افغان طالبان نے باضابطہ طور پر ملا عمر کی موت کی تصدیق کردی،خبر ویب سائٹ پر بھی جاری ،ملا اختر منصور نئے امیر مقرر ،آپس کے اختلافات ختم کرنے کیلئے 2 نائب امیر بھی مقرر ،ملاعمر کی ہلاکت پاکستان میں نہیں ہوئی، افغان سرحدی علاقے میں دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوئے تھے،شوری ٰ کونسل ،افغا ن حکومت اور طالبان میں امن مذاکرات غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی،مذاکرات کا دوسرا مرحلہ افغان حکومت کی درخواست پر ملتوی کیا گیا ،رپورٹ

جمعہ 31 جولائی 2015 08:28

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔31 جولائی۔2015ء)افغان طالبان نے باضابطہ طور پر ملا عمرکی موت کی تصدیق کردی ہے اور خبر اپنی ویب سائٹ پر بھی جاری کر دی ہے ۔میڈیارپورٹس کے مطابق طالبان کی جانب سے ملا عمر کی وفات کی خبر پشتو میں شائع کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مجاہد ملا عمر 23اپریل 2013ء کو شام کے وقت انتقال کرگئے جن کی موت افغانستان میں واقع ہوئی پشتو پریس ریلیز کے الفاظ ” دہ طالبانو مجاہد ملا عمر پہ23اپریل2013کنبے پہ افغانستان کنبے دہ مازیگر پہ وقت وفات شو۔

واضح رہے کہ دارور افغان انٹیلی جنس نے ملا عمر کی کراچی میں ہلاکت کی من گھڑت ختم نشر کی تھی جس کی طالبان نے گزشتہ روز پریس ریلیز کے ذریعے تردید کردی ہے ۔ادھرافغان طالبان شوریٰ نے ملاعمر کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے ملا اختر منصور کو افغانستان طالبان کا نیا امیر مقرر کر دیا ہے جبکہ طالبان کے درمیان اختلافات دور کرنے کے لئے 2 نائب امیر بھی مقرر کر دیئے گئے ہیں،ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کیمطابق افغان شوریٰ کے عہدیدار نے بتایا کہ ملا عمر کے بارے بی بی سی کی رپورٹ حقائق پر مبنی نہیں ہے،ملاعمر کی ہلاکت پاکستان کے شہر کراچی میں نہیں ہوئی بلکہ ملا عمر 2013 افغان سرحدی علاقے میں دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوگئے تھے،انہوں نے مزید بتایا کہ نائن الیون کے بعد امریکی اور اس کے اتحادیوں کی افغانستان پر حملے کے بعد طالبان امیرملا عمرافغانستان کے سرحدی کے علاقے ضلع نوزاداد کے گاؤں نزبی منتقل ہوگئے تھے اور زندگی کے آخری ایام اسی علاقے میں گزارے اور دوران جنگ طالبان جنگجوؤں کی مدد کرتے رہے ہیں،انہوں نے بتایا کہ ملاعمر کے ہمراہ انتہائی اہم طالبان کمانڈر عبد الجبار بھی ان کے ساتھ رہے جنہوں نے2013 افغان طالبان کے 5 عہدیداروں کوبتایا کہ امیر المومنین ملا عمر دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوگئے ہیں جس کے بعد افغان طالبان شوری کا اہم اجلاس ہوا جس میں اہم فیصلے کئے گئے،طالبان عہدیدار نے بتایا کہ گزشتہ روز بی بی سی رپورٹ کے بعد افغانستان کے روپوش علاقے میں افغان طالبان شوری کا اجلاس منعقد ہوا جس میں200 سے زائد طالبان رہنماؤں نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اجلاس میں افغان طالبان کیلئے نیا امیرالمومنین مختلف ناموں پر غور کیا گیا تاہم ملا اختر منصور کو نیا امیر المومنین مقرر کر دیا گیا ہے،ملا اختر منصور کے نام پر افغان طالبان شوری کا متفقہ فیصلے کے بعد اتفاق کیا گیا،رپورٹ کے مطابق افغان طالبان شوری نے2 نائب امیر بھی مقرر کئے ہیں جو افغان طالبان کے درمیان اختلافات کو دورکریں گے اور ملا اختر منصور کو نیا امیر تسلیم کرتے ہوئے بیعت کریں اور ان کے تمام فیصلوں پر من وعن عمل کریں۔

طالبان شوری کے عہدیدار نے بتایا کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا پہلا دور پاکستان میں ہوا ،امن مذاکرات کے مکمل اختیارات افغان طالبان کی سیاسی شوری کو حاصل ہیں ،امن مذاکرات کے دوسرے دور کیلئے افغان طالبان کی سیاسی شوری سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ہے،خبریں آ رہی ہیں کہ چین اور پاکستان امن مذاکرات کیلئے میزبانی کی پیشکش کی ہے تاہم حتمی مقام کے حوالے سے فریقین نے افغان طالبان کی سیاسی شوری سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔

ادھرافغا ن حکومت اور طالبان کے درمیان آج جمعہ کو اسلام آباد میں ہونے والے امن مذاکرات غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیئے گئے ۔ میڈیارپورٹس کے مطابق اسلام آباد کے نواحی سرد علاقے مری میں آج جمعہ کو ہونے والے مذاکرات کا دوسرا مرحلہ افغان حکام اور طالبان کے درمیان ہونے والا تھا مذاکرات کا دوسرا مرحلہ افغان حکومت کی درخواست پر ملتوی کیا گیا ہے ۔

مذاکرات کا اگلا مرحلہ بہت جلد منعقد ہوگا افغان حکومت نے مذاکرات کو ملتوی ہونے والی درخواست میں تاریخ اور جگہ کا فی الحال کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق مذاکرات کیلئے تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی تھیں افغان حکام کی جانب سے ملتوی ہونے کی درخواست کے بعد مذاکرات کے اگلے مرحلے کیلئے تاریخ اور جگہ کا تعین نہیں کیا گیا ہے یہ بھی امکان ہے کہ مذاکرات کا مقام بھی تبدیل کردیا جائے ۔

واضح رہے کہ تحریک طالبان کے امیر ملا عمر کی ہلاکت کے بعد مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے ہیں ان کی ہلاکت کے بعد تحریک طالبان کی 90رکنی شوریٰ نے طالبان کے نائب امیر ملا اختر منصور کو امیر مقرر کرنے کا ا علان کیا ہے، تحریک طالبان کے نو منتخب امیر ملا اختر منصور کی جانب سے مذاکرات جاری رکھنے کی حمایت حاصل ہے ۔ افغان طالبان کے قطر میں قائم سیاسی دفتر نے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں شامل نہ ہونے کا اعلان کیا ہے۔

جمعرات کو طالبان نے ویب سائٹ پر ایک بیان جاری کہا گیا ہے کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں قطر دفتر نہ شریک ہے اور نہ اسے اس عمل کا کوئی علم ہے۔افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرت کا دوسرا دور رواں ہفتے ہونے کا امکان ہے۔طالبان کی ویب سائٹ پر جاری اس مختصر بیان میں ذرائع ابلاغ میں مذاکرات کے بارے میں نشر ہونے والی ان خبروں کا حوالے دیتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں اس بابت تمام اختیارات اپنے سیاسی دفتر (یعنی قطر دفتر) کو سونپی دی ہیں،’جسے اس بارے (یعنی مذاکرات) کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔

اس سے قبل افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے ترجمان مولوی شہزادہ شاہد نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا آئندہ دور ماہِ رواں کے آخر میں منعقد ہو سکتا ہے۔تنظیم نے اپنے حالیہ بیان میں واضح کیا کہ اپنی پالیسی کے عین مطابق تمام سیاسی امور کے لیے ایک خاص دفتر قائم کیا ہے۔’ہم یہ بات پہلے بھی کئی مرتبہ واضح کرچکے ہیں اس بیان سے طالبان کے اندر دھڑے بندی کے اشارے ملتے ہیں اور یہ واضح ہوتا ہے کہ قطر دفتر کے نمائندے افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان پاکستان میں ہونے والے مذاکرات میں شریک نہیں تھے۔

اس سے قبل افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور پاکستان کے سیاحتی مقام مری میں ہوا تھا۔ سات جولائی کو ہونے والے مذاکرت میں طالبان کی جانب ملا عباس اخوند، عبدالطیف منصور اور حاجی ابراہیم حقانی شریک تھے۔پاکستان میں ہونے والے مذاکرات میں طالبان کے قطر میں قائم سیاسی دفتر کے عہدیدران شامل نہیں تھے۔مذاکرات کے پہلے مرحلے میں طالبان کے قطر دفتر کی عدم شمولیت اور آئندہ مذاکرات میں اْن کی نمائندگی کے حوالے سے مولوی شہزادہ شاہد نے کہا کہ مذاکرات کے دوسرے دور میں طالبان کے قطر دفتر کی نمائندگی ہونی چاہیے۔

افغان اْمور کے ماہرین کے خیال میں طالبان کے حالیہ بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مری میں ہونے والے مذاکرات میں شریک ہونے والے طالبان نمائندوں کا طالبان کے قطر دفتر کے دھڑے سے تعلق نہیں تھا یا انھیں اْن کی سرپرستی حاصل نہیں تھی۔افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے متوقع دوسرے راونڈ کے آغاز کے موقع پر ایسے بیانات کا سامنے آنا قیام امن کی کوششوں کے لیے اچھا شگون نہیں مانا جا رہا ہے۔

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اور سپریم رہنما ملا محمد عمر کے عید کے موقع پر آنے والے بیان میں مذاکرات کی عمومی حمایت تو تھی لیکن مری مذاکرات کا خاص کر نام لے کر ذکر نہیں تھا۔سات جولائی کو پاکستان میں ہونے والے مذاکرات کے بعد آٹھ جولائی کو طالبان کی رہبر شوریٰ نے ایک بیان جاری کیا تھا۔ جس میں مری میں ہونے والے مذاکرات کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔

لیکن بیان میں بات واضح طور پر کی گئی تھی کہ آئندہ مذاکرت کا اختیار صرف اور صرف سیاسی دفتر ہی کو حاصل ہو گا۔دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا دوسرا مرحلہ طالبان قیادت کی درخواست پر ملتوی کیا گیا ہے ۔ دفتر خارجہ سے جاری بیان میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ تحریک طالبان کے امیر ملا عمر کی ہلاکت کے حوالے سے اطلاعات اور ا س کے نتیجے میں غیر یقینی صورتحال کے بعد طالبان قیادت کی درخواست پر اکتیس جولائی کو پاکستان میں فریقین کے درمیان امن مذاکرات کا دوسرا مرحلہ غیر معینہ مدت تک ملتوی کیا گیا ہے ۔

دفتر خارجہ کا یہ کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستا ن کے دیگر وست ممالک چاہتے ہیں کہ افغانستان میں پائیدار امن قائم ہو اور امید کرتے ہیں کہ طالبا ن قیادت مذاکرات کا عمل جاری رکھے گی تاکہ افغانستان میں دیر پا امن کو فروغ مل سکے ،پاکستان سمیت دوست ممالک افغانستان میں پائیدار امن کی کوششیں جاری رکھیں گے ۔یہ امیدبھی کی جارہی ہے کہ وہ قوتیں جو اپنے برے عزائم سے امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں انکے عزائم کو کامیاب نہیں ہونے جائے گا ۔ پاکستان دونوں فریقوں کے درمیان امن مذاکرات میں مصالحت کا کردار ادا کررہا ہے اس سلسلے میں پاکستان امریکہ چین اور دوست ممالک کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے ۔