ذوالفقار مراز پیشی کیس،سندھ ہائیکورٹ نے آئی جی کامعافی نامہ مسترد کردیا ، فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ،23 مئی کوذوالفقار مرزا کیپیشی کے موقع پر پولیس اہلکاروں نے عدالت کا محاصرہ اور ماسک لگائے اہلکاروں نے ذوالفقار مرزا کے محافظوں سمیت صحافیوں پر تشدد کیاتھا، پولیس افسران نے فون کا جواب نہیں دیا تو عدالت کو رینجرز طلب کرنا پڑی، سی سی ٹی وی فوٹیج میں اے ڈی آئی جی ، ڈی آئی جی ویسٹ، ایس ایس پی ساوٴتھ نظر آرہے ہیں،وکیل، آئی جی سمیت تمام افسران پر فردجرم عائد کی جائے گی، ملزمان کو کٹہرے میں کھڑاکریں گے، عدالت کے تقدس کا معاملہ ہے کسی صورت معاف نہیں کرسکتے،عدالت،عدالت کا ڈی آئی جی ویسٹ ، ایس ایس پی ، ایس پی سٹی ، ایس پی صدر،اور اے آئی جی لوجسٹک کو حلف نامے جمع کروانے کا حکم ، کیس کی سماعت 28 مئی تک ملتوی

بدھ 27 مئی 2015 06:29

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔27 مئی۔2015ء)سندھ ہائی کورٹ میں سجاد علی شاہ کی سربراہی میں ڈویڑن بینچ نے آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کی طرف سے جمع کروایا گیا غیر مشروط معافی نامہ مسترد کرکے 28 مئی کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔23 مئی کو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے باغی رہنما اور سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کی سندھ ہائی کورٹ میں حاضری کے موقع پر پولیس اہلکاروں نے عدالت کا محاصرہ کر لیا تھا اور سادہ کپڑوں میں ماسک لگائے اہلکاروں نے ذوالفقار مرزا کے محافظوں سمیت صحافیوں پر بھی تشدد کیا۔

منگل کو سندھ ہائی کورٹ میں سجاد علی شاہ کی سربراہی میں ڈویڑن بینچ نے انسپکٹر جنرل سندھ غلام حیدر جمالی، ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیبو، ڈی آئی جی ویسٹ فیروز شاہ اور ایس ایس پی ساوٴتھ طارق دھاریجو کے خلاف کیس کی سماعت کی۔

(جاری ہے)

آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی بھی عدالت میں پیش ہوئے اور معافی نامہ جمع کروایا۔ تاہم عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ کے معافی نامے کو مسترد کردیا۔

جسٹس سجاد شاہ کا کہنا تھا کہ محاصرے کے دوران جب پولیس افسران نے فون کا جواب نہیں دیا تو عدالت کو رینجرز طلب کرنا پڑی۔صحافیوں کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے عدالتی استفسار پر بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں اے ڈی آئی جی ، ڈی آئی جی ویسٹ، ایس ایس پی ساوٴتھ اور دیگر افسران نظر آرہے ہیں۔آئی جی سندھ کے اس موقف پر کہ محاصرے کے دوران تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لیا جارہا ہے، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آئی جی سندھ سمیت تمام متعلقہ افسران پر فردجرم عائد کی جائے گی، آئی جی سندھ سمیت ملزمان کو کٹہرے میں کھڑاکریں گے، عدالت کے تقدس کا معاملہ ہے کسی صورت معاف نہیں کرسکتے۔

آئی جی سندھ نے اپنے جواب میں کہا کہ دہشت گردی کا خدشہ تھا اس لئے پولیس منگوائی گئی۔ جس پرعدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا ہائیکورٹ کو بم سے اڑیا جارہا تھا کہ پورے شہر کی پولیس بلوائی گئی۔جس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ ہم ذمہ دار اہلکاروں کیخلاف کارروائی کریں گے، جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ جھوٹ کے پاوٴں نہیں ہوتے، آئی جی صاحب آپ غلط بیانی نہ کریں۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ بتایا جائے کہ کس کہ حکم پر عدالت کا گھیراو کیا گیا۔عدالت نے کہا اگر ہم انسپکٹر جنرل آف پولیس کا یہ نکتہ نظر تسلیم کرلیں کہ جدید اسلحے سے لیس ہائی پروفائل مجرموں نے عدالت کے احاطے میں گھسنے کی کوشش کی تو انہیں عدالت کے گیٹ پر گرفتار کرلیا گیا اور وہ بھی فائرنگ کے تبادلے کے بغیر تو پھر انسپکٹر جنرل آف پولیس اور ایڈیشنل آئی جی پولیس نے خاص طور پر اور ڈی آئی جی اور ایس ایس پی ساوٴتھ نے عدالت کے رجسٹرار سے بات کرکے انہیں اعتماد میں لینے کے بجائے ان سے رابطہ کرنے سے گریز کیوں کیا۔

عدالت کے نوٹس پر چیف سیکریٹری اور سیکریٹری داخلہ بھی عدالت میں پیش ہوئے، انہیں بھی ہدایت کی گئی کہ وہ صوبائی حکومت کا نکتہ نظر پیش کریں اور اس بات کی وضاحت کریں کہ سندھ ہائی کورٹ کے محاصرے کی کس نے ہدایت کی تھی اور کس نے سادہ لباس میں پولیس اہلکاروں کو اس آپریشن میں حصہ لینے کا اختیار دیا تھا۔اس موقع پر میڈیا کے نمائندوں کی جانب سے ایڈوکیٹ صلاح الدین احمد پیش ہوئے، انہوں نے ان افسران کی نشاندہی کے لیے عدالت کی مدد کی درخواست کی جو اس بدسلوکی میں ملوث تھے۔

عدالتی بینچ نے ان کی درخواست منظور کرتے ہوئے اس آپریشن میں شامل افسران کی تلاش کے لیے میڈیا کوریج فراہم کرنے کی ہدایت کی۔جسٹس سجاد شاہ نے ریمارکس دیے کہ ایکشن لیں گے، ہم کسی کو بھی عہدے سے برطرف کرنے میں تاخیر نہیں کریں گے، تب سپریم کورٹ جاکر اپنے آپ کو بحال کروایے گا'۔عدالت نے ڈی آئی جی ویسٹ فیروزشاہ، ایس ایس پی چوہدری اسد، ایس پی سٹی فداجانوری ، ایس پی صدرذیشان بٹ ،اور اے آئی جی لوجسٹک کو بھی حلف نامے جمع کروانے کا حکم دے دیا۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 28 مئی تک ملتوی کردی۔