مبینہ انتخابی دھاندلی کے انکوائری کمیشن نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد رائے محفوظ کرلی ،جوڈیشل کمیشن کے 39 اجلاس میں 69 گواہان سے جرح کی گئی ، 8 جماعتوں کے وکلاء نے تحریری اور زبانی دلائل دیئے

ہفتہ 4 جولائی 2015 08:54

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔4 جولائی۔2015ء) 2013 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات پر مامور انکوائری کمیشن نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد رائے محفوظ کرلی ۔جوڈیشل کمیشن کے 39 اجلاس منعقد ہوئے ۔ 69 گواہان سے جرح کی گئی جبکہ 8 جماعتوں کے وکلاء نے تحریری اور زبانی دلائل دیئے ۔ جمعہ کے روز جوڈیشل کمیشن میں تحریک انصاف کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ اور الیکشن کمیشن کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیئے۔

جمعہ کے روز کارروائی شروع ہوئی تو حفیظ پیرزادہ نے عدالت سے وقت مانگا کہ میں کچھ چیزوں کے جواب دینا چاہتا ہوں انہوں نے کہا کہ پنجاب کے 45 حلقوں میں اضافی بیلٹ پیپرز چھاپے گئے یہ مخصوص حلقے تھے ۔ یہاں 8 لاکھ سے زائد بیلٹ پیپرز چھاپے گئے اور اس کی گواہی جوڈیشل کمیشن پیش ہونے والے 11 آر اوز نے دی ۔

(جاری ہے)

ان حلقوں میں ملتان ، لودھراں ، خانیوال ، وہاڑی ، پاکپتن سمیت دیگر شامل ہیں ۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے لئے دو مختلف لسٹیں جاری ہوئیں ایک 21 اپریل اور دوسری 26 اپریل کو جاری ہوئی ۔ سب سے پہلے لسٹ 20 اپریل کو مرتب کی گئی تھی جس میں کچھ غلطیاں تھیں اور ان غلطیوں کو ختم کرنے کے بعد 21 اپریل کو لسٹ جاری کر دی گئی ۔ 26 اپریل کو حتمی لسٹ جاری کی ۔ بیلٹ پیپرز کی چھپائی 26 اپریل کو جاری کی گئی لسٹ کے مطابق تھی ۔

حفیظ پیرزادہ نے این اے 154 کو زیادہ فوکس کیا ہے تو بتاتا چلا کہ این اے 154 میں آر اوز نے جو تعداد بتائی تھی وہ کل ووٹرز کی تعداد سے کم تھی ۔لیکن الیکشن کمیشن نے راؤنڈ اباؤٹ کر کے 400600 بیلٹ پیپرز چھاپے ۔ اس حلقے میں کل ووٹرز کی تعداد 370150 تھی ۔ خیبرپختونخوا میں ایک ہی لسٹ جاری کی گئی جس کے مطابق بیلٹ پیپرز کی تعداد کا تعین کیا گیا تھا ۔جسٹس اعجاز افضل نے پوچھا کہ 21 اپریل اور 26 اپریل کو جاری ہونے والی فہرستوں میں کیا فرق تھا ۔

تو بتایا 21 اپریل کو جاری ہونے والی فہرست میں رجسٹرڈ ووٹرز کو 100 سے تقسیم کیا گیا تھا ۔ بلوچستان میں 12 فیصد جبکہ خیبرپختونخوا میں 5 فیصد اضافی بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ۔ اسپر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کہ پنجاب میں بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے لئے الگ فارمولا کیوں اپنایا گیا ۔پنجاب میں آر اوز نے بیلٹ پیپرز کی تعداد کا تعین کیا تھا جبکہ دیگر صوبوں میں صوبائی الیکشن کمیشن نے تعداد کا تعین کیا تھا ۔

سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ آر اوز تعداد کا تعین زیادہ اچھے انداز سے کر سکتے ہیں اور یہاں 21 اپریل کو الیکشن کمیشن نے ووٹرز لسٹ جاری کی تھی لیکن اس میں نئے ووٹرز کا اندراج نہیں تھا جبکہ 26 اپریل کو جاری کی جانے والی لسٹ میں نئے ووٹرز کی تعداد کا اندراج بھی کیا گیا ۔حفیظ پیرزادہ کے مطابق این اے 125 ، این اے 128 میں آر اوز نے غلطیاں کیں ۔

ان حلقوں میں آر اوز نے یہ غلطی کی تھی کہ انہوں نے راؤنڈ فگر نہیں دیا ۔ جس کی وجہ سے کچھ جگہ پر بیلٹ پیپرز کم ہو گئے تھے ۔سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ بیلٹ پیپرز کی تقسیم کے وقت آر اوز نے پیکنگ انوائس تیار کیے جو عدالت کے ریکارڈ پر ہیں ۔آر اوز نے پولنگ سٹیشنز پر تعداد کے مطابق بیلٹ پیپرزبھیجے ۔ جو بیلٹ پیپرز تقسیم نہیں ہوئے وہ مال خانے میں جمع کرا دیئے گئے ۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے سوال کیا کہ دوسروں صوبوں میں ایسا کیوں نہیں کیا گیا تو سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پنجاب کے حلقے دیگر صوبوں کے حلقوں کی نسبت بڑے ہیں اس لئے یہاں آر اوز سے مدد لی گئی ۔فارم 15 کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ آر اوز نے رزلٹ مرتب کرتے ہوئے فارم 15 اور فارم 14 سے مدد لی ۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فارم 15 الیکشن کمیشن اپنے پاس کیوں نہیں رکھتا ان کو آر اوز کے پاس کیوں رکھا جاتا ہے جبکہ آر اوز کا تبادلہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ وہ ضلعی عدالتوں کے جج ہوتے ہیں ۔

الیکشن کمیشن پاکستان کو انتخابات سے متعلق چیزیں اپنے پاس رکھنی چاہئے ۔ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ آر اوز کو ہدایت کی گئی تھی کہ پریزائیڈنگ افسر سے موصول ہونے والی چیزیں الیکشن کمیشن آف پاکستان اسلام آباد سیکرٹریٹ میں جمع کرائیں ۔ اس نقطہ پر میں عدالت سے متفق ہوں ۔ فارم 15 کے حوالے سے احکامات دیئے جانے تھے جو نہیں دیئے گئے ۔آر اوز نے بچ جانے والے بیلٹ پیپرز کی تفصیلات فارم 14 کے ساتھ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بجھوا دی ۔

فارم 15 میں اضافی معلومات صرف ضائع ہونے والے بیلٹ پیپرز اور کاسٹ کئے گئے ووٹوں کی ہوتی ہے ۔ پوسٹ الیکشن ریسپانس کی تیاری کے لئے اہم ذریعہ فارم 14 ہے جبکہ پیکنگ انوائس سے بھی مدد لی گئی ۔ فارم 15 کے علاوہ بھی 2013 کے نتائج کی بڑی تعداد میں تصدیق ہو سکتی ہے ۔ الیکشن میں سادہ غلطیاں ہوئیں فراڈ نہیں کیا گیا ۔ الیکشن ریکارڈ کو محفوظ بنانے کے لئے مختلف فارمز کا استعمال ہوتا ہے ۔

زیادہ حلقوں کے فارم 15بھی وصول ہو چکے ہیں جو 11 آر اوز یہاں آئے ان کے پاس بھی تمام فارم 15 موجود تھے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ریٹئرننگ آفیسران کی پلاننگ کے حوالے سے بتائیں کچھ آر اوز کا کہنا تھا کہ ان کو ٹریننگ نہیں دی گئی ۔ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے ٹریننگ دی تھی اس میں کچھ لوگ آ سکے اور کچھ نہیں ۔نادرا سپلمنٹری رپورٹ کے مطابق غلطیاں چھوٹی نوعیت کی ہیں ۔

رپورٹ کے مطابق شناختی کارڈ نمبرزمیں صرف ایک یا دو ہندسوں کی غلطیاں ہیں یہ انسانی غلطیاں ہیں ان کی بنا پر الیکشن کو بوگس نہیں کہہ سکتے ۔غیر تصدیق شدہ ووٹ کہہ سکتے ہیں ۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے سوال کیا کہ آر اوز کے پاس فارم 14 کی معلومات اور پولنگ سٹیشنز کے نتائج کیسے آئے ۔ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ جب پولنگ سٹشنز کا سامان الیکشن کمیشن کو واپس بھیجا گیا تو اس وقت پریزائیڈنگ آفسران نے تمام معلومات ریٹئرننگ آفسران کو مہیا کیں ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن ریکارڈ محفوظ رکھنے کے حوالے سے کیا پلاننگ کر رہا ہے ۔ کیا الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے زمین حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ مال خانے کی صورت حال بھی بری ہے وہاں بھی ریکارڈ محفوظ نہیں رکھا گیا ۔ا نتخابی ریکارڈ بطور گواہ محفوظ رکھنا ضروری تھا اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اس کی زمہ دار حکومت ، انتظامیہ اور الیکشن کمیشن ہے ۔

اس حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ فنڈنگ کا ہے ۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا کہ 2013 کے انتخابات میں مانیٹرنگ کی گئی۔ مانیٹرنگ کا کیا نظام تھا تو الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ سٹاف کی کمی کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا ۔سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ بلوچستان اور کراچی میں کچھ جگہوں پر بدانتظامی ہوئی ہے لیکن بلوچستان کے حوالے سے یہ کامیاب ترین الیکشن تھے ۔ان انتخابات میں بلوچستان میں ٹرن آؤٹ 42 فیصد رہا ۔انتخابی عمل اور پرنٹنگ کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں کہ بیلٹ پیپرز کی پرنٹنگ نجی پرنٹنگ کارپوریشن سے کروائی گئی یا پلاننگ کے تحت کسی کا مینڈیٹ چوری کیا گیا ۔الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد انکوائری کمیشن نے رائے محفوظ کرتے ہوئے سماعت کر دی ۔