جوڈیشل کمیشن میں سیکرٹری الیکشن کمیشن پرجرح مکمل ،سابق سیکرٹری آج طلب،الیکشن کمیشن نے تمام ریٹرننگ افسران سے فارم نمبر15طلب کرلیے ہیں ملتے ہی کمیشن میں جمع کروادیں گے ،فارم نمبر 14 ‘ 16 اور 17 موجود ہیں ،وکیل الیکشن کمیشن ،تحریری رپورٹ تیار کرنے میں سابق سیکرٹری مشورہ لیا نہ ہی الیکشن کمیشن کے کسی ممبر سے ملاقات کی ہے جواب قانونی ٹیم اور ڈی جی کی معاونت سے تیار کیا،بابر یعقوب

منگل 26 مئی 2015 06:43

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔26 مئی۔2015ء) عام انتخابات 2013میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن نے موجودہ سیکرٹری الیکشن کمیشن بابریعقوب ملک پرجرح مکمل ہونے پرسابق سیکرٹری اشتیاق احمدخان کوآج منگل کوجرح کے لیے طلب کرلیاہے الیکشن کمیشن کے وکیل سلمان اکرم راجانے کمیشن کوبتایاہے کہ الیکشن کمیشن نے تمام ریٹرننگ افسران سے فارم نمبر15طلب کرلیے ہیں ملتے ہی کمیشن کے روبروجمع کروادیں گے جبکہ فارم نمبر 14 ‘ 16 اور 17 موجود ہیں انھوں نے یہ جواب پی ٹی آئی کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ کی جانب سے فارموں کے حوالے سے اٹھائے گئے سوال کے جواب میں پیرکے روزدیاہے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن نے پیر کے روز کارروائی کا آغاز کیا تو اس دوران موجودہ سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب پیش ہوئے اور انہوں نے کمیشن کو بتایا کہ انہوں نے بطورسیکرٹری الیکشن کمیشن 2 اپریل 2015 ء کو عہدہ سنبھالا۔

(جاری ہے)

2013 ء کے انتخابات کے دوران وہ چیف سیکرٹری بلوچستان تھے۔ انکوائری کمیشن میں ان کے دستخطوں سے ہی جواب داخل کیا گیا۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کی نظر ثانی رپورٹ نہیں پڑھی۔ تحریری رپورٹ تیار کرنے میں سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن سے کوئی مشورہ نہیں لیا نہ ہی الیکشن کمیشن کے کسی ممبر سے ملاقات کی ہے۔ تحریری جواب الیکشن کمیشن کی قانونی ٹیم اور ڈی جی الیکشن کمیشن کی معاونت سے تیار کیا۔

پی ٹی آئی کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا کہ تحریک انصاف کے فارم 14 اور 15 طلب کرنے کیلئے کمیشن میں درخواست جمع کرادی ہے۔ الیکشن کمیشن کا جو بھی جواب ہو مگر اب یہ دستاویزات لوگوں کے سامنے آنی چاہئیں ۔ الیکشن کمیشن کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہم نے تمام متعلقہ ریٹرننگ افسران سے فارم نمبر 15 طلب کرلیا ہے جبکہ فارم نمبر 14 ‘ 16 اور 17 موجود ہیں۔

جیسے ہی فارم واپس آئیں گے کمیشن میں جواب داخل کردیں گے۔ ہم اپنے پاس کوئی بھی دستاویزات نہیں رکھتے اس پر کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ انہیں جواب داخل کرانے دیں پھر پی ٹی آئی کی درخواست پر کارروائی دیکھیں گے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیا کوئی دستاویز موجود ہے کہ جس کے مطابق یہ پتہ چل سکے کہ ان دستاویزات کو سیکرٹری الیکشن کمیشن نے وصول کیا۔

اس پر حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کا بیان اس سلسلے میں واضح ہے۔ سلمان اکرم نے کہا سیکشن چوالیس کے تحت تمام ریکارڈ بوریوں میں بند آتا ہے۔ جسے الیکشن کمیشن کے خزانے میں جمع کردیا جاتا ہے۔ اس پر موجودہ سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب فتح ملک سے سوالات کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ جس میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے کمیشن میں داخل کئے جانے والے بیان کو تفصیل سے پڑھا ہے تاہم 9 دسمبر 2013 ء کو الیکشن کے بعد جاری ہونے والی رپورٹ نہیں پڑھی۔

حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ کمیشن میں داخل کیا گیا جواب کیا آپ کا ذاتی ہے یا الیکشن کمیشن کی طرف سے ہے۔ اس پر گواہ نے کہا ای سی پی کی طرف سے ہے۔ حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ کیا آپ نے صوبائی الیکشن کمیشنر سے بھی مشاورت کی اس پر گواہ نے کہا میری کسی سے کوئی مشاورت نہیں ہوئی۔ پیرزادہ نے کہا کیا آپ 2013 ء کے پولنگ سکیم سے آگاہ تھے۔ اس پر اس نے کہا میرا خیال ہے کہ پولنگ سکیم صوبائی الیکشن کمشن نے یہ سکیم تیار کی تھی۔

پیرزادہ نے کہا کیا آپ کو معلوم ہے کہ رقبے کے حساب سے این اے 271 خاران سب سے بڑا حلقہ ہے اس پر بابر نے کہا 271 این اے بڑے حلقوں میں شمار ہوتا ہے۔ کیا یہ درست ہے کہ یہ حلقہ پشین سے ایران تک جاتا ہے۔ پیرزادہ کے اس سوال کے جواب میں بابر نے کہا نہیں ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بیلٹ پیپر کی چھپائی کیلئے ان سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ بلوچستان حکومت نے بیلٹ پیپرز کی ترسیل کی تھی اور یہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے کی گئی ہمیں اطلاعات تھیں کہ انتخابات میں روڑے اٹکائے جانے والے ہیں اور مسائل پیدا ہوسکتے ہیں تو اس پر ہم نے ہیلی کاپٹر استعمال کیا ۔

مجھے بیلٹ پیپرز کی تعداد بارے نہیں معلوم مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ سو فیصد سے زائد بیلٹ پیپرز کی چھپائی کی گئی۔ 42 فیصد کے قریب ٹرن آؤٹ رہا ہے۔ 2008 ء کے عام انتخابات میں اختر مینگل پختونخواہ ملی عوامی پارٹی‘ بلوچستان نیشنل پارٹی‘ بی این پی عوامی نے چنگیز مری ‘ علی بھگٹی دیگر رہنماؤں نے حصہ نہیں لیا تھا تاہم ان انتخابات میں تمام پارٹیوں نے حصہ لیا۔

مجھے شکایات کا تو باقاعدہ یاد نہیں تاہم شکایات دائر کی گئی تھیں۔ مجھے یاد نہیں کہ کوئی ایسی شکایت کی گئی ہو کہ جس میں کہاگیا ہو کہ اس حلقے میں پولنگ نہیں ہوئی۔ مجھے ایسے کسی قانون کا بھی پتہ نہیں تاہم اگر قانون کاپیاں فراہم کرنے کی اجازت دیتا ہے تو ہم کریں گے۔ پیرزادہ کی جرح مکمل ہونے پر بی این پی عوامی کے وکیل شاہ خاور نے جرح کا آغاز کیا اور انہوں نے پوچھا کہ آپ کب تعینات کئے گئے تو بابر نے بتایا کہ مارچ 2002 ء سے وہ چیف سیکرٹری تعینات ہوئے۔

بطور چیف سیکرٹری میرا کوئی کنٹرول ایف سی پر نہیں تھا۔ ایف سی کو وفاقی حکومت کنٹرول کرتی ہے۔ مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے کسی وزیر پر کوئٹہ کی کسی تقریب میں کرپشن کے الزامات عائد کئے ہوں۔ کابینہ میٹنگ کے دوران وزراء اور وزیراعلیٰ احتجاجاً باہر چلے گئے تھے۔ شاہ خاور نے پوچھا کیا یہ درست ہے کہ وزیراعلیٰ نے آپ کی خدمات وفاقی حکومت کے حوالے کردی تھیں اس پر بابر کا کہنا تھا ایسا نہیں ہوا وزیر اعلیٰ نے اپنے رویئے پر شرمندگی کا اظہار کیا۔

میں نے بطور چیف سیکرٹری کے وزیراعظم پاکستان کو ایمرجنسی یا گورنر راج کے نفاذ کا نہیں کہا تھا اس لئے کہ یہ میرے اختیار میں نہیں تھا۔ صوبائی حکومت کے کہنے پر میں نے چار ماہ کی رخصت لے لی تھی۔ میرے چارج چھوڑنے کے بعد محفوظ علی خان کو ایڈیشنل چارج دیا گیا مجھے ایسی کو دستاویز نہیں ملی کہ جس سے یہ پتہ چلے کہ پی بی 43 اور پی بی 48 میں خراب صورتحال ہے اور وہاں انتخابات نہیں ہوسکتے۔

میں نے کسی کو بھی نہیں بتایا تاہم تربت میں تعینات ریٹرننگ آفیسر کو نتائج مکمل ہونے کے بعد بتا دیا تھا۔ بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کے وکیل شاہ حامد نے جرح کی جس کے جواب میں پہلی دفعہ پیش ہورہا ہوں جب بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تب بھی چیف سیکرٹری تعینات تھا۔ پنجگور ‘ تربت اور خاران میں حالات بہتر نہیں تھے۔ میں نے اسلم رئیسانی کی خدمت میں اخلاقی حیثیت ختم ہونے کا گلہ کیا تھا 411 درخواستیں بھی دائر کی تھیں اور یہ سب درست ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن پر جرح مکمل ہونے کے بعد جوڈیشل کمیشن نے مزید کارروائی آج منگل ڈیڑھ بجے تک ملتوی کرتے ہوئے سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان کو جرح کیلئے طلب کرلیا ہے۔