کراچی،ایم کیو ایم کے مزید دو رہنماء مصطفی کمال کی صف میں شامل ہوگئے ،سابق رکن رابطہ کمیٹی وسیم آفتاب اور رکن سندھ اسمبلی محمد افتخار عالم کامصطفی کمال اور انیس قائم خانی کی جماعت میں شمولیت کا اعلان،محمد افتخار عالم نے اپنی نشست سے بھی استعفیٰ دے دیا ،ہمیشہ سوچتے تھے کارکنان محنت کرتے ہیں، انہیں ذلت کیوں ملتی ہے، وسیم آفتاب،جس شخص کیلئے دشمنیاں لیں اور لوگوں نے جانیں دیں وہ دراصل خود قوم کی لنکا ڈھانے میں آگے آگے ہے، پریس کانفرنس سے خطاب

جمعہ 11 مارچ 2016 10:14

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 11مارچ۔2016ء)متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے سابق رکن وسیم آفتاب اورکراچی کے حلقہ پی ایس 106سے رکن سندھ اسمبلی محمد افتخار عالم نے ایم کیو ایم چھوڑ کر مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کی جماعت میں شمولیت کا اعلان کردیا ہے ۔جبکہ ایم پی اے محمد افتخار عالم نے اپنی نشست سے بھی استعفیٰ دے دیا ہے ۔وسیم آفتاب نے کہا ہے کہ ۔

جس شخص کی ہم نے پوجا کی، جس کے نام پر لوگوں نے جانیں دیں ،جس شخص کی وجہ سے لوگوں سے دشمنیاں مول لیں وہی شخص ان کی لنکا ڈھانے میں آگے آگے ہے ۔خرابی ہماری صفوں میں نہیں بلکہ وہاں ہے جہاں سے چشمہ بہہ رہا ہے ۔کارکنوں کو اس جنگ میں ڈال دیا گیا ہے جو ان کی نہیں ہے ۔یہ ”را“ کے ایجنٹ نہیں بلکہ ان کا سودا کردیا گیا ہے ۔

(جاری ہے)

اس کا انہیں پتہ ہی نہیں ہے ۔

ہم ”را“ کو سپورٹ کرنے والے نہیں بلکہ محب وطن ہیں ۔بہکے ہوئے لوگوں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ جن لوگوں کے لیے وہ جدوجہد کررہے ہیں ان کے عزائم کیا ہیں ۔ریاست پاکستان ان لوگوں کو گلے لگائے اور ان کا ہاتھ تھامے ۔ہم کراچی کو خون ریزی سے بچانے آئے ہیں ۔آج کے دور میں حضرت امام حسین کا غم منانا اور ماتم کرنا آسان ہے لیکن یزید کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرنے کا حوصلہ ہم میں نہیں ہے۔

اس شخص کے ”را“ کا ایجنٹ ہونے کی بات سچ ہے لیکن لندن میں مقدمہ نہیں چلے گا اور نہ ہی یہ ثابت ہوسکے گا کہ اس کے دشمن ملک سے رابطے ہیں ۔ایم پی اے افتخار عالم نے کہا کہ ہم جب تحریک میں آئے تو ہمارا نعرہ ”منزل قریب ہے“ تھا اور اس کے بعد نعرہ تبدیل ہو کر ”ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے“ ہوگیا ۔اب بتایا جائے کہ آخرہماری منزل کیا ہے ۔

الطاف حسین انا پرست شخص ہیں ،وہ فیصلے اپنی تسکین کے لیے کرتے ہیں ۔ اسیروں اور شہداء کے خاندان آج بے یار و مدد گار ہیں ۔مصطفی کمال نے کہا کہ ہماری منزل ضمنی انتخابات نہیں بلکہ تنظیم سازی ہے ۔انیس قائم خانی نے کہا کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے ۔آگے آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو ڈیفنس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

وسیم آفتا ب نے کہا کہ 1987سے ایم کیو ایم سے وابستہ رہا ہوں ۔وہ قوم جس کی تہذیب اور تمدن کی شناخت علم کے نام سے تھی آج اس قوم کی کوئی شناخت نہیں ہے ۔ایم کیو ایم کا کارکن آج جس جگہ کھڑا ہے وہ مایوسی کا شکار ہے ۔15ہزار لوگ زمین کے اندر چلے گئے ۔ہزاروں مائیں اپنے بیٹوں سے محروم اور بیویاں بیوہ ہوگئیں ۔ہزاروں لوگ جلاوطن ہوئے ۔ہزاروں اسیر ہیں ۔

اس قوم کی شناخت ،غالب ،درد اور دامن کے نام سے ہوتھی تھی اور آج اس کے نام سے کیا کیا نہیں لگ رہا ۔اس شہر کے لوگ محنت کرکے اپنا مقام حاصل کرتے تھے آج ان کی شناخت کیا رہ گئی ہے ۔ایم کیو ایم میں یہ سوچ کر آئے تھے کہ لوگوں کے مسائل حل کریں گے ۔رابطہ کمیٹی کا ممبر بنا تو بہت ساری چیزوں سے آگاہی ہوئی ۔خرابی ہماری صفوں میں نہیں خرابی اس چشمے میں ہے جو جہاں سے بہہ رہا ہے ۔

جس شخص کی ہم نے پوجا کی، جس کے نام پر لوگوں نے جانیں دیں ،جس شخص کی وجہ سے لوگوں سے دشمنیاں مول لیں لیکن قوم کو پتہ ہی نہیں وہی شخص ان کی لنکا ڈھانے میں آگے آگے ہے ۔2012تک ہم لوگوں کے مسائل حل کرسکتے تھے ۔پیپلزپارٹی کے ساتھ ہمارا اتحاد لیکن ہم نہ ان کے دوست بن سکے اور نہ ہی دشمن ۔جب بھی پیپلزپارٹی پر کمزور موقع آتا تو ہم حکومت سے نکل جاتے ۔

مسلم لیگ (ق) جو کہیں نہیں تھی ان کو نائب وزیر اعظم اور اہم وزارتیں ملیں اور ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آیا اور ہم خالی ہاتھ حکومت میں آجاتے تھے ۔انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں حضرت امام حسین کا غم منانا اور ماتم کرنا آسان ہے لیکن یزید کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرنے کا حوصلہ ہم میں نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ اس شہر کو آگ اور خون میں جھونک دیا گیا ہے ۔

مذہب ،عقیدے اور فرقے کے نام پر لوگوں کو لڑایاجارہا ہے ۔ہم اس تقسیم کو روکنے کے لیے آئے ہیں ۔ہم ملک کے جھنڈے کی حرمت لوگوں کے دلوں میں بسانا چاہتے ہیں اور تکلیف دہ نعروں کو پاکستان زندہ باد کے نعروں میں بدلنا چاہتے ہیں ۔ریاست کو طے کرنا ہوگا کہ اس کا عمرانی معاہدہ کیا ہے ۔پاکستان کو مضبوط اور طاقتور ملک بنانا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ میری قوم میں ڈاکٹرقدیر جیسے لوگ ہیں ۔

ان میں آج بھی وطن کے لیے جان قربان کردینے کا جذبہ موجود ہے لیکن آج ان کو کہاں کھڑا کردیا گیا ہے ۔اگر اس شخص کو اپنی قوم کی فکر ہوتی تو وہ انہیں اس مقام تک نہیں پہنچاتا ۔اس شخص کو صرف لاشیں چاہئیں ۔اس نے کارکنوں کو کھالیں ،ذکوٰة اور فطرہ جمع کرانے میں لگادیا ۔انہوں نے کہا کہ دو ارب یا اس سے زیادہ پیسہ ذکوٰة اور فطرے کی مد میں جمع ہوتا ہے لیکن میں اس بارے میں حتمی طور پر نہیں کہ سکتا ہوں ۔

یہ پیسہ ان ہی کے لیے جمع ہوتا ہے ۔اگر اسے قوم کو فکر ہوتی تو اتنے کٹھن حالات میں کھالیں جمع کرنے کو نہیں کہتا ۔خدارا وہ قوم کو بخشے ۔اس قوم سے اس نے ووٹ مانگا تو اسے ووٹ دیا گیا ۔پھر کارکنوں کو کہا گیا کہ ریاست کے سامنے کھڑے ہوجاوٴ ۔حالانکہ انہیں پتہ ہی نہیں کہ انہیں کہاں لاکر کھڑا کردیا گیا ہے اور کارکنوں کو اس جنگ میں ڈال دیا گیا ہے جو ان کی ہے ہی نہیں ۔

وسیم آفتاب نے کہا کہ انہیں تو ہر وقت لاشوں کی سیاست کرنے کا شوق ہے ۔جب وقت گذر جاتا ہے تو کارکنوں کی حیثیت ان کی نظر میں اس طرح ہے جس طرح بیت الخلاء کا ٹشو پیپر ۔جو کارکن شہید ہوجاتے ہیں تو مرنے والے کارکنوں کے نام کا ایک پیکج ہے ۔تین دن سوگ ،ایمبولینس ،میت گاڑی اور تین دن کا کھانا ۔انہوں نے کہا کہ ہم ”را“ کو سپورٹ کرنے والے نہیں بلکہ محب وطن ہیں ۔

ریاست پاکستان ان لوگوں کو گلے لگائے ،ان کا ہاتھ تھامے ،ان کو دشمن نہ سمجھے ۔یہ ”را“ کے ایجنٹ نہیں ان کو کچھ پتہ ہی نہیں ہے ۔ہم اس فوج کے سپاہی ہیں جو مرنے کا عزم لے کر چلی ہے ۔ہم اس شخص سے تعلق رکھ رہے تھے جس شخص نے خود ہمارا سودا کردیا ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بھی پتہ نہیں کہ اس قوم کا لیڈر ان کی تباہی میں پیش پیش ہے اور ان کی پارٹی کا جنرل اپنے ہی سپاہیوں کو نشانہ بنارہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ریاست پاکستان ہمارے ساتھ ہونے والے دھوکہ کو پہچانے جو لوگ جیلوں اور تھانوں میں ہیں وہ ملک دشمن نہیں ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ان پر ”را” کے ایجنٹ ہونے کا جو الزام لگا ہے وہ سچ ہے اور اس کو ثابت کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا سورج کا مشرق کی بجائے مغرب سے نکلنا ۔انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں اس پر مقدمہ بھی نہیں چلے گا اور نہ ہی یہ ثابت ہوسکے گا کہ اس کے ایک دشمن ملک کے ساتھ مراسم ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ خدارا اب بھی وقت ہے قوم کے لوگ اور ایم کیو ایم کے کارکنان اپنی جانیں بچائیں اور ہمارے قافلے میں شامل ہوجائیں یا کہیں اور چلے جائیں ۔انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پہلے مضبوط جماعت ہوتی تھی لیکن وقت اور حالات نے ایم کیو ایم کو خود کہاں پہنچادیا ہے یہ خود ان کو بھی پتہ نہیں ہے۔لندن میں جب الطاف حسین گرفتار ہوئے تو کراچی میں ایک دھرنا دیا گیا جس میں 500لوگ بھی شریک نہیں تھے ۔

انہوں نے کہا کہ اس غبارے میں اتنی پنیں ماری گئی ہیں کہ آہستہ آہستہ اس غبارے سے ہوا ہی نکل گئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہر اندھیرے کے بعد روشنی ہے اور اب جو چراغ جلیں گے وہ روشن ہی ہوں گے ۔اس موقع پر سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 106سے ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی محمد افتخار عالم نے کہا کہ کارکنان اور ذمہ داروں کو ایک بہت بڑے طقبے کے ذہنوں میں مختلف قسم کے سوالات اٹھ رہے ہیں لیکن خوف کا طلسم انہیں بولنے نہیں دیتا ۔

انہوں نے کہا کہ جو باتیں مصطفی کمال اور انیس قائم خانی نے کی ہیں وہ باتیں ہمارے ذہنوں میں بھی تھیں لیکن خوف کی وجہ سے الطاف حسین کی جانب سے کی گئی ظلم و زیادتی کے خلاف کوئی لب کشائی نہیں کرتا ۔شہر میں لاشوں کی سیاست کو ختم کرنا ہوگا اور سب کو ساتھ چلنے کی سیاست کرنی ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز لیاقت آباد گیا ۔ایک عوامی رابطہ مہم میں منافقانہ تعریفیں کرنا پڑیں ۔

پہلے بھی ہم یہ تعریفیں کرتے تھے ۔ہم جب تحریک میں آئے تو ہمارا نعرہ ”منزل قریب ہے“ تھا اور اس کے بعد نعرہ تبدیل ہو کر ”ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے“ ہوگیا ۔اب بتایا جائے کہ آخرہماری منزل کیا ہے ۔افتخار عالم نے کہا کہ ہزاروں کارکنان ،ذمہ داران برسوں سے تحریک سے وابستہ ہیں ۔میں بھی طویل عرصہ سے تحریک سے وابستہ ہوں ۔24,24گھنٹے کام کرنے کے بعد بھی ہم پر اعتماد نہیں کیا جاتا ۔

ہر وقت وفاداری کا حلف لیا جاتا ہے ۔ہر لمحہ قربانی دے کر یہ ثابت کرنا پڑتا تھا کہ ہم وفادار ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے قائد تمام فیصلے اپنی تسکین کے لیے کرتے ہیں ۔یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ انہیں میرا یا ذمہ داروں کا نام بھی پتہ نہ ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ اسیروں اور شہداء کے خاندان آج بے یار و مدد گار ہیں ۔ان کی سال میں صرف ایک مرتبہ مدد کی جاتی ہے اور پھر فوٹو سیشن کرواکر قائد کو خوش کردیا جاتا ہے ۔

جو اخراجات قائد پر کیے جاتے ہیں اگر وہ ان خاندانوں پر خرچ کردیئے جائیں تو وہ مالی مشکلات سے نکل سکتے ہیں ۔لیکن یہاں تو یہی خوف ہوتا ہے کہ قائد کی ہنسی خوشی کے لیے ہے یا پھر وہ غصے میں آگئے ہیں ۔اگر وہ ہنس رہے ہیں تو ان کے لیے لاکھوں روپے کے اخراجات کیے جاتے ہیں اور کارکنوں کے اہل خانہ امداد کے لیے ترستے رہتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم کارکنوں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں ۔

ان کی لاشوں کو کبھی جناح گراوٴنڈ یا پھر کبھی وزیراعلیٰ ہاوٴس کے سامنے رکھ کر احتجاج کیا جاتا ہے اور پھر ایک منٹ میں احتجاج ختم بھی ہوجاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ خون کی ہولی اور ریاستی اداروں سے لڑنے کی باتیں کی جاتی ہیں ۔اسیر اور لاپتہ ساتھیوں کو بھی کچھ پتہ نہیں ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں ۔ایم کیو ایم کے کارکنان اپنی زندگیوں کو بچائیں اور اپنے نظریات کو تبدیل کرلیں اور یہ سمجھ لیں کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ جیل میں ساتھیوں کی حالت انتہائی خراب ہے ۔جیل کا عملہ ان سے پیسہ لیتا ہے ۔98فیصد طبقے کی بات کرتے ہیں لیکن اس طبقے کا خیال ان کو یا کسی کو نہیں ۔کارکنوں کو دھوکے میں رکھا جارہا ہے ۔گرفتار کارکنوں کے اہل خانہ مدد کے لیے آتے ہیں لیکن ان کے کیسز نہیں لڑے جاتے ۔گورنر صاحب یا کسی اہم شخصیت سے جھوٹے انداز میں ٹیلی فون کرکے خاندانوں کو اطمینان دلایا جاتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ الطاف حسین میں انا پرستی بھری ہوئی ہے ۔وہ کس حال میں خوش ہوں گے یہ ہمیں پتہ نہیں ہے ۔شہداء کے جنازے ان کے اہل خانہ کی مرضی کے بغیر جناح گراوٴنڈ میں ادا کیے جاتے ہیں اور پھر ان کی تدفین شہداء قبرستان میں کردی جاتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ جو کارکنان اور ذمہ دار یہ محسوس کرتے ہیں کہ تحریک کے اندر غلط ہورہا ہے وہ یہاں آئیں ۔

کسی کو موت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ موت برحق ہے ۔میں نے بھی کئی مرتبہ سوچا کہ ایم کیو ایم کے قائد کے خلاف آواز اٹھاوٴ لیکن خوف کی وجہ سے ایسا نہیں کرسکا ۔لیکن جب مصطفی کمال اور انیس قائم خانی آئے تو امید کی کرن جاگی ۔آج ایم کیو ایم کو خیرباد کہہ کر انیس قائم خانی اور مصطفی کمال کے ساتھ جدوجہد کرنے کا اعلان کرتا ہوں اور اپنی صوبائی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہوتا ہوں ۔

اس موقع مصطفی کمال نے کہا کہ ہماری منزل ضمنی انتخابات نہیں ہیں ۔ہم دو تین مہینے تک تنظیم سازی پر توجہ دیں گے اور نہ ہی ہماری نشستیں کا حصول ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم ریڈی میڈ سیٹ اپ لے کر نہیں آئے ہیں اور نہ ہی آسمان سے اترے ہیں ۔ہم تنظیم کو مضبوط کریں گے ۔وقت کے ساتھ ساتھ اپنی تحریک کو آگے بڑھائیں گے اور ضمنی انتخابات میں بھی اپنے پیغام کو پہنچائیں گے ۔

انہوں نے شہر والوں کو مبارکباد دی اور کہا کہ ہمارے آنے سے دس سال کے بعد لوگوں کو صفائی کا خیال آگیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ الزامات کی تحقیقات کرانا حکومت کا کام ہے ۔جو ثبوت حکومت کے پاس ہیں ان قائم کردہ کمیٹی کا حصہ بنایا جائے ۔جب ہمیں بلایا جائے گا تو پھر دیکھا جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم میں ہم نے طویل وابستگی کے بعد عہدے حاصل کیے لیکن اب تو پیرا شوٹ سے بھی لوگ اترنے لگے ہیں اور وہاں پر بھی فیصلے کچن کیبنٹ کرتی ہے ۔

عمران فاروق کے قتل کے بعد حالات تبدیل ہوگئے ۔انہوں نے کہا کہ ہزاروں لوگ ہم سے رابطہ کررہے ہیں ۔ہم نے اپنے پیغام کو عام کریں گے اور جلد نئے چہرے آپ کے درمیان ہوں گے اور آپ کو بار بار بلایا جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ ہماری کرکٹ آہستہ آہستہ ہے ہم تیز کھیلنے کے عادی نہیں ۔ہم لوگوں کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ہماری جدوجہد مستحکم پاکستان کے لیے ہے ۔اس موقع پر انیس قائم خانی نے کہا کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے آگے آگے دیکھئے کہ کیا ہوتا ہے ۔واضح رہے کہ افتخار عالم2013کے انتخابات میں ضلع وسطی کے حلقہ پی ایس 106سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے تھے ۔وہ ایم کیو ایم فیڈرل بی ایریا کے سیکٹر انچارج بھی رہ چکے ہیں ۔جبکہ وہ اپنے حلقے سے ناظم بھی رہے ہیں ۔