئینی ڈھانچے کو نہ صرف بدل سکتی ہے بلکہ نیا ڈھانچہ بھی ترتیب دے سکتی ہے ۔ اسی وجہ سے تو درخواستیں آج ہمارے پاس زیر سماعت ہے ۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ آئین کا کوئی آرٹیکل بنیادی آئینی ڈھانچے کو تحفظ نہیں دیتا تاہم ہونے والی ترامیم سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنیادی ڈھانچہ موجود ہے ۔

حامد خان نے کہا کہ میثاق جمہوریت کی روشنی میں تمام تر ترامیم کی گئیں جو لندن کانفرنس کے ذریعے کی گئی تھی ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ایک طرف پارلمنٹیرین بنیادی آئینی ڈھانچے کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف اس کی خود خلاف ورزی بھی کر رہے ہیں حامد خان نے کہا کہ یہ انسانی غلطی بھی تو ہو سکتی ہے یہ کوئجی انسانی صحیقہ تو نہیں ہے کہ جس کو بدلا نہ جا سکے انہوں نے بہت سے آئین آرٹیکلز بھی بتائے جس میں اختیارات کی تقسیم اور عدلیہ کی آزادی کی بات کی گئی ہے آرٹیکل 2A میں بھی اس کی بات کی گئی ہے جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ بنیادی آئجینی ڈھانچہ موجود ہے جس کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے حامد خان نے کہا کہ بڑی تعداد میں ترامیم کا فیصلہ کیا گیا تھا مگر کئی بغیر کسی ہچکچاہٹ سے ختم کر دی گئیں ۔

ایک ہندو ممبر اسمبلی نے رائے دی تھی کہ ایسی ترمیم نہیں ہونی چاہئے کہ جو آمروں کے ہاتھ چڑھ جائے اور وہ اپنا مقاصد حاصل کریں ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ 1994 میں عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کیا جائے گا اس بارے کھوج لگایا تو پتہ چلا یہ لفط ایک مضمون سے لیا تھا ۔ بعدازاں یہ لفط الجہاد ٹرسٹ کیس میں بولا گیا تھا ۔ اس کیس کے بعد بہت کچھ منتقل کر دیا گیا اور 18 ویں ترمیم وجود میں آگئی ۔

تمام تر تقرریوں کا اختیار ایک شخص کے پاس آ گیا ۔ عدلیہ کی آزادی سے تحفظ میں ہو گی ۔ مکمل تحفظ ایک ہماری ویلیو ہے اس کو کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے آپ کہتے ہیں کہ پارلیمانی کمیٹی نہیں ہونی چاہئے ۔ امریکہ میں عدلیہ آزاد نہیں ہے وہاں تمام تر ججز کی تقرریاں سینٹ کی کمیٹی کرتی ہے ۔ ویلیو برقرار رہنی چاہئے اگر کوئی مینرز( آداب ) بدلتے ہیں تو بدلتے رہیں ۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ اعلی عدلیہ کے ججز کے تقرر یں مداخلت کے لئے کی ہم امریکی آئین کو بطور ادھار لے سکتے ہیں ۔ قائد حزب اختلاف کی جانے والی بحث کو بھی سامنے آنا چاہئے آپ پارلیمنٹ کے کردار کو چیلنج کر رہے ہیں یا صرف کمیٹی پارلیمانی کمیٹی کی بات کر رہے ہیں ۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ آپ اپنے موکل کی طرف سے کہہ رہے ہیں یا اپنی بات کر رہے ہیں ۔

حامد خان نے کہا کہ قانون یہ ہے کہ ہم کچھ نہ جانتے ہوں ۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ امریکہ میں فوجی افسران کا تقرر بھی پارلیمنٹ کرتی ہے یا ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں جسٹس جواد نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا امر یکہ میں تقرر سب سے زیادہ مشاورت کی گئی اور پچھلے تمام اٹارنی جنرل کی تقرری کے لئے کی گئی مشاورت پر اتنا وقت نہیں لگا تھا جو موجودہ کے تقرر پر لگایا گیا ۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر ہم نے امریکی نظام لاگو کرنا ہے تو پھر ہمیں تمام تر معاملات میں اپنی پسند نا پسند کو سامنے نہیں رکھنا چاہئے کیس کی مزید سماعت آج منگل تک ملتوی کر دی گئی ۔