نوابزادہ براہمداغ بگٹی کا بلوچستان کے مسئلے پر مذاکرات پر آمادگی کا اظہار، بلوچ عوام چاہتے ہیں تو وہ آزاد بلوچستان کے مطالبے سے دستبرداری کیلئے تیار ہیں، برطانوی نشریاتی ادارے سے بات چیت

جمعرات 27 اگست 2015 09:21

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔27اگست۔2015ء )بلوچ ری پبلکن پارٹی کے سربراہ اور جلاوطنی کی زندگی گزرانے والے بلوچ رہنماء نوابزادہ براہمداغ بگٹی نے بلوچستان کے مسئلے پر مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بلوچ عوام چاہتے ہیں تو وہ آزاد بلوچستان کے مطالبے سے دستبرداری کیلئے تیار ہیں۔بدھ کو برطانوی نشریاتی ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے معاملے میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ایک لحاظ سے شکست ہوئی ہے اور انھیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کا طریقہ غلط تھا اور پرامن بات چیت کے لیے آگے آنا ہوگاانہوں نے کہا کہ بلوچستان میں گزشتہ دس پندرہ سال کے تشدد، قتل و غارت، گرفتاریوں، گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشوں کے ملنے سے کیا فرق پڑا کیا اس سے بلوچ ذہن تبدیل ہوا یا ان کی سوچ مزید پختہ ہوئی اگر ہمارے دوست، ساتھی، سیاسی حلیف اور عوام کی اکثریت یہ چاہتی ہے تو ہم بالکل پاکستان کے ساتھ رہنے کو تیار ہیں اگر وہ ہم سے ملنا چاہیں تو ہم اس کے لیے تیار ہیں کیونکہ ہم سیاسی لوگ ہیں اور مسائل کا سیاسی حل چاہتے ہیں براہمداغ بگٹی نے لندن میں موجود وزیر داخلہ چوہدری نثار کی جانب سے تو کسی رابطے سے انکار کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام معاملات سیاسی اور پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں اگر وہ ہم سے ملنا چاہیں تو ہم اس کے لیے تیار ہیں کیونکہ ہم سیاسی لوگ ہیں اور مسائل کا سیاسی حل چاہتے ہیں یہ تو بہت بیوقوفی کی بات ہوگی کہ کوئی کہے کہ وہ بیٹھ کر مسائل حل کرنا چاہتا ہے اور ہم کہیں کہ نہیں انہں نے کہا کہ ماضی میں بھی ان سے بہت مرتبہ رابطے تو ہوئے لیکن کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی پیپلز پارٹی کے دور میں رحمان ملک وغیرہ نے بات چیت کی تھی تو اس پر جب زرداری سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ ان لوگوں سے ضرور ملیں لیکن فوج اور اسٹیبلشمنٹ آپ سے بات نہیں کرنا چاہتی۔

(جاری ہے)

‘براہمداغ نے کہا کہ مذاکرات کے لیے ماحول سازگار ہونا ضروری ہے۔ ’اگر قتل و غارت جاری ہو تو ایسے میں مذاکرات کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اسی لیے ہمارا کہنا ہے کہ آپریشن بند کیا جائے، تمام فورسز کو واپس بلایا جائے تو اس کے بعد ہی بات چیت کے لیے ماحول سازگار ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم تو تو مظلوم قوم ہیں اور نو سال سے آپریشن کا شکار ہیں۔

طاقتور وہی ہیں۔ وہ کیا دینے کو تیار ہوں گے؟ وہ کیا ایجنڈا رکھتے ہیں۔اگر وہ آتے ہیں تو ہم انھیں وہی ایجنڈا پیش کریں گے جو ہماری اکثریت کو منظور ہوگا فورسزہر مسئلے کو طاقت سے حل کرنا چاہتی ہے جو کہ غلط ہے۔ بلوچستان میں حالات خراب بھی انہوں نے کیے تھے اور اسے صحیح بھی وہیں کریں گے اس خون خرابے اور طاقت کے استعمال سے کچھ نہیں ہوگاانہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔

لیکن دس پندرہ برس بیت چکے ہیں۔ آپ نے ان برسوں میں کب کوشش کی۔ بات صرف اخبارات اور حکومتی اجلاسوں تک محدود رہتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے مائنڈسیٹ کو تبدیل کرے کیونکہ طاقتور وہی ہیں بلوچستان میں حکومت کی جانب سے ترقیاتی سرگرمیوں کے بارے میں سوال پر براہمداغ نے کہا کہ ’بلوچستان میں جو بھی ترقی ہو، وہاں عوامی حکومت ہے ہی نہیں۔ ترقی کے ان فیصلوں میں بلوچ عوام کی مرضی شامل نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ ان کے صوبے میں کیا ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر بھارت ہماری مدد کرتا ہے تو ہم اس سے انکار نہیں کریں گے کیونکہ اپنے دفاع کے لیے ہر کوئی مدد مانگتا ہے اور ہم اسی طرح اقوامِ متحدہ اور امریکہ سے بھی مدد مانگ سکتے ہیں کیونکہ’بھارت نے تو بلوچستان میں آپریشن کے لیے نہیں کہا تھا یہ اسٹیبلشمنٹ کی ناکامیاں ہیں۔