تلور کا محدود شکار، سپریم کورٹ میں وفاق، پنجاب،سندھ اور بلوچستان نے ایکا کرلیا،کے پی کے حکومت نے غیر جانبداری کامظاہرہ کرتے ہوئے مقدمے میں نظرثانی کی درخواست دائرنہیں کی اورعدالتی فیصلے کی حمایت کی،عدالت نے بیرسٹر علی ظفرسے آئین کے آرٹیکل 184(3) اور نظرثانی کی درخواستوں کے دائرہ کار پرآج جمعہ کوحتمی دلائل طلب کر لیے، ہم نے جو کچھ کرنا ہے قانون کے مطابق کرنا ہے،جسٹس ثاقب نثار، کیاملک میں امیر اورغریب کیلئے الگ الگ قوانین ہیں،جسٹس فائزعیسی

جمعہ 8 جنوری 2016 09:38

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 8جنوری۔2016ء )سپریم کورٹ میں وفاق اور تین صوبائی حکومتوں پنجاب،سندھ اور بلوچستان نے سائبریاسے آنے والے نایاب مسافر پرندے تلور کے محدود شکار پر ایکا کرلیا،کے پی کے حکومت نے غیر جانبداری کامظاہرہ کرتے ہوئے مقدمے میں نظرثانی کی درخواست دائرنہیں کی ہے اورعدالتی فیصلے کی حمایت کی ہے ،عدالت نے رحیم یارخان اور ڈی جی خان ،سمیت بعض اضلاع کے اراکین پارلیمنٹ کی درخواست پران کے وکیل بیرسٹر علی ظفرسے آئین کے آرٹیکل 184(3)اورنظرثانی کی درخواستوں کے دائرہ کار پرآج جمعہ کوحتمی دلائل طلب کر لیے ہیں مختصرفیصلہ جاری کیے جانے کاامکان ہے ۔

سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک اوربلوچستان حکومت کے وکیل ایازخٹک نے دلائل میں وفاق کے موقف کی تائیدکی ،جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم نے جو کچھ کرنا ہے قانون کے مطابق کرنا ہے۔

(جاری ہے)

اگر قانون میں تلور کے شکار کی اجازت ہے تو عدالت اسکے خلاف نہیں جائے گی۔جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہاہے کہ کیااس ملک میں امیر اورغریب کے لیے الگ الگ قوانین ہیں ،اگر غیرملکیوں کوشکارکی اجازت دی جاسکتی ہے توپھراپنے ملک کے لوگوں کویہ اجازت دینے میں کیاہرج ہے ،جب آخری تلورماراجائیگاتوکیاحکومت شکارکے لیے کسی اورپرندے کی پیشکش کرے گی ،کیاہم میرٹ پر قانون بنارہے ہیں؟جبکہ چیف جسٹس انور ظہیرجمالی نے کہاہے کہ سندھ حکومت نے اگر کوئی کوڈآف کنڈکٹ بناناہی تھاتوپھرشکارکے لیے بناتے ، اگر حکومت تلور کے شکار پر پابندی پر سنجیدہ ہے تو اس کیلئے قانون سازی ہونی چاہیے تھی درخواست گذار کا کہنا ہے کہ اگر تلور کے شکار پر مکمل پابندی لگی تو غیر قانونی شکار ہو گا۔

جمعرات کے روز سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ دوران سماعت سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تلور شکار کے کھیل کا پرندہ ہے، اسکی نسل کو کوئی خطرہ نہیں۔ شکار کا لائسنس جنگلی حیات کے تخفظ کو مد نظر رکھتے ہوئے دیا گیا۔ لیکن سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ نے مکمل پابندی لگا دی۔ حالانکہ سندھ وائلڈ لائف کے قانون میں شکار کی مکمل پابندی نہیں۔

صوبائی وائلڈ لائف ایکٹ کے مطابق صوبائی حکومت کو اختیار ہے کہ وہ شکار کے کھیل کے لائسنس جاری کرے۔ ہم نے شکارکی حدتک کوڈآف کنڈکٹ بنایاتھااوراس کامقصد شکارکوتحفظ دیناتھاشکاری کونہیں ۔ عدالتی استفسار پر فاروق ایچ نائیک نے قانون کے کلاز پڑھے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے جو کلاز پڑھے ہیں وہ لگتا ہے جلدی میں لکھے گئے ہیں۔

اور جلدی کا کام تو شیطان کا ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ آپ نے بھی آرڈیننس نہیں پڑھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر حکومت تلور کے شکار پر پابندی پر سنجیدہ ہے تو اس کیلئے قانون سازی ہونی چاہیے تھی۔ فاروق ایچ نائیک نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک بھر میں پابندی لگا دی گئی ہے جو سندھ کے جنگلی حیات کے قوانین کے خلاف ہے۔

انیس سو بہتر میں جب جنگلی حیات کا قانون بنا تو اس وقت تلور کے شکار کی اجازت تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ تلور کی افزائش میں اضافہ ہو رہا ہے۔قبیلے کے سردار عطاء الرحمان کے وکیل عدنان نے دلائل کا آغاز کیا ۔ دو درخواستوں کا فیصلہ بلوچستان ہائی کورٹ نے کیا تھا میں اس مقدمے میں بلوچستان ہائی کورٹ کی حد تک فریق نہیں تھا مگر سپریم کورٹ میں رجوع کیا تھا ۔

61 دن تاخیر سے درخواست دائر کی تھی جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ آپ یقینی طور پر تاخیر سے سپریم کورٹ آئے تھے اور اس حوالے سے آپ نے دلائل دیئے تھے ۔ وکیل نے کہا کہ میں نے دو درخواستیں ایک تاخیر کے حوالے سے اور دوسری درخواست اصل معاملے کے بارے میں تھی یہ دونوں درخواستیں خارج کر دی گئی تھیں ۔ عامر ظہورالحق کے ٹائٹل سے میں نے دخواست سپریم کوٹ بھی دائر کی تھی اور فریق بننے کی استدعا کی تھی ۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آپ مزید دلائل دیں گے یا کسی کے دلائل اختیار کریں گے تو اس پر وکیل نے کہا کہ وہ اٹارنی جنرل کو سپورٹ کرتے ہیں مگر انہوں نے مزید بھی کچھ کہنا ہے ۔ عدالتی فیصلے میں 4 پہلوؤں پر بات کی گئی ہے جس میں بین الاقوامی معاہدوں کی بات کی گئی ۔ صوبوں کے قوانین کا بھی کہا گیا جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس پرندے کے شکار پر کوئی پابندی نہیں ہے وکیل نے کہا کہ وہ کچھ اس کے آگے کہنا چاہتے ہیں شیڈول I میں جن جانوروں اور پرندوں کی بات کی گئی ہے اس میں تلور نہیں آتا اور اس حوالے سے بلوچستان ، سندھ اور پنجاب کا قانون بھی اس سے نہیں روکتا ، محدود حد تک شکار کی اجازت تو پہلے ہی دے دی گئی ہے جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ان پرندوں میں تلور نہیں آتا ۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ شکار قانون کے دائرے میں ہے اور مکمل پابندی نہیں ہے ۔وکیل نے کہا کہ یہ درست ہے کہ قانون اس شکار کی اجازت دیتا ہے جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکہ مجھے بھی ایک سوال پوچھنا ہے آپ نے قانون سازی پر انحصار کیا ہے ؟ ذرا وہ پڑھ دیں ۔ بات ہجرت کرنے والے پرندوں کی ہے ۔ وکیل نے کہا کہ شیڈول I اجازت دے رہا ہے ۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اس شیڈول کو کون ترمیم کرے گا پارلیمنٹ کرے گی یا حکومت کرے گی ۔ 59 ایکٹ کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی حکومت مزید قانون سازی کر کے دیگر پرندوں کو بھی شامل کر سکتی ہے جو ہجرت کرکے آتے ہیں ۔ یہ پرندے اگر اسلام آباد یا آزاد کشمیر بھی جاتے ہیں تب بھی ان کا تحفظ کیا جائے گا کیا یہ درست ہے وکیل نے کہا کہ جی ہاں یہ درست ہے ۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ مزید کوئی دلائل سے رہ گیا ہے تو دلائل دیں ۔ میاں اعجاز احمد کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر ایڈووکیٹ پیش ہوئے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے باقیوں کے دلائل سن لئے ہیں کیا آپ ان میں اضافہ کرنا چاہیں گے یا کچھ نیا بیان کریں گے ۔ اس پر علی ظفر نے کہا کہ رحیم یار خان ، ڈی جی خان ، خان پور سے تعلق رکھنے والے عوامی نمائندوں نے درخواست دائر کی تھی جس پر وہ دلائل دیں گے ۔

یہ وہ علاقے ہیں جہاں تلور کا شکار کیا جاتا ہے اور یہ متاثر ہوتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کیا ہم اس درخواست کو ان کے ساتھ سن سکتے ہیں یا پھر (3)184 کی وجہ سے ان کو الگ سے سننا پڑے گا ۔ علی ظفر نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کو نظرثانی کی درخواستوں کے ساتھ سنا جائے ۔ جسٹس میاں ثاقب نے کہا کہ اگر ہم تمام نظرثانی کی تمام درخواستوں کو خارج کر دیتے ہیں تو پھر آپ کی درخواست کہاں جائے گی ؟ آپ آزاد نہیں رہ سکیں گے آپ نے نظرثانی کی درخواست دائر نہیں کر رکھی ہے آپ کی درخواست اگر نظرثانی ہے تو وہ زائد المیعاد ہے ۔

علی ظفر نے کہا کہ ان کی درخواست پھر بھی برقرار رہے گی ۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے نظرثانی کی بھی الگ سے درخواست دے رکھی ہے جس کا نمبر نہیں لگایا گیا ہے میں دلائل میں اضافہ ہی کر وں گا ریلیف دیا جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس شکار کو غیر قانونی قرار نہ دیا جائے ہم یہ چاہتے ہیں کہ صرف تلور ہی نہیں تمام جانوروں اور پرندوں کا شکار ممنوع قرار دیا جائے ۔

ہم چاہتے ہیں کہ تمام تلور کا تحفظ کیا جائے ۔ ہم یہ سب کیسے کر سکتے ہیں یہ بھی سوال ہے ؟کیا موجودہ قانون اس کے لئے کافی ثابت ہو گا اس کو حکومتی پالیسی کے مطابق بنانا ہو گا ۔ عالمی اداروں کی قرار دادوں کا مقصد یا کنونشن ( معاہدے ) اس لئے کئے جاتے ہیں کہ ان تلور پرندوں کا وجود برقرار بھی رہے اور شکار بھی ہو ۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ پرندے کا ہونا ضروری ہے وہ ہو گا تو شکار ہو گا ۔

علی ظفر نے کہا کہ جب آپ غیر قانونی شکار روکتے ہیں تو یہ سب آسان ہو جاتا ہے ترقی پذیر ممالک میں بھی اس حوالے سے اقدامات کئے گئے ہیں بین الاقوامی معاہدے شکار سے نہیں روکتے صرف پرندوں کا تحفظ چاہتے ہیں ۔ جسٹس عمر عطاء نے کہا کہ آپ کے پاس تحریری مواد ہے یا زبانی دلائل بھی دیں گے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ دیگر وکلاء کے دلائل بھی اختیار کریں گے ۔

کیا دلائل مکمل کریں گے کیونکہ اگلے روز جمعہ ہے ہمارے لئے مشکل یہ ہے کہ بنچ کے ایک ممبر دستیاب نہیں ہوں گے ۔ اگر آپ جمعہ کو مکمل کر لیتے ہیں تو ٹھیک ہے وگرنہ اگلے ہفتے یہ مشکل ہو جائے گا ۔ عدالت نے مخدوم علی خان سے کہا کہ کیا آپ بھی مکمل کر لیں گے ۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کو تونظرثانی کی درخواستوں کے ساتھ چلنا ہو گا ۔ عدالت نے کہاکہ جمعہ کو ساڑھے 10 بجے ہم اس کیس کو سنیں گے اس دوران علی ظفر نظرثانی اور آرٹیکل (3)184 کے دائرہ کار بارے بات کریں گے اور دلائل مکمل کریں گے ۔