فحاشی و عریانی کیس: پیمرا اور پی ٹی اے سے تجاویز طلب، 49 ہزار سے زائد فحاشی و عریانی کی ویب سائٹس بند ، 10 ہزار سے زائد توہین رسالت کا مواد ختم ، سوشل میڈیا پر قابل اعتراض 3365 صفحات ، 10 ہزار سے زائد پراکسی ویب سائٹس بھی بند کی گئی ہیں، سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش، کوئی قابل اعتراض مواد نظر آئے تو ویب سائٹ بند کردیں ،اسلام آنکھیں جھکانے کا حکم دیتا ہے،جسٹس اعجاز افضل، یوٹیوب کی بندش کی فی الحال تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی ، بیرون ممالک یوٹیوب کے ذریعے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ،ہمارے نوجوان ایسی چیزیں دیکھتے ہی کیوں ہیں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ،عدالت نے مزید سماعت 15 روز کیلئے ملتوی کر دی

بدھ 13 جنوری 2016 09:52

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 13جنوری۔2016ء) سپریم کورٹ نے یوٹیوب ، دیگر ویب سائٹس اور ٹی وی چینلوں پر فحاشی و عریانی کے پروگرام روکنے بارے سینئر قانون دانوں اور پیمرا اورپی ٹی اے سے قابل عمل تجاویز 15 روز میں طلب کی ہیں جس کی روشنی میں عدالت یوٹیوب کی بندش یا اس کے کھولنے کا فیصلہ کرے گی جبکہ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا ہے کہ انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والے مثبت ، تخلیقی اور تعلیمی مواد کے پھیلانے میں حوصلہ افزائی ہونی چاہئے جبکہ منفی سرگرمیوں اور نوجوان نسل کی تباہی کا سبب بنین والے تمام تر مواد تمام تر انٹرنیٹ ذرائع سے پھیلاؤ کو یقینی طور پر روکا جانا چاہئے ۔

ہم اپنی نوجوان نسل کو تباہ ہوتا نہیں دیکھ سکتے اسلامی تعلیمات یہ کہتی ہیں کہ ہماری نوجوان نسل کو چاہئے کہ وہ جب کوئی قابل اعتراض مواد انٹرنیٹ یا کسی بھی ویب سائٹ پر دیکھیں تو اس کو بند کر دیں ۔

(جاری ہے)

اسلام ویسے بھی آنکھیں جھکانے کا حکم دیتا ہے نوجوان نسل کو ضروری تربیت کی بہت ضرورت ہے کہ وہ اس طرح کے قابل اعتراض مواد سے نفرت کرنے لگیں جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ یوٹیوب کی بندش کی فی الحال تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی اس سے لوگوں کو تعلیم مل رہی ہے جو لوگ بیرون ملک جا کر حاصل نہیں کر سکتے وہ یوٹیوب کے ذریعے تعلیم حاصل کر رہے ہیں جہاں تک فحاشی و عریانی کا تعلق ہے تو ہمارے نوجوان ایسی چیزیں دیکھتے ہی کیوں ہیں ، پیمرا سمیت دیگر ادارے اس طرح کے مواد کو مکمل طور پر کیوں نہیں روکتے جبکہ جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں دو رکنی بنچ کے روبرو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پی ٹی اے قابل اعتراض مواد کو روکنے کے لئے بھرپور اقدامات کر رہا ہے پچھلے تین سالوں میں 49 ہزار سے زائد فحاشی و عریانی کی ویب سائٹس اور دیگر ذرائع بند کئے ہیں ۔

10 ہزار سے زائد توہین رسالت کا مواد ختم کیا ہے سوشل میڈیا کے ذریعے آنے وگالے قابل اعتراض 3365 صفحات ختم اور بند کئے ہیں ۔ 10 ہزار سے زائد پراکسی ویب سائٹس بھی بند کی گئی ہیں توفیق آصف نے محمد حسین محنتی کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ ٹی وی چینلوں پر ایسے ایسے پروگرام دکھائے جا رہے ہیں جس سے ہماری نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے ہمارا ملک اسلامی نظریئے کے تحت وجود میں آیا تھا آج یہ سب کام روکنے کی بے حد ضرورت ہے اگر ادارے یہ سب بند نہیں کر سکتے تو ان اداروں کو بھی بند کر دینا چاہئے کچھ چیزیں ہم نے اپنی نوجوان نسل کو نہیں دکھانی ہیں ۔

یہ ہماری اقدار کے خالف ہیں اس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اصل میں دیکھنا یہ ہے کہ کون سے معلومات کے ذرائع مثبت ہیں اور کون سے منفی ہیں اور کن ذرائع کو روکنے کی بے حد ضرورت ہے ۔ ڈائریکٹر جنرل پیمرا نے بتایا کہ یوٹیوب کے حوالے سے اقدامات کئے گئے ہیں اور یوٹیوب کے مقامی دفتر نے ہماری کوئی بھی درخواست کبھی مسترد نہیں کی ہے ہم جب چاہیں جو بھی مواد روکنا چاہیں روک سکتے ہیں اور یہ سب روک بھی رہے ہیں ۔

اس دوران عدالت نے ان سے پوچھا کہ کیا یوٹیوب پر فحاشی اور قابل اعتراض مواد موجود ہے تو اس پر ڈی جی نے بتایا کہ مواد اپ لوڈ کیا جا سکتا ہے تاہم اس کو ہم ختم کر سکتے ہیں ۔ یوٹیوب توہین رسالت کے حوالے سے قابل اعتراض مواد کی وجہ سے سپریم کورٹ نے بند کی تھی اب اس کی بندش کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس سے میرے بچوں سمیت لوگوں کی بڑ#ی تعداع علم سے مستفید ہو رہی ہے نجی ٹی وی چینل کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے اور قابل اعتراض پروگراموں پر دیگر ادارے کارروائی بھی کرتے ہیں ڈی اے جی نے عدالت سے استدعا کی کہ کچھ وقت دے دیں جواب داخل کرا دیں گے کیونکہ وفاق نے اس سلسلے میں جواب داخل نہیں کرایا ہے اس پر عدالت نے اکرم شیخ ، بیرسٹر ظفر اللہ ، توفیق آصف سمیت سینئر قانون دانوں ، پی ٹی اے، پیمرا اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو جامع جواب داخل کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 15 روز کے لئے ملتوی کر دی ہے ۔