سلمان تاثیر قتل کیس، انسدادِ دہشت گردی عدالت کا فیصلہ بحال ، ممتاز قادری کو دو بار سزائے موت دینے کا حکم،عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے دہشت گردی کی دفعہ ختم کرنے کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دے دیا ،عدالتی فیصلے سے اصلاح ممکن نہیں معاشرے میں برداشت کا کلچر پروان چڑھانے کی ضرورت ہے، جسٹس آصف سعید ،نظر ثانی کی درخواست دیں گے،عدالتِ عظمیٰ کے شریعت اپیلٹ بینچ میں فیصلہ چیلنج بھی کریں گے، وکیل ممتاز قادری

جمعرات 8 اکتوبر 2015 09:38

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔8اکتوبر۔2015ء) سپریم کورٹ نے سابق گورنرپنجاب سلمان تاثیر کے قتل میں ملوث ممتاز قادری کے حوالے سے انسدادِ دہشت گردی عدالت کا فیصلہ بحال کرتے ہوئے دو بار سزائے موت دینے کا حکم دے دیا جبکہ عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے دہشت گردی کی دفعہ ختم کرنے کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دے دیا ہے ۔ یہ حکم جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مسلسل تین روز کی سماعت کے بعد جاری کیا ہے ۔

اپنے مختصر کے حکم میں عدالت نے انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ بحال کیا ہے جس میں ممتاز قادری کو انسداد دہشت گردی کی دفعہ 7اے ٹی اے کے تحت اور ضابطہ فوجداری قانون کے تحت الگ الگ سزائے موت دی گئی تھی ۔ جسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے 302 کی حد تک سزائے موت برقرار رکھی تھی تاہم دہشت گردی کی دفعہ ختم کر دی تھی ۔

(جاری ہے)

جس کے خلاف ممتاز قادری نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جبکہ وفاقی حکومت نے دہشت گردی کی دفعہ کو ختم کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا ۔

ممتاز قادری کی جانب سے خواجہ شریف اور نذیر اختر ایڈووکیٹ پیش ہوئے ۔خواجہ شریف ایڈووکیٹ نے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ ملزم کو اس کام پر اکسانے والے مولویوں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی ۔ استغاثہ کو چاہئے تھا کہ ان کو بھی شامل تفتیش کرتے اور ان کو بھی سزا دیتے جبکہ ممتاز قادری کے دوسرے وکیل نذیر اختر کا موقف تھا کہ اسلامی تاریخ میں جس نے بھی اللہ کے نبی کی شان میں گستاخی کی اس کی سزا موت رکھی گئی ہے اور یہ کہ سزائے موت کے حوالے سے ملزم سے قصاص اور دیت طلب نہیں کی جا سکتی ۔

گورنر پنجاب اچھا انسان نہیں تھا اور ممتاز قادری کی مارنے کی نیت اچھی تھی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر اس طرح ہر کو اجازت دے دی گئی تو معاشرہ فساد کا مجموعہ بن جائے گا ۔عدالتی فیصلے سے اصلاح ممکن نہیں ہے اس کے لئے معاشرے میں برداشت کا کلچر پروان چڑھانے کی ضرورت ہے ۔ معاشرے برادشت کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے یہ مخصوص ذہنیت ہے جس کو سکولوں ، کالجوں ، دفاتر اور دیگر جگہوں پر پروان چڑھایا جاتا ہے ۔

اس پر ممتاز قادری کے وکیل نذیر اختر نے کہا کہ ناموس رسالت کے متعلقہ مقدمے قصاص اور دیت نہیں ہے ۔ جہاں حد جاری نہ ہو وہاں تعزیر کے تحت سزا دی جا سکتی ہے ۔آپ کم سے کم سزا دیں ۔دہشت گردی کی دفعہ بنتی ہی نہیں ۔ نئے قانون میں جو ترمیم کی گئی ہے اس میں نہ صرف جہاد کو نقصان ہو گا بلکہ دہشت گردوں کے خلاف جاری ضرب عضب بھی متاثر ہو گا ۔سرکاری وکیل عبدالرؤف چودھری نے کہا کہ یہ دہشت گردی اور قتل کا مقدمہ ہے لہذا سزائے موت دی جائے ۔

جس پر عدالت نے مشاورت کے لئے پندرہ منٹ کا وقت لیا ۔بعدازاں فیصلہ سناتے ہوئے وفاقی حکومت کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بارے میں درخواست منظور کر لی اور دہشت گردی کی دفعہ ختم کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ۔ اس طرح سے عدالت نے انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ بحال کرتے ہوئے ممتاز قادری کو دو بار سزائے موت دینے کا حکم دیا ہے ۔

ممتاز قادری کے وکیل نذیر اختر نے خبر رساں ادارے سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ ہم اس فیصلہ کیخلاف سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دیں گے اور عدالتِ عظمیٰ کے شریعت اپیلٹ بینچ میں فیصلہ کو چیلنج بھی کریں گے کیونکہ اس میں ناموس رسالت کے حوالے سے شرعی معاملات بھی زیرِ بحث آئے ہیں۔فیصلے کے چیلنج کرنے کا حتمی فیصلہ آئندہ چند روز میں کیا جائے گا ۔

عدالت نے ممتاز قادری کے جذبہ عشق مصطفیٰ اور اس کے اقدام کو جرم قرار دیا یہ فیصلہ معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرے گا ۔جس طرح سے شان رسالت میں کئی لوگ ہرزہ سرائی کرتے ہیں اس فیصلے سے ان کی حوصلہ افزائی ہو گی ۔ یہ عدالت کا فیصلہ ہے کہ اس کو ہم شریعت اپیلٹ بینچ میں چیلنج کریں گے ۔واضح رہے کہ سابق گورنر پنجاب کو چار جنوری 2011 کو سپر مارکیٹ اسلام آباد میں اس وقت اس کے اپنے ہی گارڈ ممتاز قادری کی جانب سے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا جب وہ کھانا کھا کر باہر آ رہے تھے اور ممتاز قادری نے گرفتاری دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ سلمان تاثیر نے شان رسالت میں گستاخی کی ہے ۔ اس لئے میں نے اسے مار دیا ہے میرا اور کسی سے کوئی جھگڑا نہیں ہے ۔